2014ء میں بی جے پی کی غیر معمولی کامیابی کے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ نریندر مودی کا ماضی مسلمان دشمنی کے حوالے سے سیاہ کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے لئے مودی کا انتخابی بی جے پی کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ تھا۔ اپنی تاسیس کے بعداس جماعت نے بڑی مہارت سے ہندو ووٹ کو جمع کرنے کے لئے ایک طرف آر ایس ایس کی نظریاتی اساس کو استعمال کیا تاکہ ہندو ووٹ کو اکٹھا رکھا جائے اور دوسری جانب باجپائی جیسے نرم خو چہرے عوام کے سامنے رکھے تاکہ اس جماعت کو اعتدال پسند جماعت سمجھا جائے۔ یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا جب 2014 ء کو چنائو کا سامنا ہوا۔ آر۔ ایس۔ایس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے جب ہم کھل کر اپنے سیاسی تشخص کا اظہار کریں اور باجپائی اور ایڈوانی جیسے چہروں کی اب ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ موقع تھا جب اعتدال پسندوں کی مخالفت کے باوجود آر۔ایس ۔ ایس نے اپنے ایک مستند کارکن نریندر مودی کو بی جے پی کی قیادت دلوانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور یوں سخت گیر طبقہ کی حمایت سے پارٹی کی قیادت مودی کو سونپ دی گئی اور اس نے 2014ء کی انتخابی مہم چلانا شروع کر دی گجرات کے جرائم مودی کا راستہ روک سکے اور نہ ہی بی جے پی کی نمائشی اعتدال پسندی۔
مودی کو انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل ہوئی اور 1985ء کے بعد پہلی مرتبہ کسی پارٹی کو یہ امتیاز حاصل ہوا کہ وہ بغیر کسی اتحادی پارٹی کی مدد کے اپنی حکومت بنا سکے۔ مودی کو اتنی بڑی کامیابی میں سب سے بڑا کردار بڑے کاروباری اداروں کی سرپرستی کا ہے۔ گجرات میں مودی نے یہ شہرت حاصل کر لی تھی کہ وہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں ماہر ہیں اور ان کی قیادت میں معیشت ترقی کریگی لیکن مودی کا حقیقی ایجنڈا ہندوتا کا پرچار ہے اور وہ اس میں مسلمانوں کو ایک بڑا دشمن تصور کرتا ہے اس چیت میں انتخابات سے کچھ عرصے قبل مظفرنگر میں مسلمانوں کیخلاف ہونے والے فسادات نے اہم کردار ادا کیا جہاں نہ صرف 62 ہلاک ہونے والوں میں سے 42 مسلمان تھے بلکہ صدیوں سے آباد 50,000 مسلمان اپنے گھروں سے بے گھر کر دئیے گئے ۔ان فسادات، جن میں بی جے پی کے ایم پی اور ایم ایل اے ایس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بی جے پی کو یو پی میں بے مثال کامیائی دلوائی جہاں اس نے 80 میں سے 71 نشستیں جیت لیں۔ دو سال بعد ریاستی انتخابات میں بی جے پی نے اس سے بھی بڑی کامیابی حاصل کی جس کا سہرا ایک سادھوکے سر پر سجا ہے۔ جو ریاست کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے۔
یو گی ادیتا ناتھ، جو گورکھپور مندر کا مہنت ہے۔ ہندوتا کا اتنا بڑا پرچاری ہے کہ مودی بہت جلد اس کے سامنے ایک اعتدال پسند سیاستدان نظر آئے گا۔ نفرت اور تنگ نظر سیاست کا ہمیشہ یہی انجام ہوتا ہے جب اس میں نئے آنے والے بہت تیزی کے ساتھ اپنے پیشرو کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسند ثابت ہوتے ہیں۔
ادیتا ناتھ اور مودی کی جوڑی نے مسلمانوں میں ایک ایسے عدم تحفظ کو جنم دیا ہے جس کی کوئی اور مثال ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس جوڑی نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ان کے اقتدار میں چند رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، عید سے چند دن پہلے ایک 15 سالہ لڑکا اپنے اور دو دوستوں کے ساتھ دہلی سے عید کی خریداری کر کے ماتھورا میں واقع اپنے گھر بذریعہ ٹرین واپس جا رہا تھا۔ ان سب ساتھیوں کا حلیہ ان کے مسلمان ہونے پر دلالت کر رہا تھا۔ سیٹ پر بیٹھنے کے مسئلے پر ڈبہ میں سوار ایک گروہ سے کچھ تکرار ہوئی جو وقفے وقفے سے جاری رہی لیکن زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یہ مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔ اس گروہ نے جنید کی ٹوپی، مسلمان ہونے اور گائے کاگوشت کھانے کے طعنے دیئے اور پھر یہ سارا معاملہ زبردست حملے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس گروہ کے لوگ جو جنید اور اس کے بھائی اور دوستوں سے عمر میں بڑے تھے‘ جلد ہی چاقو نکال لئے اور جید کو بے رحمی سے قتل کر دیا۔ ایک شہری کا اس قدر سفاکانہ اور بہیمانہ قتل بھارت کی جمہوریت اور اس کے سیکولر آئین پر اک بدنما داغ ہے۔ مرکزی یا ریاستی حکومت کے کسی ذمہ دار نے اس واقعہ کی مذمت میں کوئی بیان نہیں دیا اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا۔
دو سال پہلے دہلی کے قریب ایک اور واقعہ میں ایک 50 سالہ مسلمان عبدالخالق کو یہ افواہ پھیلا کر کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت کھایا جا رہا ہے قتل کر دیا گیا۔ راجستھان میں ایک اور واقعہ میں جہاں ایک مسلمان بدقسمتی سے گائیں منڈی لے کر جا رہا تھا ایک ناکردہ گناہ میں بلوائیوں نے بے رحمانہ طریقے سے موقع پر ہلاک کر دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جون میں۔ اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اب تک 10 مسلمانوں کو گاؤ رکھشا کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہو رہا جب ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمان اقلیت کے خلاف اسلام فوبیا پھیلایا جا رہا ہے۔
خصوصاً یہ واقعات ان ریاستوں میں ہو رہے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور مرکزی اور ریاستی اہلکار کسی بھی سطح پر نہ صرف اس کے خلاف اقدامات نہیں اٹھا رہے بلکہ ان کی دوٹوک الفاظ میں مذمت بھی نہیں کر رہے۔ لہٰذا عوام کو یہ پیغام جا رہا ہے کہ ان واقعات کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔ ایمنسٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکار پٹیل کا کہنا ہے کہ ’’مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر جرائم کا بلا روک ٹوک ارتکاب ایک ایسا سلسلہ ہے جو بہت پریشان کن ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم اور وزرا اعلیٰ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے یہ پتہ چلے کہ انہیں یہ غیر قانونی کام قابل قبول نہیں ہیں‘‘۔ یہ ظلم و ستم اور اس پر حکمرانوں کی بے حسی اس سطح پر پہنچ گئے ہیں جہاں دنیا کا میڈیا اس کا تذکرہ کر رہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ‘ ٹائم میگزین اور ہندوستان ٹائمز اور دیگر مؤقر جریدوں میں اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ بھارت کی سول سوسائٹی سراپا احتجاج کر رہی ہے۔ اس احتجاج میں سب سے مقبول بینر یہ کہہ رہا تھا: یہ میرا بھارت نہیں ہے۔
بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور وہ ایک سُپر پاور بھی بننا چاہتا ہے۔ لیکن اس ملک میں ایک آئین بھی ہے جو شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کا دعویدار ہے۔
جس ملک میں قانون کی یہ حالت ہو کہ وہ اقلیتی شہریوں کو دن دہاڑے ٹرین اور بڑی سڑکوں پر بلوائیوں کی وحشیانہ قتل و غارت گری سے نہ روک سکے تو وہاں یہ سوال ضرور ہو گا اور ہو رہا ہے کہ کیا اقلیتوں کے لئے کوئی دوسرا قانون ہے جو ان کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ نہ صرف حکومتیں اس بربریت پر خاموش ہیں بلکہ سپریم کورٹ نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جب سپریم کورٹ کرکٹ بورڈ کے نئے انتخابات میں گڑبڑ کا نوٹس لے کر اس کو درست کر سکتا ہے تو یہ تو بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جس پر عملدرآمد کی براہ راست ذمہ داری آئین ہند کے آرٹیکل 36 کے تحت سپریم کورٹ پر ڈالی گئی ہے۔
ہم نے اس بات کا بہت چرچا سنا ہے کہ ہندوستان میں سول سروس اب بھی آزاد اور مؤثر ہے‘ خصوصاً ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس۔ لیکن ان حالیہ دل دہلا دینے والے واقعات نے اس مفروضہ کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ نامور بھارتی کالم نگار اے جی نورانی نے اپنے کالم میں اس امر پر اپنے تاسف کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی سول سروس اپنی روائتی آزادی اور اختیارات کا غیر جانبدارانہ استعمال کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو گئی ہے۔ ہم ہندوستان کے باشعور عوام اور مقتدر طبقات کے اکابرین کو بربریت کے ان واقعات کا سنجیدہ نوٹس لینا چاہئے اور ان کے مکمل تدارک کے لئے مؤثر اقدامات کریں کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس قدر ظلم اور زیادتی ایک بڑی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔
اس موقع پر ہم یہ بات بھی اٹھانا ضروری سمجھتے ہیں کہ کچھ دانشور حلقے تسلسل سے اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ تقسیم ہند کی بنیاد یعنی دو قومی نظریہ اب ختم ہو گیا ہے۔ کانگریس کی حکمرانی میں تو کسی قدر اس بات کا اہتمام ہوتا رہا کہ ہندوستان کے سیکولر تشخص کا لحاظ رکھا جائے گو کہ قائداعظم نے تو کانگریس کی سیاست کو دیکھتے ہوئے بھانپ لیا تھا کہ یہ ہندو اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیں گے۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ تقسیم ہند کے وقت جو انتہا پسند ہندو تنظیمیں عوام میں کوئی قابل ذکر پذیرائی نہیں رکھتی تھیں وہ آج عوام کی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں اور حکومت بنا رہی ہیں اور تمام خدشات کو درست ثابت کر رہی ہیں جن کی وجہ سے دو قومی نظریہ پیش کیا گیا۔ لہٰذا یہ سوچ بڑی سادگی پر مبنی ہے کہ دو قومی نظریے کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔ درحقیقت آج ہمیں اس کی تجدید اور احیا کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو درپیش خطرات اور چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024