یہ سوال سب سے اہم ہے کہ امریکہ کے لئے ٹرمپ زیادہ موثر صدر ہوں گے یا ان کے پیش رو صدور نے امریکہ کو زیادہ فوائد پہنچائے۔ یقیناً اکثریت اسی حق میں ہے کہ ٹرمپ کے پیش رو صدور نے ہی مناسب حکمت عملی سے امریکہ کو گرانقدر فوائد پہنچائے اور دنیا کو امریکی مفادات کے لئے بہترین طریقے سے استعمال کیا۔ روس دوسری سپرپاور تھی اور ہر وقت امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات ہوتی تھی۔ ویتنام میں امریکہ کو بدترین شکست کا ذمہ دار بھی روس تھا لیکن امریکی سربراہان نے اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے انتہائی شاطرانہ طریقے سے افغانستان میں پاکستان کو نہ صرف استعمال کیا بلکہ پاکستان کے ذریعے امریکہ نے ایک سپر پاور کو ٹکڑے ٹکڑے کرایا جبکہ یہ کام امریکہ براہ راست شاید کبھی نہیں کر سکتا تھا۔ سابق امریکی صدور نے انتہائی معمولی سرمایہ کاری کے عوض پاکستان کو روس کے خلاف استعمال کیا۔ روس شکست سے دوچار ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تو امریکہ نے نئی حکمت عملی اپنائی اور مجاہدین کو پہلے القاعدہ پھر طالبان اور اب دہشت گرد قرار دیکر ان کیلئے زمین تنگ کر دی۔امریکی مفادات کی اس جنگ میں پاکستان1979ء میںبری طرح استعمال ہوا۔
سابق امریکی صدور نے حکمت عملی اپنائی کہ افغان جنگ میں پاکستان کو استعمال کرنے کے بعد پاکستان کو ہر طرح کمزور کرنا شروع کر دیا اور القاعدہ رہنما کی تلاش میں امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کے راستے اپنی افواج کیلئے تمام سامان بمع فیول لیتا رہا لیکن پاکستان سے ٹیکس فری سہولیات لیں اور اتنی امداد تک نہیں دی جس قدر پاکستان کی سڑکیں اور فضائی راستے استعمال کئے گئے۔
سابق امریکی صدو ر نے ایسی پالیسی اختیار کئے رکھی کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کرپشن ودولت کی دلدل میں پھنسایا اور مسلم ممالک کی لوٹی گئی دولت اپنے ملک میں لے جا کر محفوظ کی اور مسلم حکمرانوں کو یہ یقین دلائے رکھا کہ ہماری منشاء کے مطابق اگر کام کرتے رہو گے تو تمہارا اقتدار‘ عیش وعشرت برقرار رہے گی لیکن جب بھی امریکہ کے مفادات کی پالیسی پر عملدرآمد سے اگر کسی نے تھوڑا بھی لیت ولعل سے کام لیا تو اسے اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ امریکہ نے اس پالیسی کے تحت فلسطین میں اسرائیل بنا لیا اور اسرائیل کے تسلط میں مسلسل اضافہ کرتا چلا گیا لیکن مسلم حکمرانوں کو دوستی کے فریب میں رکھ کر دنیا پر یہودی لابی کو مسلط کیا جاتا رہا۔
ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے نہ صرف افغانستان میں شکست تسلیم کی بلکہ اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیکر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیا۔ پاکستان کو ٹرمپ کی دھمکیوں کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے البتہ دہشت گردی کی امریکی جنگ میں امریکہ کی جانب سے ملنے والی رقوم اور اس جنگ میں ہونیوالے جانی ومالی نقصانات کی مکمل تفصیل امریکی حکام کو لازمی دینی چاہئے اور افغانستان میں 15سال سے بیٹھا امریکہ یہ بات تسلیم کر چکا ہے کہ افغانستان کا اکثریت علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور طالبان تو کابل میں بھی آئے روز امریکی وافغان فورسز کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دینے سے پہلے افغانستان پر توجہ دے اور وہاں دہشت گردی کا خاتمہ اسکی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ پاکستان الحمد اللہ اپنی حدود کو دہشت گردوں سے تقریباً پاک کر چکا ہے اور جو چند گروپ رہ گئے ہیں ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ افغان حدود میں پاکستان مخالف دہشت گردوں کو پناہ دیکر پاکستان پر دبائو ڈالنے کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو سکیں گی کیونکہ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغانستان‘ امریکہ اور بھارت کا اتحاد پاکستان میں سی پیک کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ بننے کی کوشش کر رہا ہے اور پہلے ڈھکی چھپی دھمکیوں سے جب کچھ نہ ہو سکا تو اب براہ راست دھمکیوں سے مرعوب کر کے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سابق امریکی صدور نے منافقانہ طریقے سے خاموشی کے ساتھ امریکی مفادات کو بہتر طریقے سے حاصل کیا لیکن ٹرمپ کی دھمکی آمیز پالیسیاںامریکہ کو دنیا بھر میں تنہا کر رہی ہیں۔