سیانے کہتے ہیں کہ لیڈر وہ جو معتبر لوگوں کے لئے باعث کشش ہو اور ان کو جوڑ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ امید کا ڈیلر ہی ایک لیڈر ہے ہاں! واقعی وہ لیڈر ہے جو ایک ویژن کو عملی شکل دے۔ پھر یہ بات بھی اپنی جگہ پر قابل غور ہے کہ سیاستدان محض اگلے الیکشن پر اور ایک لیڈر اگلی صدی پر نظر رکھتا ہے۔ اقوام وہی ترقی کرتی ہیں جن کے رہبر خود سکرپٹ لکھتے ہیں اور نشیب و فراز کو خاطر میں نہیں لاتے۔
عالم ذات میں درویش بنا دیتا ہے
عشق انساں کو پاگل نہیںہونے دیتا
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ’’راہبران‘‘ کی اکثریت ملک، عوام اور پارٹی کے سکھ کے ساتھی تو ہیں لیکن دکھ کے نہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی عبدالغفار ڈوگر سے جب میں نے پوچھا یہ عامر ڈوگر ولد صلاح الدین ڈوگر مرحوم کو آخر کیا ہوا جو انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا حالانکہ صلاح الدین ڈوگر پی پی پی کے ممبر قومی اسمبلی اور سینٹر بھی رہے، وہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دست راست تھے پھر ملک لیاقت کو مشرف دور میں پٹریاٹ کی طرف سے بڑی بڑی آفر بھی ہوئی تھیں لیکن وہ صلاح الدین ڈوگر اور گیلانی صاحب سے مخلص رہے مگر بحیثیت ایم این اے پارٹی نہ چھوڑی۔ پھر کچھ عرصہ قبل جب بلاول بھٹو زرداری ملتان آئے تو عامر ڈوگر کے عہدوپیماں پی پی پی ہی کے ساتھ تھے۔ ان سب باتوں کا جواب دیتے ہوئے ایم این اے عبدالغفار ڈوگر نے ایک خوبصورت تبصرہ کیا ’’سدا بادشاہی اللہ ہی کی ہے!‘‘ لہٰذا مشکل وقت میں پارٹیوں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، چھوڑنا کوئی بہادری نہیں۔ اسی طرح اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے ن لیگی ایم این اے عارف چوہدری سے راقم نے جب کہا کہ آپ اشرف سوہنا (سابق صوبائی وزیر) کے پی پی پی چھوڑنے پر کیا تبصرہ کرتے ہیں اس پر ہمارے دوست عارف چوہدری نے تبصرہ کرنے پر ہچکچاہٹ محسوس کی، جو تبصرہ کیا وہ شاید قابل بیان نہیں لیکن یہی بات جب ہم نے سابق صوبائی وزیر نیلم جبار چوہدری سے پوچھی تو انہوں نے کہا اشرف سوہنا ایک مخلص کارکن اورساتھی تھا، اس کے پارٹی چھوڑنے پر دکھ ہوا۔ واضح رہے کہ نیلم جبار صاحبہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ) اور اشرف سوہنا وغیرہ پی پی پی کے ان وزراء میں شامل تھے جنہیں الیکشن 2008ء کے بعد میاں شہباز شریف نے اپنی مخلوط حکومت میں کابینہ میں رکھا۔ یہ وہ حکومتی اتحاد تھا جس کی بنیاد تو ’’میثاق جمہوریت‘‘ تھی مگر چلا چند ہی روز۔ شروع میں عددی برتری کے لیے میاں شہباز کو پی پی پی درکار تھی مگر جب ق لیگ کا ایک بڑا ٹولہ فارورڈ بلاک کی صورت میں ن لیگ کی طرف لپکا اور اقتدار سے زیادہ دن دور نہ رہ سکا تو میاں شہباز شریف نے پی پی پی کے تنویر اشرف کائرہ، حاجی عبدالرزاق، اشرف سوہنا، نیلم جبار چوہدری اور ڈاکٹر تنویر الاسلام وغیرہ کو چلتا کیا۔ اہل نظر جانتے ہیں پارلیمانی رواداری، لوٹا ازم سے گریز، میثاق جمہوریت کے رومانس اور جمہوری اساس کا یہ کیسا جنازہ تھا جو جھوم کے نکلا، یہ کہانی پھر سہی۔ اب تو سٹوری یہ ہے کہ کچھ اور موسمی پرندے پی پی پی سے اڑ کر تحریک انصاف یا کسی اور سیاسی منڈیر پر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں اور تو اور، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے حوالے سے بھی شنید ہے کہ وہ بھی سپنوں میں رنگ بھرنے کے لیے کہیں اور جانے کی تمنا رکھتی ہیں۔ محترمہ ق لیگ کو چھوڑ کر آئیں، 2008ء کے بعد زرداری حکومت میں وزارتیں انجوائے کیں اور اب کہیں دور جانے کا ارادہ ہے۔ فرماتی ہیں ’’پی پی کو ہومیو پیتھک گولیوں کی نہیں سرجری کی ضرورت ہے‘‘۔ میں فردوس صاحبہ سے اتفاق کرتا ہوں اور سرجری سے واقعتاً فردوس عاشق اعوان جیسوں کو پی پی پی سے علیحدہ کرنا ہی بہتر ہے بھلے پی پی کو اس تناظر میں جتنا ’’درد‘‘ ہو۔ ویسے ابھی امید نہیں کہ فردوس عاشق اعوان جلدی علیحدہ ہو جائیں گی محترمہ کا یہ کہنا ہے کہ پی پی پی پنجاب میں لاوارث ہو گئی۔ واقعی آپ جیسے وارثوں کے ہوتے اگر کوئی لاوارث ٹھہرا تو پھر ’’وارث‘‘ اپنی پارٹی پر رحم کرنے میں دیر کیوں کرتے ہیں؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ زرداری حکومت کے آخری سال میں میری اس وقت کے وزیر خورشید شاہ سے سعودی یوم الوطنی (سعودیہ ڈے) کی تقریب میں سعودی سفارتخانہ اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا ’’سائیں! یہ لوڈشیڈنگ رہے گی یا آپ’’ لیکن خورشید شاہ اس وقت اقتداریوں میں شامل تھے آج کی طرح بات تھوڑی سنتے تھے جب وارث وراثت کی دیکھ بھال نہ کریں پھر مستقبل کبھی ان کا ہم نوا نہیں رہتا۔ ہم تو کئی دفعہ تحریراً و تقریراً عرض کر چکے ہیں کہ یہ سندھ کی حکومت قائم شاہ سے لیکر خورشید شاہ کو دے دیں کیونکہ حکومت کے لیے موجودہ شاہ وارث کے بجائے وائرس بنتا جا رہا ہے اور پنجاب کو جناب وٹو سے آزاد کراکے قمر زمان کائرہ کے سپرد کر دیں شاید دم نکلنے کی بجائے تھوڑا دم آ جائے۔ وہ یاد آیا، قمر زمان کائرہ سے جیتنے والے ن لیگی ممبر قومی اسمبلی چوہدری جعفر اقبال جونیئر سے قبلہ میاں طلعت محمود کی افطار پارٹی پر خورشید شاہ کا ذکر خیر ہوا، وہ خورشید شاہ جو اسمبلی میں ہمیشہ اچھی تقریر کرتے ہیں لیکن بجٹ کے موقع پر دلیل کے فقدان نے انہیں رسوا کیا۔ ویسے بائی دی وے جعفر اقبال جونیئر خورشید شاہ کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر جعفر اقبال کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ نے سندھ سنبھالنے سے انکار کر دیا ہے اور وجہ انکار محترمہ فریال تالپور کی بے جامداخلتیں بتائیں، باقی رب جانے، خورشید شاہ جانے یا راوی جعفر اقبال۔ بقول اصغر گونڈوی:
میں کیا کہوں، کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑتی پھرتی ہے نشتر لئے ہوئے
اب دیکھنا یہ ہے زرداری صاحب خورشید شاہ کو سندھ کی ذمہ داری کب دیتے ہیں اور بلاول زرداری کو قومی اسمبلی میں لانچ کب کرتے ہیں؟ زرداری صاحب کو معلوم تو ہو گا ، کہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں تحریک انصاف کے نام سے بھی لوگ آشنا نہ تھے اور عمران خان کی پارٹی سیاسی میدان میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی۔ پی پی پی کے مصنوعی یا اصلی قحط الرجال کے سبب اب کئی پردہ نشینوں کا نام تحریک انصاف میں روانگی کے لیے صفحہ سیاست پر کندہ دکھائی دیتا ہے کیا بلاول زرداری میں اتنی ہمت ہے کہ وہ پیپلز پارٹی سنبھالتے ہوئے صاف صاف کہہ دے کہ، اے جیالو! میری مانو یا میری رہنمائی کرو، نہیں تو چلے جائو؟ اقتداری مچھلیاں حکومتی پانی کے بغیر کہاں زندہ رہ سکتی ہیں۔ جس طرح ماضی میں ن لیگیوں کے لیے ق لیگ اچانک باعث کشش بنی آج ٹھیک اسی طرح پی پی پی والوں کے لیے تحریک انصاف جاذب نظر ہے لیکن عمران خان یہ جان لیں کہ ’’ادھر اُدھر‘‘ والوں کی کوکھ سے آمریت ہی جنم لیا کرتی ہے بہر حال حکومت اس کی جو پیامن بھائے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ پیا کا دست شفقت نہیں تو حکومت بھی نہیں! لمبی اننگ، اصل جمہوریت، ملکی تحفظ کے لیے پیراسیٹک سیاستدان (طفیلئے) نہیں قائدین درکار ہیں۔ سیاستدان گلی، محلے، نالی اور قوالی کا سوچتا ہے اور لیڈر کالا باغ ڈیم، پانی کے آنے والے بحرانوں، ریلوے، پی آئی اے، ہائرایجوکیشن،ریسرچ و ٹیکنالوجی، آئین کی علمبرداری، فراہمی انصاف، صحت عامہ اور اداروں کا اپنے اپنے مقامات پر سوچنا ہے۔ میں نہیں مانتا لیڈر پیدا ہوتے ہیں حقیقت یہی ہے کہ حالات و واقعات زود فہموں میں سے لیڈران دریافت کرتے ہیں یا تراشتے ہیں۔ امید کا ڈیلر اور ویژن کو عملی رنگ دینے والا کسی سکرپٹ پر نہیں صراط مستقیم پر چلتا ہے۔آنے والے ادوار میں کسی بلاول زرداری یا مریم نواز یا مونس الٰہی وغیرہ کا مقدر کا سکندر ہونا کافی نہیں، قلندر ہونا ضروری ہے۔ قیادت ہی استحکام دیتی ہے جو ادھر ادھر جانے والے پناہ گیر نہیں دیتے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024