اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دسمبر ءمیں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت نے اقتدار سنبھالا، تو ملک نہ صرف دولخت ہونے کے صدمات سے نبردآزما تھا، بلکہ سرد جنگ میں بڑی طاقتوں کی قربت اور ان کی امداد سے حاصل کی ہوئی معاشی ترقی سے منسلک گمبھیر مسائل کا بھی سامنا تھا۔ لہٰذا، ایک لحاظ سے شرح تبادلہ میں مناسب اضافہ ضروری تھا، تاکہ درآمدات کو برآمدات پر بے جا ترجیح دینے کا عمل ختم ہو۔ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ اس دور کی غلطیوں کا ازالہ بھی کیا جائے، خصوصاً آمدنی اور دولت کے ارتکاز کو توڑا جائے۔
پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت کے انقلابی اقدامات اور سوشلسٹ پالیسیوں کے نتیجے میں مغربی ذرائع سے بیرونی وسائل کی آمد بند ہوگئی۔ لیکن اس کمی کا توڑ کرنے کے لیے بھٹو صاحب نے مسلم ممالک سے تعاون کو زبردست فروغ دیا۔ فروری1974ءمیں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تعاون نے بیرونی وسائل کے حصول میں آسانی پیدا کردی۔ خصوصاً اس دور میں پاکستان کی افرادی قوت کی مشرق وسطیٰ میں درآمد کے راستے کھل گئے اور ان کی بھیجی ہوئی ترسیلات (Remittances) کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
تیسرا دور : نجی و سرکاری شعبوں کا اشتراک (1977ءتا 1988ء)
اس دور میں ابتدائی طور پر یہ کوشش کی گئی کہ دوسرے دور کے وہ انقلابی اقدامات، جن سے بڑی حد تک معاشی نظام تتر بتر ہوگیا تھا، اس کی تلافی کی جاسکے۔ اس مقصد کے تحت عقیلی کمیٹی بنائی گئی، جس نے بلا کم و کاست تجویز کیا کہ: قومیائے گئے اثاثوں کو اصلی مالکان کو واپس کردیا جائے اور کچھ اثاثے واپس بھی کردیے گئے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ بہت جلد حکمرانوں کو احساس ہوگیا، یا پھر احساس دلایا گیا کہ سرکاری شعبے میں اتنی عظیم الشان معاشی طاقت کو نج کاری یا پرانے مالکان کو واپس کرنے کے بجاے، موجودہ نظام کو خوش اسلوبی سے چلایا جائے، تاکہ سیاسی سرپرستی اور مثبت سیاسی نتائج کے حصول کے لیے حکومت کے پاس دینے کے لیے ترغیبات موجود ہوں ۔ لہٰذا، جلد ہی ایک نظام وضع کرلیا گیا، جس کے تحت سرکاری کارپوریشنوں میں تعینات مینیجرز کے لیے علیحدہ نام نہاد مینجمنٹ اسکیلز بنادیے گئے اور ان کی کارکردگی جانچنے کے لیے پہلے سے موجود ایک ادارے کی تنظیمِ نو کی گئی۔ یوں اس عوامی حکومت کے بنائے ہوئے نظام کو ”پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے“ کے مصداق فوجی حکومت کی حمایت حاصل ہوگئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، گو اس کا حجم بہت کم ہوگیا ہے۔
اس دور میں سب سے بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی، جب دسمبر 1979ءمیں سوویٹ افواج، افغانستان میں علانیہ گھس آئیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اس مداخلت کی مخالفت اور مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ یوں دس سال کا عرصہ اس مزاحمت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں صرف ہوگیا۔ اس صورتِ حال میں ایک دفعہ پھر پاکستان اور امریکا کے درمیان قربت پیداہوگئی، لیکن ازاں بعد اس کا بھی خاتمہ ویسے ہی ہوا جیسے کہ ماضی میں ہوا تھا۔ لیکن اب کی بار پاکستان اپنے تحفظ کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔90 کا عشرہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے میں صرف ہوگیا۔ پاکستان نے اس مزاحمت کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور آج تک کررہا ہے۔ افغان مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں مناسب نظم و ضبط کی کمی کے باعث اسلحے کی فراوانی اور منشیات کی اسمگلنگ، معاشی بدنظمی، معاشرتی بگاڑ اور امن و امان کی صورتِ حال کی خرابی جیسے مسائل کھڑے کردیے۔
چوتھا دور : کاروبار اور سیاست کا اختلاط
یہ وہ دور ہے، جو اَب بھی جاری ہے۔ ہم نے عرصے کی طوالت کے علی الرغم اس دور کو اس لیے جاری دور کہا ہے کہ اس کی جوہری صفت آج بھی ہماری معاشی تنظیم میں موجود ہے۔ لیکن اس دور میں ایک عرصہ پھر فوجی حکومت کے زیراثر گزرا ہے۔ یہاں ہمیں کسی حد تک فوجی حکومت کے آٹھ برسوں کو الگ سے دیکھنا ہوگا۔ لہٰذا ،ہم اس کو تین ذیلی حصوں میں تقسیم کریں گے:
ذیلی دور: 1- سیاسی عدم استحکام 1988ءتا 1999ء)
اس دور کا آغاز جولائی ءکو جنرل محمد ضیاءالحق کی مارشل لا حکومت کے تحت، پیپلزپارٹی کے بنے سیاسی نظام کے ڈرامائی خاتمے کے بعد ہوا۔ اس دور میں مسلسل سیاسی کشیدگی رہی، جس کا ایک بڑا سبب اپریل 1979ءمیں ایک مقدمہ قتل میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا بھی تھا۔ دوسری جانب نسبتاً نوعمر قیادت کی ناتجربہ کاری سے پیدا ہونے والے مسائل تھے۔ اس کے ساتھ دنیا میں تاریخی تبدیلیاں رُونما ہوگئیں۔ سودیت یونین کا دسمبر 1991ءمیں خاتمہ ہوگیا، برلن کی دیوار گرگئی، یورپ متحد ہوگیا اور امریکا دنیا میں واحد سپر پاور بن کر اُبھرا۔
اس کے ساتھ ہی ایک نیا معاشی نظام وجود میں آنے لگا، جس کو عالم گیریت سے منسوب کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر نئے نظام میں سرمایہ بغیر روک ٹوک کے ساری دنیا میں گردش کرنے لگا۔ شرح سود کھلی مارکیٹ میں طے ہونے لگی۔ سرکاری سطح پر امداد کی فراہمی کا عمل تیزی سے ختم ہونے لگا۔ دنیا میں نج کاری، آزاد معیشت، حکومتی کنٹرول کا خاتمہ، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے منڈیوں کو کھولنا اور تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ساری دنیا کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی عام ہوگئی۔ مزید افتاد یہ آن پڑی کہ افغانستان سے روس کے اخراج کے ساتھ ہی امریکا بھی علاقے سے نکل گیا اور پاکستان کی امداد کا سلسلہ بھی رک گیا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کی جانب پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے سے ایک نئے امتیازی دور کا آغاز ہوا، جس میں پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کی معطلی اور CTBT پر دستخط کے مطالبات بھی شامل ہوگئے۔
اس دور میں ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام رہا۔ دس سال کے عرصے میں اوسطاً 30 ماہ کی مدت پر مشتمل پے در پے چار حکومتیں بنیں، جو ناکام ہوتی رہیں اور بالآخر اکتوبر1999ءمیں ملک میں پھر مارشل لا لگا دیا گیا، جو تقریباً 8 سال تک مختلف صورتوں میں سیاسی نظام کی پشت پہ کام کرتا رہا۔ اس دوران معاشی پالیسی کی سمت اور اس کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا اور ترقی کی شرح چارفی صد سے بھی کم ہوگئی۔ بعض تجزیہ نگار اس عرصے کو معاشی ترقی کا گم شدہ عشرہ بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس دور میں معاشی ترقی کا عمل معکوسیت کا شکار ہوگیا۔ افراطِ زر کا دباو بڑھ گیا اور ملک کو پہلی دفعہ دیوالیہ ہونے کے خطرات لاحق ہوگئے۔ اس دور کی یہ خصوصیات قابل ذکر ہیں:
(ا) نج کاری کا اجرا؛ (ب) معاشی میدان میں حکومتی منظوریوں اور کنٹرول کی تمام صورتوں کا خاتمہ یا ان میں بڑی کمی اور آسانیاں؛ (ج) نجی شعبے کی بتدریج معاشی عمل میں شمولیت اور بالخصوص ان کے لیے نئے شعبوں، مثلاً بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کی اجازت؛ (د) نئے ریگولیٹری اداروں کا قیام (نیپرا اور پی ٹی اے وغیرہ)؛ مرکزی بنک کو خودمختاری دینے کا آغاز؛ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی)کا قیام اور کیپٹیل مارکیٹ کی وسعت شامل ہیں۔
اس عرصے میں بیرونی وسائل کی کمیابی ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی، لہٰذا عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس حکومت ِ پاکستان کا جانا ناگزیر ہوگیا۔ اس کی پہلی درخواست اور شرائط کی منظوری خود جنرل محمد ضیاءالحق کی بنائی ہوئی عبوری حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے اکتوبر1988ءمیں دے دی تھی۔ اگرچہ اس پر عمل درآمد بے نظیر حکومت (90- 1988ء) نے کیا۔ چندماہ بعد جب بے نظیر کی حکومت ختم کی گئی تو محمدنوازشریف کی پہلی حکومت (93 - 1990ء) نے اس پروگرام پر عمل درآمد روک دیا۔ اس کے بعد نواز حکومت نے معاشی میدان میں ایسے فیصلے کیے جو مقبول ضرور تھے، لیکن ان کی معاشی حکمت مشتبہ تھی۔لہٰذا، کچھ ہی عرصے میں معاشی اشاریوں میں عدم توازن پیدا ہونا شروع ہوگیا، خصوصاً بیرونی ادائیگیوں کا توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگے۔ اس فضا میں اپریل 1993ءکے شروع میں ایک درخواست عالمی مالیاتی فنڈکو دی گئی۔
دوسری طرف نوازحکومت، صدر مملکت سے محاذ آرائی میں اُلجھ گئی، جو بالآخر 18 اپریل 1993ءکو ان کی معزولی کا باعث بن گئی۔ عبوری وزیراعظم (18 اپریل- 26مئی 1993ء)بلخ شیرمزاری کے وزیرخزانہ سردار فاروق لغاری نے فنڈ سے ایک نئے پروگرام کے لیے ابتدائی مذاکرات شروع کیے، گو وہ نامکمل رہے، کیوں کہ سپریم کورٹ نے نوازحکومت کو بحال کردیا۔اس کے بعد بھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان کشیدگی نہ صرف جاری رہی بلکہ مزید بگڑ گئی۔ اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وحیدکاکڑ نے دونوں کو استعفا دینے پر راضی کرلیا اور 1993ءمیں نئے انتخابات کا راستہ کھل گیا۔ عبوری حکومت میں وزارتِ عظمیٰ( 18جولائی- 19 اکتوبر 1993ء) کے لیے ڈاکٹر معین قریشی صاحب کو درآمد کیا گیا، جن کی حکومت کی عبوری نوعیت کے باوجود فنڈ کے ساتھ مذاکرات مکمل کرلیے اور ایک نیا پروگرام شروع کر دیا۔ (جاری )
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38