شیکسپیئر نے کہا تھا: نام میں کیا رکھا ہے! ایک گلاب کو کوئی سا نام بھی دے دیں، وہ گلاب کا پھول ہی رہے گا، اس کی خوشبو اور رنگ روپ بدلے گا نہیں۔ کچھ یوں لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف نے اس مقولے کو حرزِ جاں بنا لیا ہے۔ جب سے میاں صاحب سیاست کے منصہ شہود پر آئے ہیں، اپنے کئی نام بدل چکے ہیں۔ کسی ایک آدھ نام سے پہلے بھی مشہور تھے لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب آفتابِ اقتدار بام عروج پر نہیں آیا تھا۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ نام دو طرح سے بدلے جاتے ہیں۔ پہلا طریقہ تو وہ ہے جو آدمی کے اپنے بس میں نہیں ہوتا، عوام معترف ہوکر یا معترض ہوکر رکھ دیتے ہیں۔ صلیبی جنگوں کے مرکزی کردار کو Richard the Lion Hearted کہا جاتا تھا۔ اُندلس کے اموی حکمران عبدالرحمن اوّل کو عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور Falcon of Quresh کہتا تھا۔ ٹیپو سلطان نے شیر میسور کے نام سے شہرت پائی۔ محمد علی جناح جو انگریزوں اور ہندوئوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے، انہیں مسلمان عقیدتاً اور احتراماً قائداعظم کہتے ہیں۔ اموی حکمران مروان ثانی جس کے ہاتھوں خاندان بنو اُمیہ کا خاتمہ ہوا ’’ال حمار‘‘ کہلاتا تھا۔ حمار کے معنی گدھے کے ہیں۔ گو ہمارے ہاں گدھا تحقیر اور تمسخر کی نشانی ہے لیکن عربی زبان میں اسے اچھے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ یہ بردباری، تحمل اور جفاکشی کا استعارہ ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے خود اپنے نام بدلے، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے تھے۔ بادشاہوں، شاعروں اور فلمی اداکاروں نے موقع کی مناسبت سے اپنے نام خود تجویز کئے۔ مرزا کا پہلا تخلص اسد تھا۔ جب کسی نے نام کا سرقہ کیا، انہوں نے غالب اختیار کیا۔
ویت نام کے صدر ہوچی مِن اور جنرل زوپ نے امریکیوں کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی اور انہیں ناکوں چنے چبوائے۔ دونوں کے یہ Assumed Name تھے۔ Ho Chi Minnh چینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں He who enlightens ۔ اسی طرح جنرل زوپ (Ziap) کے معنی ہیں Armour۔ ان کے اصل نام Nguen Sinh Cung اور Vowguyen تھے۔
میاں شہباز شریف تاریخ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ ان بڑے آدمیوں سے متاثر ہوئے ہوں۔ ویسے بھی یہ معروضی حالات کو سمجھتے ہیں اگر ان کا ایک ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے تو دوسرا پائوں نوکرشاہی کے کندھوں پر دھرا ہوتا ہے۔ فیشن کے رسیا دن میں اتنے لباس نہیں بدلتے، جتنے سرکاری اہلکار شطرنج کے مہروں کی طرح اِدھر اُدھر کر دیئے جاتے ہیں۔ روم کے اکھاڑوں میں جب مجرموں کی چیرپھاڑ ہوتی تھی تو لوگ خوشی سے تالیاں بجا کر دیوانہ وار چیختے تھے۔ گو میاں صاحب کا شمار ملک کے امیر ترین آدمیوں میں ہوتا ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کی تھانیداری بھی کچھ کم اعزاز نہیں ہے لیکن کچھ یوں گمان ہوتا ہے جیسے ہر دو نعمتوں کا بارِگراں انہوں نے باامر مجبوری اٹھا رکھا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے لئے وزیراعلیٰ کے ٹائٹل کی بجائے خادم اعلیٰ تجویز کیا۔ جب ان کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ حضور! خادم کبھی اعلیٰ نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا خدمت گار نہیں گزرا جس کے جلو میں لشکر و سپاہ ہوں اور جو سینکڑوں کمانڈوز کی معیت میں بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتا ہو تو انہوں نے نام کی تصحیح کرتے ہوئے خادم پنجاب رکھ دیا۔ پچھلے الیکشن میں فتح کی خوشی میں ترنگ میں آکر کہہ بیٹھے ، آج سے نوکر پنجاب ہوں۔ کسی نے مشورہ دیا حضور! Humility and Humiliation میں بال برابر فرق ہوتا ہے۔ اب اتنا بھی نیچے نہ جائیں کہ مبالغہ لگے۔ چنانچہ آخری ٹائٹل کو کڑوے گھونٹ کی طرح پی گئے۔
زرداری سے انہیں خاصی پرخاش رہی ہے۔گوالمنڈی میں اسے گھسیٹنے کی بات تو سمجھ آتی تھی لیکن لوگوں کو یہ جان کر بڑی حیرانی ہوئی کہ میاں صاحب سول سرجن بھی ہیں، اس کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی ملکی دولت نکالنے کا بھی عندیہ دیا۔ گو بات محاورتاً کہی گئی تھی لیکن ایک عام آدمی نہ سمجھ سکا کہ سوئس بنکوں میں رکھی ہوئی رقم ایک پیٹ میں سے کیسے برآمد ہوسکتی ہے۔ میاں صاحب کو بھی بتدریج ادراک ہوا کہ جسے وہ گوشت پوست کا انسان سمجھتے تھے، وہ تو ہمالہ سے بھی زیادہ مضبوط ہے جس بلندی تک جوڈیشری کا سر ایڈمنڈ ہلری نہ پہنچ پایا، وہاں تک ان کی رسائی کیونکر ممکن ہوسکے گی! چنانچہ اس بھاری پتھر کو چوم کر یہ ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ صحافیوں کے استفسار پر اپنی مخصوص ہنسی میں صرف اتنا کہا جذبات میں کہی ہوئی باتوں کو اس قدر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ جس طرح اخباری خبر کی عمر ایک دن ہوتی ہے، اسی طرح سیاست دانوں کے بیانات اور دعوئوں کو حیاتِ دوام نہیں بخشنی چاہئے۔ میاں صاحب نے درست کہا تھا کسی نے انڈین ایکٹر آئی ایس جوہر سے پوچھا: سیاست دان کی تعریف کیا ہے؟ تو وہ برجستہ بولا: He shakes
your hand before election and your confidence, after it, Promises are the cheapest commidity available with the candidate۔
اس تناظر میں اگر میاں صاحب نے یہ کہہ دیا ’’اگر چھ ماہ میں بجلی نہ لایا تو میرانام بدل دینا‘‘، تواس کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ پیپلز پارٹی نے ان کانام بدلنے کے لئے ملک بھر سے تجویز مانگی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سعی لاحاصل ہوگی۔ لوگوں کی یاداشت کمزور ہوتی ہے۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ وطن عزیز میں مسٹر ٹین پرسینٹ اور مسٹر سینٹ پرسینٹ کون تھا! ویسے بھی شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر پتھر سنبھالنا دانشمندی نہیں ہے۔