اُس نے کہا، اب تو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اب تو ساتھ کی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے کہا، نہیں! اب آپ کو ہماری رہنمائی کی ضرورت ہے نہ ساتھ کی۔ اب اپنی دہلیز پر جُدائی آ گئی ہے۔ رہنمائی یا ساتھ نہیں۔ اب راستے جُدا ہو گئے۔ پہلے آپ کے پاس کام نہیں تھا، اختیار نہیں تھا، پروٹوکول اور پورٹ فولیو نہیں تھا، کوئی سیکرٹری نہیں تھا، اب آپ کے پاس پناہ نہیں ہے ”تحفظ“ ہے۔ پہلے چھپنے کے لئے آپ کے پاس کہیں مجبوری تھی اور کہیں بے بسی اور آپ ان کی آڑمیں چھپ جاتے تھے۔ اب روشنیاں آپ کا تعاقب کریں گی، نظریں آپ پر دِن رات لگی ہوں گی اور صدقے واری جانے والوں کا جم غفیر ہو گا۔ مگر ہم نہ ہوں گے۔ پہلے ہماری تعریف و توصیف آپ پر نچھاور ہوتی تھی آپ ایک محکوم تھے اب حاکم ہیں۔ پس اب راستے جدا۔ اب آپ کی کارکردگی پر تنقید ہو گی اگر آپ نے رتی برابر بھی ملک و قوم، اپنی پارٹی اور شعبے کو نظرانداز کیا۔ پھر قصیدے نہیں مرثیے ہوں گے۔ محبت اب نہیں ہو گی۔ یہ کچھ دن بعد میں ہو گی۔ اب ہم ہم نوا نہیں، آپ وزیر ہم تجزیہ کار۔ رشتہ دوستی کی پٹری سے اتر کر فرض کی شاہراہ پر چل نکلا ہے! گویا بلوچستان کے میر حاصل بزنجو کی معاونت نظر آنی چاہئے!
متذکرہ بات جہاں چودھری جعفر اقبال اور ہمارے درمیان طے پا چکی ایسے ہی وہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے محمد جنید انوار چودھری اور ان کے بہی خواہوں کے درمیان بھی طے پانی چاہئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کے دیگر لوگوں کی جانب جانے سے قبل اور ان لوگوں کی طرف جانے سے قبل جنہوں نے پہلے 4 سال بھی کچھ نہیں کیا ان سے اگلے 8 ماہ بھی کچھ امید نہیں ہے۔ سردار سکندر حیات بوسن اور پیر صدر الدین راشدی ہوں یا رانا تنویر اور برجیس طاہر جیسے وفاقی وزراءیہ تو ”خصوصی“ کوٹے سے ہیں انہیں کارکردگی سے اور کارکردگی کو ان سے کیا۔ اسی طرح عثمان ابراہیم اور اکرم درانی و ریاض پیرزادہ جیسے وزرا کابینہ کا ”علامتی اور سلامتی“ حُسن ہیں انہیں حسنِ کارکردگی سے کیا۔ جعفر اقبال جونیئر صاحب آپ گجرات سے ہیں جہاں پر کبھی وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ بھی آباد رہی۔ پہلے ہی چار سال آپ کی قیادت نے چودھری برادران سے ”محبت“ رکھی اور اپنا چودھری پیدا نہ کیا۔ اب جی ٹی روڈ کے دونوں جانب اور کراچی سے خیبر تک آپ کو 8 ماہ کا ٹونٹی ٹونٹی کھیلنا ہے کسی ٹیسٹ میچ کی گنجائش نہیں، کسی بھول میں نہ رہئے گا۔ جو سابق وزیراعظم سے گوجر خان میں جیتا اسے انعام نہیں ملا۔ انعام آپ کو بھی پارٹی نے قمر زمان کائرہ سے جیتنے کا نہیں دیا بلکہ بھاری ذمہ داری دی ہے۔ چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی و مونس الٰہی کے مقابل کھڑے ہونے کی وہ الگ بات ہے کہ دیر آمڈ .... مشاہد اللہ اور خواجہ آصف وزراءہی نہیں بعض مقتدر حلقوں کے لئے پیغام بھی ہیں۔ جس پر ہم کچھ نہیں کہیں گے۔
قارئین کرام! ہم وہ بات نہیں کریں گے کہ دانیال عزیز اور طلال چودھری کو آخر محنت کا پھل مل گیا۔ طلال کو تو یہ پھل میٹھا لگا مگر دانیال عزیز کو کھٹا۔ سنا ہے دانیال عزیز 4 سال کے صبر کا پھل اُس طرح کا میٹھا چاہتے تھے جس طرح کا بغیر صبر کے سابق جرنیل اور صدر پرویز مشرف نے دیا تھا۔ خیر مان جائیں گے۔ روٹھیں گے نہیں۔ بزم ناز سے خبر یہ بھی ملی ہے کہ جب ماضی میں طلال چودھری کو پارلیمانی سیکرٹری بنایا گیا تھا اُس وقت کی وزیر انوشہ رحمن کو ان کا ساتھ اچھا نہیں لگا تھا اور اس دفعہ جب انہیں وزیر مملکت برائے داخلہ بنایا گیا ہے تو پروفیسر احسن اقبال کو بحیثیت وزیر داخلہ اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے تو باقاعدہ بدلنے کا کہہ دیا۔ دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
کچھ بھی کہہ لیں چودھری نثار علی خان کے بغیر کابینہ بے رنگ اور بے بو دکھائی دیتی ہے۔ کوئی ویسی دبنگ شخصیت کابینہ میں نظر نہیں آتی۔ ہم تو کہتے ہیں ان کی جگہ جو وزارت داخلہ جس بابو کو دی گئی ہے انہیں وزارت خارجہ دی جاتی تو اچھا ہوتا۔ احسن اقبال وزارت خارجہ کے لئے فٹ تھے۔ لیکن میاں نواز شریف کی پسندیدگی کا عنصر خواجہ آصف کے حوالے سے اس لئے غالب تھا کہ وہ ”لٹھ مار“ ہیں اور میاں نواز شریف کو اس موقع پر ایسا وفادار درکار تھا جو بین الاقوامی سطح پر ان کا دم بھرتا۔ اب اللہ جانے خواجہ آصف یہ کام کر بھی پاتے ہیں کہ نہیں کیونکہ وہ نہ اچھے مقرر، نہ اچھی انگریزی، نہ تحریر، نہ وزارت خارجہ کا تجربہ ہی۔ محسوس یہ ہوتا ہے۔ آئندہ دِنوں خارجہ امور سرتاج عزیز ہی نمٹائیں گے اور خواجہ آصف محض میاں نواز شریف کے بین الاقوامی امور ”نبھانے“ کی کوشش کریں گے۔ کچھ ماہ قبل ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کے دولت خانے پر ہم نے عرض کیا کہ اتنی بڑی اسمبلی میں سے آپ لوگوں کو وزیر خارجہ کیوں نہیں ملتا تو انہوں نے فرمایا آپ ہی بتائیں کس کو لگائیں ہم نے عرض کیا پروفیسر احسن اقبال کو، تو اس وقت مرتضیٰ عباسی کا خیال تھا کہ احسن اقبال کے پاس جو ذمہ داری ہے وہ اور کوئی نہیں نبھا سکتا۔ آج دیکھ لیں میاں نواز شریف والی ذمہ داری بھی تو کوئی اور نبھا رہا ہے۔ وزیر خارجہ بنانے کا حوصلہ ماضی ہی میں ہونا چاہئے تھا۔ فرض کریں پوری ن لیگ ہی حکومت میں نہ ہو کام تو پھر بھی چل سکتا ہے۔ یہ مرتضیٰ جتوئی اور صدر الدین راشدی کے کابینہ میں ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم تو ہزار دفعہ لکھ چکے سمندر پار پاکستانیوں سے ہم نے پوچھا کہ آپ کا وزیر کون ہے۔ استغفر اللہ، بڑوں بڑوں کو معلوم نہیں تھا۔ کاش صدر الدین راشدی کی خانہ پری کے بجائے ان دیار غیر میں بسنے والوں پر ترس کھا لیا جاتا جو زر مبادلہ کی مبارک سے نوازتے ہیں۔
کچھ نئے تجربات، نئی وزارتوں اور نئے ڈویژنز کی طرف آنے سے قبل جنوبی پنجاب کو کئی قلم دان سونپنے پر جنوبی پنجاب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ سب پنجاب کے گورنر سمیت تخت لاہور کے مجاور نہ بنیں اور ماضی کے چند شاہکاروں کی طرح اپنی گرانٹس آگے نہ بھیج دیں۔ سنا ہے ارشد لغاری بہت شریف آدمی ہیں۔ حافظ عبدالکریم کو مبارک ہو کہ آخر ایک سینٹری کے بعد جمعیت اہلحدیث ن گروپ کو بھی تخت و تاج سے نوازا گیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے اویس لغاری مشرف کے بھی وزیر تھے توقع کی جارہی ہے خسرو پرویز، سکندر بوسن اور بلیغ الرحمٰن وغیرہ جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کو نیچا دکھانے میں مدد گار ہوں گے، تاہم ن لیگ نے نئی کابینہ میں پورے پاکستان سے خواتین کو بہرحال فراموش کیا۔ مریم اورنگزیب نے واپس آنا ہی تھا۔ سائرہ افضل تارڑ وزیر مملکت ہیلتھ سروسز سے وفاقی وزیر اور بلیغ الرحمٰن بھی وزیر مملکت تعلیم سے وفاقی وزیر بن گئے۔ ان دونوں کو بھی مبارک ہو لیکن ان سے بالمشافہ ملیں تو پوچھیں گے کہ، کیا آپ سے اچھی توقعات رکھیں؟ اور کتنی توقع رکھیں؟ یا پھر آپ بھی وزراءبرائے الیکشن تیاری کا حصہ ہی ہیں؟ صحت، تعلیم اور انصاف نہیں تو کچھ بھی نہیں بہرحال معیشت کو بہتری کے لئے نئی وزارتوں اور نئی ڈویژنز کا جنم عمل میں آیا ہے، یہ رولز آف بزنس 1973 کے رول 3 کے تحت ہوا۔ انرجی کی وزارت بنائی گئی ہے جس کے سنگ پاور اور پٹرولیم ڈویژن ہوں گے۔ پٹرولیم اور قدرتی ذرائع کی وزارت کو پٹرولیم ڈویژن میں تبدیل کیا گیا ہے اور پٹرولیم پاور ڈویژن کے تحت ہوگا۔ پانی معاملات اب ڈویژن آف واٹر ذرائع کے تحت ہوں گے۔ کامرس اور ٹیکسٹائل کی نئی وزارت تشکیل دی گئی ہے۔ تین نئی اور وزارتیں یعنی وزارت شماریات، پوسٹل سروسز وزات اور فنانس و ریونیو اور اکنامک افیئر کی الگ مخصوص حیثیت بن گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگلے 7 نازک مہینوں میں کچھ ہوگا بھی؟
جاتے جاتے یہ بات کرنا بھی ضروری ہے کہ مری سے اسلام آباد تک پہنچے، سابق وزیراعظم نے عدالت اور مقتدر حلقوں پر کھلے اور دبے لفظوں میں تنقید کی ہے۔ وہ اپنی نااہلی پر مطمئن نہیں۔ دوسری جانب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ”ایسے پرامن پاکستان طرف بڑھ رہے ہیں“ جہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں! “ فرض شناسی کا بینہ کی ہو، عدلیہ یا مقتدر حلقوں کی بہرحال ہر ایک کو اپنی پچ پر پورا کھیلنا چائیے اور یہی حب الوطنی ہے ٹکراﺅ تو صرف بگاڑ کے دریچے کھولتا ہے ہاں، وہ خواتین کا احترام ہر زاوئیے سے ضروری ہے۔ پارلیمنٹ اپنا احسن کردار ادا کرے اور میڈیا بھی ذمہ داریاں نبھائے یاریاں نہیں!!!۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024