جب پنجاب کے میدانوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں بہار، آمد بہار کا پیام آتا ہے۔ خنکی اپنا دامن سمیٹنے لگتی ہے۔ بہت برس ہوتے ہیں میرے قدم خود بخود صحرا نوردی کیلئے مچلنے لگتے تھے درجہ بدرجہ مختلف صوفی شاعروں کے درباروں اوردرگاہوں پرحاضریاں دیتے ہوئے ڈیرہ غازی خان کے نواح میں سخی سرورسرکار کا دربار ہماری منزل ہوتا تھا جہاں سے ہم عظیم صوفی شاعر خواجہ فرید مٹھن کوٹی کی درگاہ پر حاضری دیکر واپسی کا سفر کیا کرتے تھے۔ اس سفر میں روہی کی وسعتیں' اسکی پاکیزہ اور لطیف ہوا مشاطِ جان کو گہرائیوں تک معطر کردیاکرتی تھی۔
ڈیرہ غازی خان کی بے آب و گیاہ وسیع و عریض وادیوں میں، آمد بہار پر ہلکی سی سبزے کی تہہ نمودار ہو جاتی ہے۔ ہر قسم کی آلودگی سے پاک صاف اور صحت بخش ہوا، مشام جاں کو معطر کرتی ہے تو ان وادیوں ' اس روہی میں استقبالِ بہار کا لطف دُوبالا ہو جاتا ہے۔ عارفوالا میں مرحوم خالد ٹکا اپنے وسیع وعریض دستر خوان اور خوئے مہمان نوازی کے ساتھ والہانہ انداز میں ہمارے استقبال کیلئے چشم براہ ہوتے،خالد ٹکا تہہ خاک جاسوئے وہاں انکے باادب صاحبزادگان ،سجاد ٹکااور فرید ٹکا ہماری خدمت کیلئے دل وجاں سے ہمہ وقت موجود ہیں لیکن راجپوت سرداروں کی داستان گوئی کا عظیم باب کب کابند ہوچکا کہ خالد ٹکا نہ رہے جن کی یاد ،جب کبھی آتی ہے بے طرح خون کے آنسو رُلاجاتی ہے یہ بہار بھی عجیب چیز ہے اپنی پٹاری میں کیسی کیسی یادیں لاتی ہے ۔
گئے برسوں میں ساہیوال کے ترقی پسند کاشتکار، ہمدمِ دیرینہ شبیر باجوہ ہمارے میزبان ہوتے تھے کہ ان کے عزیز مدتوں سے محکمہ انہار کے اعلیٰ افسران یہاں تعینات رہے۔ ہرن، پاڑوں اور تیتر کا لحم نایاب فروری کی خنک راتوں میں دھکتے الائو کے گرد براجمان ہم جیسے تن آسانوں کے اندر گرم و سرد لہروں کا جوار بھاٹا اُٹھا دیتا۔ ماحول کی خنکی اور کائنات کی خالص ترین اعلی پروٹین کی حرارت، محکمہ انہار کے ڈاک بنگلوں کے مرغزاروں میں اندھیروں سے اُلجھتے ہوئے الائو کے بھڑکتے ہوئے قد آدم شعلے عجیب منظر دِکھاتے تھے۔ حالات و واقعات اور ظالم مصروفیات نے ہماری سہ رُکنی آوارگان کی منڈلی کو بکھیر کر رکھ دیا ہے جسکے راہبر و رہنما میرے گْرو انور عزیز چودھری اور انکے ٹیلنیٹڈ کزن ریاض قدیر ہوتے تھے اب یہ خاکسار تن تنہا استقبال بہار کی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہا ہے کہ ابا جی'رانا محمد اشرف خاں کی طویل علالت کی وجہ سے یہ خاکسار سب کچھ ترک کرکے انکے ساتھ ہمہ وقت حاضر رہا تو گذشتہ سال آوارگی بہاراں میں وقفہ آگیاتھا۔
ابا جی کی رخصت کے بعد زندگی بتدریج معمول پر آرہی ہے بہار آئی تو کئی پرانے دُکھ دردجگاگئی ،شش وپنج میں تھا کہ کیاکروں، کہاں جائوں کہ یونیورسٹی آف سرگودھا سے ہم دم دیرینہ وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد کا پیغام آیاکہ مدتوں بعد ہونیوالے کانووکیشن اور جشن بہاراں مشاعرے میں شرکت کیلئے پہنچو، آہنی اعصاب رکھنے والی میری اماں جان، اباجان کے انتقال کے بعد بار بار تاکید کرتی رہی ہیں کہ مرنے والوں کے ساتھ کوئی مرنہیںجایاکرتا اس لیے حوصلے اورعزم سے معمول کی زندگی شروع کرو، سو دو راتوں کیلئے سرگودھا کارُخ کرنے کاسوچا توہمارے رابطہ کارمانچسٹر سے آئے ہوئے میاں سہیل اقبال اورانکے بھانجے زین الحق نے سفر آسان بنادیا ایک آرام دہ اورکشادہ ٹرک نما ڈبل کیبن میں عزیزم ظفربھی موجود تھے سفر شروع ہوا تو پتہ چلا کہ موٹروے چکری ریسٹ ایریامیں قرطاس وقلم کوخیرآباد کہہ کرمیدان سیاست میں قدم رکھنے والے آزاد کشمیر کے وزیراطلاعات مشتاق منہاس ہمارا انتظار کررہے ہیں مشتاق منہاس مانگے تانگے کی مشاورت یانامزدگی کیلئے تیار نہیں تھے براہ راست عام انتخاب جیت کرآزاد کشمیر اسمبلی میں پہنچے تو انہیں راجہ فارو ق حیدر کی کابینہ میں ایک نہیں تین وزارتیں مل گئیں۔ وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان کی وجہ سے شہرت پانے والے چکری میں راجہ مشتاق منہاس بھی ہمارے قافلے میں آن شامل ہوئے ان کالاڈ پیار سے بگڑاہوا صاحبزادہ ایان یوسف بھی ہمراہ تھا۔ پھر ہم تھے موٹروے تھی کہ فاصلہ اوروقت گذرنے کاپتہ نہ چلا سالم انٹرچینج سے نیچے اترے توپھر "پاکستان "شروع ہوگیا بھلوال آیا تو پروفیسر حسن مبین یاد آئے انکی مہمان نوازیاں ،کال ملائی لیکن جواب نہ پایا اورلمحوں میں بھلوال گذرگیاپھر سرگودھا کی پرپیچ مگر کشادہ سڑکوں سے ہوتے رئیس الجامعہ کی رہائش گاہ ،وائس چانسلر ہائوس کے صدر دروازے پر موجود تھے تاریکی اتر آئی تھی اورحدنگاہ محدود ہوتی جارہی تھی۔
یونیورسٹی آف سرگودھا پہنچ کر علم ہوا کہ صرف اندھیرااورتاریکی ہی حدنگاہ کومحدود نہیں کرتی بلکہ مختلف تعصبات اورپہلے سے طے شدہ خیالات بھی اچھے بھلوں کوشدید غلط فہمی کا شکار بنادیتے ہیں یونیورسٹی آف سرگودھا کاذکرباربار مختلف حوالوں سے ہوتارہا ۔میرا تاثریہ تھا کہ دو،چارہزارطلبہ پر مشتمل کوئی ڈنگ ٹپائو ،قسم کی نجی یونیورسٹیوں کی طرح کی کوئی سرکاری ’چیز‘ ہوگی۔پر شکوہ وائس چانسلر ہائوس کے وسیع و عریض سبزہ زاروں نے پہلی نگاہ میں بتادیاکہ ایویں خواب وخیال میں رہنا جہالت ہوتا ہے ڈاکٹر اشتیاق اورپیاراجیدی چشم براہ تھے ماضی کا شاندار رپورٹر جیدی ،جس کے ساتھ مشترکہ بائی لائن کیلئے شکیل شیخ جیسے مہمان رپورٹر بھی فخرمحسوس کرتے تھے جو اب کرکٹ کی سیاست کی نذر ہوکر عملاًنجم سیٹھی کے پی آر او بن کر اتراتے ہیں اورذرانہیں شرماتے ہیں۔
کیمپس کے اجمالی دورے نے آنکھیں کھول کررکھ دیں تاحد نگاہ کشادہ چمن زار، سرسبزوشاداب مرغزار 25سے 30ہزار طلبہ وطالبات شاہینوں کے شہر سرگودھا نہ آتا تویہ سب کیسے دیکھ پاتا، اس عظیم الشان جامعہ سے تعارف کیسے ہوپاتا۔ہمارے مہربان ڈاکٹر اشتیاق احمد منفرد مزاج کے اساتذہ میں سے ہیں قدیم وجدید روایات کاحسین امتزاج جنہیں طویل 11برس عالمی شہرت یافتہ درس گاہوں میں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے ڈاکٹر صاحب کامل 5برس آکسفورڈمیں گزار کرواپس لوٹے ہیں قبل ازیں6برس قبرص کی ترک یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں اب وہ اپنے عالمی تدریسی تجربات یونیورسٹی آف سرگودھا میں آزمارہے ہیں صرف 90دنوں میں انکی ناقابل یقین فتوحات کے تذکروںنے ششدر کردیا۔
یونیورسٹی کی مالیاتی خودکفالت کیلئے مختلف منصوبوں پر دن رات کام جاری ہے ’خوش آب‘ کے نام سے صاف شفاف پانی کامنصوبہ از سرنو منظم کیاجارہا ہے ایف ایم ریڈیو کوبھی مقامی کاروبار سے ہم آہنگ کرکے خود کفیل بنایاجارہاہے دونوں منصوبے ماضی کے شاعر بے نوا جاوید اقبال بھٹی المعروف جید ی کی زیر نگرانی چل رہے ہیں، یونیورسٹی کا فارمیسی ڈیپارٹمنٹ، ادوایات سازی کاکارخانہ لگارہا ہے جس کے لیے تمام سرکاری رکاوٹیں توڑ کر ’کاغذی کارروائیاںمکمل کرکے آخری مراحل میں ہیں ایک مکمل اوربھرپورزرعی کالج پوری طرح بروئے کارہے نئے بیج بنائے جارہے ہیں پیوندکاری کے جدید طریقے استعمال کرکے عالمی درجے کے بیجوں سے پاک کینو اورمالٹے پھل دے رہے ہیں اسی طرح ایک لقمے میں چھلکے سمیت کھائے جانے والے کینو نما فرحت بخش پھل کاانوکھا ذائقہ کمال دکھارہا تھا۔یونیورسٹی کا میڈیکل کالج اور200بستروں کا جدید ہسپتال بھی عوامی خدمت کیلئے بروئے کار آنے کو ہے یونیورسٹی کیا ہے ایک جہان تازہ کی نموہورہی ہے ۔
یہ درس گاہ حسن انتظام کی زندہ وجاوید علامت بن چکی ہے اورہمیں خبر نہیں تھی جس کااندازہ ہمیں تقریب تقسیم اسناد کے دوران ہوا جب گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے نادانستہ صرف فرط شوق ِوفاداری میں وزیراعظم نواز شریف اوروزیراعلی پنجاب کی رہنمائی اور سرپرستی میں ہونے والی ترقی کاایک سے زائد بار ذکر کیا اوربھرے پنڈال میں جہاں ہزاروں طلبہ وطالبات موجود تھے ’گونوازگو‘کاایک بھی نعرہ بلند نہ ہوا جبکہ اب تو عالم یہ ہے جہاں دودرجن تماشائی ہوں ایک درجن یہ نعرے لگانا کارثواب سمجھتے ہیں۔
وائس چانسلر کے دست راست اورعلوم سماجیات وانسانیات کے استاد ڈاکٹرمیاں یٰسین سے طلبہ و طالبات کے نظم وضبط کاراز دریافت کیاتو انہوں نے بتایاکہ ہم نے طلبہ کویہ احساس دلایا ہے کہ جامعہ سرگودھا آپ کا گھر ہے اورگھر آئے مہمان کااحترام پنجاب کی روایت ہے اورآپ لوگ ان عظیم وقدیم روایات کے وارث اورامین ہو، اپنی عزت اورروایات کسے پسند نہیں ہوتیں آپ دیکھ رہے ہیں ہرطالب علم اپنی اقدار کاسپاہی بنا ہوا ہے تو ہمیں فکر کس بات کی ہوگی۔
سرگودھا یونیورسٹی کے جشن بہاراں مشاعرے کا احوال پھر کبھی ،یارزندہ صحبت باقی ،آپ کو انتظار کی بہت زیادہ زحمت نہیں اُٹھانا پڑے گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38