آج سے حکومت کے پاس ڈیڑھ سال باقی بچا ہے ۔ ساڑھے تین سال کس تیزی سے گزر گئے ۔ حکومتوں کی عدم دلچسپی کہ 1998ءکے بعد سے اب تک مردم شماری نہ کرائی جا سکی ۔ سرکاری دستاویزات میں سارے اعداد و شمار اندازوں پر چل رہے ہیں ۔ وفاقی ادارہ شماریات ، سٹیٹ بنک ، اکنامک ایڈوائزر ونگ اعداد و شمار کا کھیل کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ حکومت کے مُوڈ کی طرح اعداد و شمار سے کھیلتے ہیں ۔ آلو ، پیاز ، ٹماٹر کی وہ قیمت بتاتے ہیں جو کبھی صارفین نے سوچی نہ ہو ۔ وزارت خزانہ کے اعداد و شمار اپنے آقاﺅں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی خوشنودی کےلئے ہوتے ہیں ۔ آئین کے تحت ہر 10 سال بعد مردم شماری کرانا لازمی ہے ۔ عقل حیران ہے کہ صحیح اعداد و شمار کے بغیر منصوبہ بندی کی وزارت کیسے کام کر رہی ہے ؟ ویژن 2025ءنہ جانے کن کے گھڑے ہوئے اعداد و شمار پر تیار کیا گیا ؟ کب تک فرضی تخمینوں سے کام چلایا جاتا رہے گا ؟ کب تک حکومت عذر پیش کرتی رہے گی؟ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ حکومت کی مردم شماری کرانے کی نیت ہی نہیں ۔ اگر مردم شماری نہیں کرانی تو آئین میں ترمیم کر لیں ۔ جمہوری نظام کا دارو مدار مردم شماری پر ہوتا ہے ۔ اسکے بغیر انتخابات کا انعقاد عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے ۔ درست منصوبہ بندی کےلئے آبادی کے تازہ ترین اعداد و شمار پر ہی انحصار کیا جا سکتا ہے ۔ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ آبادی کی شرح میں کس حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔ 1998ءکی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 8 لاکھ 57 ہزار سے زائد تھی اور اب 21 کروڑ آبادی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے ۔ کسی کو صحیح پتہ نہیں کہ کتنے لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور کتنے بے روزگار پھر رہے ہیں۔
نومبر 1990ءمیں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے اس وقت سے اب تک قوم نے انکے تین ادوار دیکھے ان کی یہی کوشش رہی کہ ٹیکس چوروں کو ایمنسٹی سکیموں کے ذریعے ممکنہ حد تک بچایا جائے اسی وجہ سے ان کا سب سے بڑا ووٹ بنک کاروباری طبقہ ہے ۔ اپنے موجودہ تیسرے دور میں تو وہ اب تک چار ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرا چکے ہی ۔ ایک نئی سکیم اس وقت پائپ لائن میں ہے ۔
2013ء، 2015ءاور 2016ءکی ایمنسٹی سکیمیں ٹیکس چوروں سے پیسہ اگلوانے میں ناکام رہیں ۔ نان فائلرز کےلئے یکم جنوری 2016ءمیں سکیم لائی گئی لیکن ٹیکس چوروں کیخلاف عملاً کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ ایف بی آر نے ڈائریکٹریاں چھاپیں جو پرانی ٹیلی فون ڈائریکٹریوں اور بجٹ کی کتابوں کی طرح پکوڑے بیچنے والوں کے ہاتھ لگ گئیں۔ 2013ءکی ایمنسٹی سکیم سے صرف 3000 فیض یافتگان سامنے آئے جن سے صرف 88 ملین روپے وصول ہو سکے ۔ ایک ملین نئے فائلرز کا ٹارگٹ تو کیا پورا ہوتا صرف 3205 لوگ ٹیکس نیٹ میں پھنس سکے ایف بی آر نے تسلیم کیا ہے کہ انکم ٹیکس میں تاجروں کا حصہ صرف 0.5 فیصد جبکہ سیلز ٹیکس میں کم و بیش ایک فیصد ہے ۔ طاقتور لینڈ لارڈز کی طرح تاجر بھی برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ بڑی بڑی مارکیٹوں میں دکانوں کے ایڈوانس اور کرائے سن کر عام آدمی کا سر چکرانے لگتا ہے ۔ بڑی بڑی مارکیٹوں کے برآمدوں میں چھابڑی لگانے کی قیمت بھی لاکھوں میں ہے ۔ تاجر حکمران جماعت سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے ایف بی آر ان سے فاصلہ رکھتا ہے ۔ وزیر خزانہ تو ہڑتال کا لفظ تک سننا نہیں چاہتے۔ انکم ٹیکس لاءکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تاجروں نے اپنی دھمکیوں اور اتحاد سے ہر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ۔ سول اور فوجی دونوں طرح کی حکومتیں تاجروں کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوتی رہیں ۔ ایوب خان نے 1958ء جبکہ یحییٰ خان نے 1969ءمیں ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے ٹیکس چوروں کو اپنا کالا دھن سفید کرنے کا موقع دیا ۔
1970ءکی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے خود تشخیصی سکیم متعارف کرائی ۔ 1980ءکی دہائی میں نیشنل فنڈ بانڈز سکیم سامنے لائی گئی ۔ 1990ءکی دہائی میں فارن کرنسی اکاﺅنٹس اور فارن ایکسچینج بیئرر سرٹیفکیٹس سامنے لائے گئے ۔ 2008ءمیں پیپلز پارٹی دور کی ایمنسٹی سکیم بھی کالا دھن رکھنے والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ موجودہ نواز شریف دور کی سکیمیں بھی کارگر ثابت نہ ہوئیں ۔ ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ کی طرح کالے دھن کی ریل پیل اور حجم بڑھتا گیا اور اب تو ہر طرف کالے دھن کی تاریکی نے سورج اور چاند کو بھی گہنا دیا ہے ۔ ملک کے چپے چپے پر ہاﺅسنگ سکیموں کا جال پھیل چکا ہے ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بہتات ہے جس طرح طب کے شعبے میں عطائیوں کا راج ہے اسی طرح ابلاغیات کے شعبے میں بھی عطائیوں کی کمی نہیں ۔ کالا دھن اور زرد صحافت حقیقی بہنیں ہیں ۔ پاناما لیکس کے دستانے چڑھائے ہاتھ کالے دھن یافتگان پر ہاتھ نہیں بڑھا سکتے ۔ سپاہی سپاہی ، ڈاکٹر ڈاکٹر ، چور چور ، پروفیسر پروفیسر ، مولوی مولوی اور وکیل وکیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
حیرت ہے کہ 18 سال تک فرضی اعداد و شمار سے کام چلایا جاتا رہا ۔ کسی کو پتہ نہیں کہ ملکی آبادی میں کتنے فیصد لوگ کون سے شعبے سے وابستہ ہیں ، کتنے رقبے پر کونسی فصل کاشت کرنا چاہئے وغیرہ ۔ یہ بات حیران کن ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کے باوجود ہمارے ہاں قیمتوں میں استحکام نہیں ہے ۔ پہلے ہر ماہ قیمتوں پر نظر ثانی ہوتی تھی اب 7 ماہ بعد 2 روپے 70 پیسے تک اضافہ کیا گیا ہے ۔ حکومت کا یہ کہنا ناقابل فہم ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کرنے کے باوجود حکومت کو چار ارب روپے کا بوجھ برداشت کرنا پڑیگا ۔ پٹرولیم مصنوعات پر 50 فیصد سے زائد ٹیکس حکومت وصول کرتی ہے۔ عوام ایک ارب روپے کا پٹرول خریدیں تو حکومت کو گھر بیٹھے 50 کروڑ مل جاتے ہیں ۔ اگر حکمران خود ہی عوام پر مہنگائی کا بوجھ لادنے لگیں تو پھر عوام کہاں جائینگے ۔ پٹرول کی قیمت میں معمولی اضافہ ہوتا ہے تو اشیائے صارفین کی قیمتیں اس عذر کی بنا پر بڑھا دی جاتی ہیں بالخصوص ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ناروا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ مردم شماری نہ ہونے سے یہ بھی نہیں پتہ کہ خطِ غربت سے نیچے کتنے لوگ مجبوری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ بجلی اور گیس کے نرخوں سے غریب طبقہ پہلے ہی پسا ہوا ہے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38