تاریخ نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ وہی کیا جس کا وہ حق دار تھا حالانکہ اس نے عوام کے ساتھ جو کیا وہ ناحق تھا۔ اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد کے احاطے میں دفن یہ فوجی آمر آج مسجد میں آنے والے نمازیوں کی توجہ سے بھی محروم ہے حتیٰ کہ اس کے دور اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاسی چیلے بھی اس کی قبر پر رک کرہاتھ اٹھانے کے روادار نہیں ۔ ہر سال عید کی نمازوں کے لیے کئی صدور مملکت اور وزیر اعظم اس عظیم الشان مسجد میں آئے اور کسی نے بھی سنگ مرمر کے اس نشان عبرت کو نہیں دیکھا مگر پھر اس سے کچھ سبق بھی حاصل نہیں کیا ۔جنرل ضیاء الحق کے کچھ سیاسی پیروکاروں نے اس کے وفات کے بعد بظاہر عبرت تو پکڑ لی مگر غیر سیاسی جانشینوں نے کچھ سبق حاصل نہیں کیا جس کی مثال 12 اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف کی فوجی بغاوت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود جنرل مشرف نے بھی اپنی پیٹی بند فوجی آمر بھائی جنرل ضیاء الحق کی قبر پر کچھ وقت گزارنے کی کبھی زحمت نہیں کی ۔ اقتدار کا نشہ خونی رشتوں سے بیگانا کر دیتا ہے ۔ ضیاء الحق تو صرف ایک پیٹی بند بھائی تھا جنرل مشرف اور ان جیسے فوجی آمروں کے پاس اپنے پیش رو کی قبروں پر جانے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور پھر خود کو جمہوری حکمران کہنے والے فوجی آمر آخر کیسے ایک دوسرے فوجی آمر کی قبر پر جاسکتے ہیں مگر اس دکھاوے کی انسیت اور احترام کی کمی اپنی جگہ ان سب کے تمام اقدامات فوج کے ادارے کو آئینی اداروں پر مسلسل حاوی کرتے رہے ۔ چاہے فوجی آمر کی شکل میں یا جمہوری سپہ سالار کی حیثیت میں۔ جو بھی آیا اس نے پردے میں رہ کر یا پردے سے نکل کر اپنے ادارے کی مرضی مختلف انداز میں سیاسی حکومتوں پر ٹھونسی ۔ یوں ایک لحاظ سے جس طرح بھٹو خاندان پر قبر سے حکومت کرنے کا الزام ہے اسی طرح فوجی آمر مر کر بھی ہمارے اداروں کے لیے امر ہیں ۔ایک طرف گڑھی خدا بخش میںاگر جمہوریت دفن ہے تو دوسری طرف اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد کے احاطے میں آمریت کی لاش دفن ہے ۔ حقیقت میں دونوں کی روحیں بھٹک رہی ہیں اور کیوں نہ ہو ہم آج تک بطور قوم یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ان میں سے نیک روح کون سی ہے اور بد روح کون سی ؟ یہ بے چین روحیں ہماری عدلیہ ، سیاست دانوں اور چند جرنیلوں کے کھلے عام اقرار جرم اور اظہار احساس ندامت کی منتظر ہیں ۔سچ بات یہ ہے کہ شاہ فیصل مسجد کے احاطے میں بسیرا کرنے والی بدروح آج بھی اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں کو جکڑے ہوئے ہے ۔ جمہوریت کی روحوں اور آمریت کی بدروحوں کا مقابلہ جاری ہے ۔المیہ یہ ہے کہ چند نام نہاد دانشور حضرات جمہوریت کی کامیابی یا ناکامی پر بحث کر رہے ہیں ۔ زیادہ تر بیرون ملک کے انگریزی تعلیم یافتہ ان دانشوروں کی ڈیوٹی محض اتنی ہے کہ جمہوریت کو ناکام ثابت کر یں اور باقی کا کام بعد میں دیکھا جائے گا ۔ فوجی آمریت کی یہ بدروحیں تسلسل سے آئینی اداروں اور عہدیداروں کے شریر پر قابض ہونے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ ان بدروحوں کا ایک ہی کام ہے کہ ہر اچھے کام کا سہرا حکومت کے ماتحت ادارے فوج کے سر پر اور ہر برے کام کا ذمہ حکومت اور سیاست دانوں کے سر پر ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاست دانوں نے لوٹ مار کی ۔ کیا اس لوٹ مار کے خلاف کاروائیوں کا کریڈٹ بھی سیاست دانوں کی حکومت کو نہیں ملنا چاہیے ؟فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے ۔ آمریت کی یہ بدروحیں اپنے صحافیانہ تجزیوں میں فوج کو بطور ایک سیاسی جماعت اور اس کے سپہ سالار کو وزیر اعظم اور وفاقی حکومت سے بہتر ثابت کرنے میں کیوں لگے رہتے ہیں ۔ ملک اور قوم کے وسائل سے تربیت یافتہ اور مسلح کی گئی ہماری افواج اس ملک ، قوم اور منتخب حکومت کی افواج ہیں ۔ فوج کے تمام سربراہ ہمارے جنگی ہیرو تو بن سکتے ہیں مگر خود کو بطور حکمران ہم پر مسلط نہیں کر سکتے ۔ فوج ایک پالیسی کا آلہ ہے ایک مشین ہے جس نے صرف اور صرف احکامات پر عمل کرنا ہے اور فوج کی تربیت کا پہلا اصول ہی احکامات پر عمل کرنا ہے ،فوجی آمریت کی بدروحیں اس مشین کو انسان پر فوقیت دے رہی ہیں،یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی مکے باز کی بجائے اس کے ہاتھوں کو جیت کی وجہ قرار دیا جائے،یا پھر فوج کے بہادر شہید سپاہی کی بجائے اس کے ہاتھوں میں پکڑی رائفل کو نشان حیدر کا اعزاز دے دیا جائے،آمریت کی یہ بدروحیں ایسے تجزیے کرنے میں ہی اپنی پیشہ وارانہ بقا کو تلاش کرتی ہیں،نہ جانے ہم اس کو پیشہ ورانہ بقا کہہ بھی سکتے ہیں یا نہیں،مگر شاید ان بدروحوں کے نزدیک اچھی اچھی نوکریاں بڑی بڑی تنخواہیں اور’’ محفوظ تجزیے‘‘ ہی پیشہ ورانہ عمل ہے ،ان بدروحوں کا احساس تحفظ بھٹکتی ہوئی جمہوری روحوں کے احساس عدم تحفظ سے بھی زیادہ ہے،بی بی سی کے محمد حنیف درست کہتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے کا نعرہ اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج جنرل ضیاء الحق بھی زندہ ہے،اس تسلسل سے یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ’’ تم کتنے ضیا الحق مارو گے ہر گھر سے ضیاالحق نکلے گا ‘‘ایک فوجی آمر کی بد روح آج بھی آئین پاکستان کی کتاب پر قبضہ کیے بیٹھی ہے،حالات یہ ہیں کہ فوجی آمروں کی اس جن کو ائین کی کتاب سے مکمل طور پر نکالنے میں جمہوری جوتشی بھی ناکام رہے ہیں،مگر اب جوتشیوں نے خود ہی آمریت کا جن فوجی عدالتوں کی صورت میں اس بوتل سے باہر نکال دی اہے،عدل کی تاریک غاروں میں الٹی لٹکتی چمگادڑوں کو بھی یہ فیصلہ کرنے میں وقت لگ رہا ہے کہ الٹا کیا ہے اور سیدھا کیا،اس غار سے باہر بدروحوں اور جنوں نے معاملات سنبھال رکھے ہیں،آمریت کے تپتے سورج تلے چمگادڑ کا باہر نکل کر اصل صورتحال کا جائزہ لینا ممکن نہیں ،اس لیے فی الوقت غار کے اندر رہ کہ مکمل اندھیرے کا انتظار کرنا ہی ان کے نزدیک مناسب حکمت عملی ہے۔بات فوجی عدالتؤں سے بہت آگے بڑھ چکی ہے عدالتی فیصلے ہی نہیں انتظامی فیصلے بھی اپیکس کمیٹیوں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں،چند حکمران جمہوری روحوں کو ان کی ماضی کی بد روحیں محض مدت حکومت مکمل کرنے کے لیے زباں بندی کا درس دے رہی ہیں،جوں جوں وقت گزر رہا ہے حکومت تو مدت پوری کرتی دکھائی دیتی ہے مگر جمہوریت اور سیاسی نظام کی روحوں پر آمریت کی بدروحیں غلبہ پاتی نظر آ رہی ہیں،فوجی آمر جنرل ضیا الحق کا بویا ہوا بیج بہت تیزی سے ایک تن آور درخت بنتا جا رہا ہے جس پر نفرت اور تشدد کے پھل تیار ہو رہے ہیں۔ہماری روحیں اور بدروحیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔اس مقابلے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کون ہے بے اختیار ،بدعنوان ،مگر جواب دہ حکمران یا بااختیار ،بظاہر ایمان دار مگر غیر جوابدہ کوئی فوجی آمر؟آمریت کی بدروحوں کے تجزیوں سے یوں لگتا ہے کہ بطور قوم ہم سو جوتوں یا سو پیاز کے درمیان فیصلہ کرتے کرتے دونوں ہی کھانے پر مجبور ہیں،اور اس لیے ان کے نزدیک ایک بار پھر جوتے ہی سہی جو یقیناان بدروحوں پر کبھی نہیںبرسیں گے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38