سعودی شاہی خاندان، وقت کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے۔ آل سعود خاندانی بادشاہت بچانے کے لئے وقت کا پہیہ اْلٹا گھمانا چاہتا ہے۔ ناممکن کو ممکن بنانا چاہتا ہے جو اب ممکن نہیں۔ انسانی شعور جس نہج پر پہنچ چکا ہے شخصی اور بادشاہت کا دور کب کا رخصت ہوا اورانبیاؑ کی مقدس سرزمین جزائر عرب سے بھی جلد یا بدیر رخصت ہونے والا ہے۔ آل سعود ، آئینی بادشاہت کا درمیانی راستہ تلاش کرنے کی بجائے اکیس ویں صدی میں غیرجانبداری نہیں کامل وفاداری پر اصرار کررہا ہے وہ بھی اپنے باشندوں سے نہیں ،ہمسایہ برادر ملک قطر سے، دنیا کی پہلی مسلم ایٹمی طاقت پاکستان سے اورسب سے بڑھ کرتمام اسلامی ممالک سے،جس کا مظاہرہ شب گذشتہ قطر کو تنہا کرنے کے لئے میدان میں نکلا تو بحرین اور متحدہ عرب امارات کے بعد خانہ جنگی کے شکار یمن اور لیبیا کے دو دھڑے ہی ان کے ہم سفر بن سکے۔اردن ،اومان، کویت جیسی خالص عرب ریاستیں اس تنازع میں مکمل طور پر غیر جانبدار ہیں امیر کویت کو اس بحران کو حل کرنے کے لئے ثالث کاکردار ادا کررہے ہیں۔
قطر تین اطراف سے سمندروں میں گھرا ہوا ہے، زمینی سرحد سعودی عرب سے ملحق ہے جو گذشتہ روز بند کردی گئی تھی قطر کی پچاسی فیصد درآمدات اور خوراک کا انحصار سعودی عرب کے ذریعے ہونے والی تجارت پر ہے۔اسی طرح قطر ائیرویز قطر کی معاشیات میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب کے فضائی راستے بند کردینے کے بعد قطر ائیرویز کا دنیا کے ساتھ رابطہ ایران کے ذریعے رہ گیا ہے جو کہ خاصا طویل ہوجائے گا۔متحدہ عرب امارات ،بحرین اور سعودی فضائی حدود بند کرکے قطر کا فضائی محاصرہ بھی مکمل کر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے قطر میں اشیائے خوردو نوش کی قلت ہوسکتی ہے لیکن ایرانی وزارت خوراک نے شہری ریاست کے باشندوں کو قحط سے بچانے کے لئے جنگی بنیادوں پر منصوبہ بندی شروع کردی ہے ۔سعودی سرحد بند ہونے کے بعد ہزاروں ٹرک اور کنٹینربے یارومددگار اورلاوارث میل ہا میل تک بکھرے پڑے ہیں جن میں ہرپل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے عراق پر امریکی حملے سے پہلے پیداہونے والی صورت حال کی یاد تازہ کردی ہے جب کہ مرحوم صدام حسین نے عراقی سرحدیں بند کرادیں تھیں اور ہزاروں ٹرالر بے یارومدد گار پھنس کررہ گئے تھے جنہیں ہفتوں وقتی طور پر سرحدیں کھول کرنکلنے کا موقع دیا گیا تھا لیکن قطر سعودی سرحد کا معاملہ یکسر مختلف ہے جسے اچانک ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کردیا گیا اوراس بحران کے حل ہونے تک جس کے کھلنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
قطری وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے جاری سفارتی بحران کے حوالے سے چشم کشاانکشافات کئے ہیں۔قطر کے خلاف پیدا ہونے والی صورت حال پر ہمیں افسوس ہے جس کی دیدہ ونادیدہ وجوہات کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں ہے اگر کوئی گلے شکوے تھے توان کا اظہار خلیج تعاون کونسل کے اجلاس یا بعدازاں مسلم سربراہی کانفرنس ریاض کے دوران ہونا چاہئے تھے لیکن دونوں مواقع پر سب کچھ نارمل تھا کسی قسم کے بحران کے کوئی آثار نہیں تھے۔قطری خبررساں ادارے کی ویب سائٹ ہیک ہونیکے بعد قطر کے خلاف بے بنیادافواہ سازی کا طوفان کھڑا کردیا گیا جس کی ڈوریاں سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سے ہلائی جارہی تھیں لیکن ہم نے اس پرمکمل صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور کوئی جوابی ردعمل نہیں دیا لیکن یہ سب کچھ ہمارے عمومی معیار شائستگی سے بہت فروتر تھا قطراورامیرقطر سمیت شاہی خاندان کی توہین کی گئی لیکن ہم نے صبر شکر کیا۔ایک سوال کے جواب میں وزیرخارجہ شیخ محمد نے بتایاکہ امیر قطر شیخ تمیم بن حماد الثانی شب گذشتہ جاری بحران پر قوم کو اعتماد میں لینے کے لئے خطاب کرنے والے تھے لیکن امیر کویت نے جاری اس بحران کو حل کرنے کے لئے وقت مانگا اورقوم سے خطاب کومؤخر کرنے کی درخواست کی۔ قطر کے خلاف کئے جانے والے اقدامات یک طرفہ ،جارحانہ اورغیرمعمولی نوعیت کے ہیں لیکن ہم اس قسم کا کوئی جوابی اقدام نہیں کریں گے ہم تمام مسائل کو برابری 'بقائے باہمی کے اصول کے تحت حل کرنا چاہتے ہیں۔
شیخ محمد نے بتایا کہ لاتعداد دوست ممالک کے وزرائے خارجہ نے مجھے مکمل حمایت کایقین دلایا ہے اورمعاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ایسے وقت جب عرب دنیا یمن، لیبیااورشام کی خانہ جنگی سے گذری ہے، ہمسائے میں عراق جنگ وجدل اور انتشار کا شکار ہے ایسے نازک مرحلے پرقطر کے خلاف نیامحاذ کھول کردینا عقل وفہم سے بالاتر ہے۔ اس سفارتی بحران نے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ سوالات کھڑے کردئیے ہیں جو بنیادی طور پر ایک زبان، ثقافت اورباہمی خاندانی تعلقات رکھتے ہیں لیکن بعض ہمسایہ ممالک کے قطر پر اپنی رائے مسلط کرنے اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کومکمل طور پر مسترد کرتے ہیں ہم کسی کو سر پرست کا کردار ادا کرنے نہیں دیں گے ۔ہمارے تعلقات برابری،خودمختاری اورباہمی احترام کی بنیاد پر ہی استوار رہ سکتے ہیں لیکن موجودہ بحران اورر ویوں نے خلیج تعاون کونسل کے حوالے سے سنگین سوالات پیدا کردیئے ہیں۔امریکہ سے تعلقات کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ سے قطر کے تعلقات ادارہ جاتی سطح پر مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار ہیں ہم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑرہے ہیں اس بحران کی وجہ سے ان تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
حرف آخر یہ کہ سعودی عرب قطر بحران میں پاکستان کیسے غیرجانبدار رہ سکتا ہے۔کیونکہ معاملہ ریاست کا نہیں'پاکستان کا نہیں حکمران شریف خاندان کا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر دونوں ہی شریفین کے محسن ہیں، شریف خاندان کو سعودی عرب نے برے وقت میں پناہ دی تھی اور قطری شاہی خاندان کے ساتھ پاکستانی 'شاہی' خاندان کے گہرے ذاتی اورتجارتی تعلقات ہیں پانامہ لیکس کی وجہ سے بھی قطر اہم تھا ۔اب قطری شہزادے نے شامل تفتیش ہونے سے انکار کردیا ہے ۔سعودی شاہی خاندان آل سعود' پاکستان سے غیر جانبداری نہیں مکمل وفاداری اور تابعداری چاہتے ہیں۔ہمارے نامور سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو انہوں نے اپنے مقاصد پورے نہ ہونے پر چیف سیکیورٹی افسر بنا کر رکھ دیا ہے۔ادارہ جاتی تشکیل و ترتیب کی عدم موجودگی میں پاکستان کیلئے ایک سے ایک نئی مشکل کھڑی ہورہی ہے،کشیدگی کے اثرات مشرق وسطیٰ کے علاوہ جنوبی ایشیا پر بھی مرتب ہوں گے، تہران کے علاوہ اب دوحا بھی سعودی عرب کی پالیسیوں کا مخالف ہے، جس کے ممکنہ اثرات مشرق وسطیٰ کے علاوہ جنوبی ایشیا پر بھی مرتب ہوں گے،پاکستان اس وقت بہت پیچیدہ صورت حال سے دو چار ہے کیونکہ یہاں دونوں متحارب ممالک سے ہمارے تعلقات ریاستی اور قومی کی بجائے ذاتی اور خاندانی نوعیت کے ہیں۔ پہلے صرف ایران کا مسئلہ تھا لیکن اب قطر بھی سعودی پالیسیوں کے خلاف نظر آتا ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں، لاکھوں پاکستانی کام کرکے زرِ مبادلہ بھیج رہے ہیں، جو پاکستانی معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے،اس کے علاوہ سعودی عرب ایک نواز شریف ہی کیا پرویز مشرف، اور جنرل راحیل شریف کا بھی ایک طرح سے محسن ہے۔دوسری تہران اور ریاض کے درمیان توازن کی بات کرنا غیر منطقی ہے، قطر کے خلاف اقدامات نے واضح کردیا ہے کہ سعودی عرب تابعداری چاہتا ہے، ریاض کو غیر جانبداری نہیں چاہیئے، اسلام آباد کو ایسی صورت حال درپیش ہے جیسے پل صراط سے گزرنا ہو۔
کچھ گم کردہ راہ عناصر اس نازک مرحلے پر بھی اپنی بے وقت کی راگنی سے باز نہیں آرہے کہ
"پاکستان میں خارجہ پالیسی وزیر اعظم نہیں چلا رہے بلکہ جی ایچ کیو چلا رہا ہے"لعنت ہے ایسی رائیگاں دانش پر جسے وقت کی نزاکت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38