ملک میں جنرل ضیاءالحق کا مارشل لا نافذ تھا اورشہر شہر سیاسی بے چینی اپنے زوروں پر تھی، کراچی کی مذہبی جماعتوں کی جنرل ضیاءالحق سے قربت اور حکومت میں شمولیت کے باوجود مسائل حل نہ ہوسکے، جس کی وجہ سے کراچی کے عام اردو بولنے والے لوگوں میں جماعت اسلامی اور مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) سے بھی بیزاری اُٹھنے اور فرسٹریشن بڑھنے لگی تھی۔ مذہب اور ضیاءالحق کی حامی جماعتوں سے خار رکھنے والے سیکولر دانشور شام ڈھلے کیفے اور قہوہ خانوں میں اکٹھے ہوتے اور اپنے مخالفین کیخلاف چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی تدبیریں سوچتے رہتے۔ انہی بوڑھے دانشوروں میں سے ایک مذہبی جماعتوں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والا ،شاطر، زیرک اور بلا کا مقرر سید اختر رضوی تھا۔ یہ وہی اختر رضوی تھا جس کا خواب تھا کہ سندھ میں اردو بولنے والے مذہبی جماعتوں کے چنگل سے نکل کر سندھیوں کے قریب آجائیں۔اس خواب کی تکمیل کیلئے اختر رضوی نے سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی مذاہب عالم اور صوفی ازم پر متنازع کتاب کا اردو میں ”جیسا میں نے دیکھا“ کے عنوان سے ترجمہ کرکے خود پر کفر کے فتوے تک لگوالیے تھے۔ اپنے خواب کو تعبیر دینے کیلئے اختر رضوی کو ایک ایسے مہاجر نوجوان کی ضرورت تھی، جسے وہ مہاجروں کا قائد بنانے کیلئے تیار کرسکتا! تب تک اختر رضوی نے جتنے بھی نوجوان پرکھے تھے، کوئی بھی اس کے معیار پر پورا نہ اترا۔یہ اسی کی دہائی کا آغاز تھا اور کراچی میں عزیز آباد جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ ایک دن عزیز آباد کے قریبی کیفے آبشار میں اختر رضوی اپنے بوڑھے دانشوروں کے ساتھ شطرنج کی بساط بچھائے بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیا اور اس میز کے نیچے گھس گیا، جس پر شطرنج کی بساط بچھی تھی۔یہ نوجوان چلائے جارہا تھا”مجھے اِن جماعتیوں سے بچاو¿، یہ مجھے مار ڈالیں گے،اگر مجھے بچالیا گیا تو ٹھیک ورنہ میں اِن سب کو مار ڈالوں گا“ یہ نوجوان کبھی رونا شروع کردیتا اور کبھی چلانے لگتا، کبھی قہقہے لگانے لگتا، کبھی تقریر کرنا شروع کردیتا اور کبھی بیہودہ گانے گانے شروع کردیتا۔ اختر رضوی نے اُس نوجوان کو میز کے نیچے سے نکالا، لہو اور پان کی پیک سے تر اُس کی باچھیں اور آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے، پانی پلایا اور پوچھا ”مہاجروں کا قائد بنے گا؟“نوجوان نے روہانسے لہجے میں سر کو اثبات میں جنبش دی تو اختر رضوی نے مسکراکر کمر پر پاو¿ں مارتے ہوئے کہا”چل بچے چھپ جا، کوئی تیرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا“۔
نوجوان دوبارہ میز کے نیچے چھپ گیا، اس دوران چند باریش نوجوان دوڑتے ہوئے آئے اور نوجوان کا حلیہ بتاکر اُسکے بارے میں دریافت کیا۔ جواب نفی میں پاکر وہ لوگ تو لوٹ گئے، لیکن میز کے نیچے اس نوجوان کو چھوڑ گئے جس نے آنےوالی چا دہائیوں تک اپنی ”اگر اور ورنہ“ سے کراچی اور اہل کراچی کو تگنی کا ناچ نچاکر رکھ دیا۔ میز کے نیچے چھپنے والا یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ ایم کیو ایم کا قائد الطاف حسین تھا۔
اختر رضوی کومہاجروں کو مذہبی جماعتوں کے تیز اثر سے نکال کر قوم پرستی کے دوزخ میں پھینکنے کیلئے الطاف حسین میں وہ تمام قائدانہ صلاحتیں نظر آگئیں تھیں، جس کی اختر رضوی کو عرصہ سے تلاش تھی۔اُس دن سے اختر رضوی الطاف حسین کا اتالیق بن گیا، جسکے بعد 1980ء کے وسط میں نشتر پارک کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کا پہلا اجتماع ہوا۔اس اجتماع میں پیش کی جانے والی قرارداد مقاصداور الطاف حسین کی تقریر کا مصنف بھی اختر رضوی ہی تھا۔اس قرارداد مقاصد میں بھارت سے ڈاک خرچ میں کمی اور کھوکھرا پار کا بارڈر کھولنے جیسے مطالبات نے دونوں ملکوں کے تقسیم شدہ خاندانوں میں مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو مقبول کردیا۔اسی دوران گاڑی کے نیچے آکر مہاجر طالبہ بشریٰ زیدی کی ہلاکت کا واقعہ پیش آگیا، جس کے بعد مہاجر پہلے پٹھانوں سے ٹکرائے، پھر پنجابیوں پر ہاتھ صاف اور پھر سندھیوں کو لتاڑنے لگے۔1986ءمیں سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں جب ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد میں اکثریت سے جیت کر آئی تو اختر رضوی بھی کراچی سے کونسلر منتخب ہوا، لیکن الطاف حسین کی شکل میں ایک ہونہار چیلا اختر رضوی کے ہاتھ سے نکل کر خطے میں اِسی طرح کے ”شاگرد“ ڈھونڈنے والے ”اتالیقوں“ کے ہاتھ لگ گیا۔ یہ ”اتالیق“ لڑنے کیلئے اسلحہ بھی دیتے، کھانے کیلئے روٹی بھی اور جینے کیلئے مخالف کو قتل کرنے کا درس اور مکمل پشت پناہی بھی دیتے تھے۔ اختر رضوی نے صورتحال بھانپ کر ایم کیو ایم کے بنیادی اغراض و مقاصد سے انحراف کی جانب توجہ دلائی تو اُسے اپنے ہی تخلیق کردہ ”قائد“ کا غدار قرار دیدیا تھا۔ غدار قرار پانے کے بعد اختر رضوی موت کا حقدار بھی ٹھہرادیا گیا، جس کے بعد مہاجر قومیت کایہ فلسفہ دان کئی برسوں تک مختلف شہروں میں جان بچانے کیلئے چھپتا پھرتا رہا۔
ایم کیو ایم قائم ہونے کے بعد آنے والے پینتیس برسوں میں جو کچھ کراچی اور اہل کراچی پر گزری ، وہ سب تاریخ ہے جسکے بارے میں پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ قتل و غارت، بوری بند لاشوں، بھتہ خوری اور مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ نے کراچی کو عروس البلاد سے اجڑی مانگ والی بیوہ بنا کر رکھ دیا اور کراچی کو اِن حالوں پہنچانے کے ذمہ دار الطاف حسین نے اختر رضوی کے میز سے نکل کر سیدھی لندن میں ”عالمی استعمار کی میز“ کے نیچے جاکر پناہ لے لی۔الطاف حسین نے اسی کی دہائی میں اختر رضوی کی میز تلے چھپ کر ”اگر اور ورنہ“ کا جو سبق یاد کیا، وہ آج تک وہی کچھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ رونا پیٹنا، چلنا، ڈرامے بازی، دھونس دھمکی، مظلومیت کا ڈھونگ گزشتہ چار دہائیوں سے الطاف حسین کی سیاست کے اہم ترین ہتھیار رہے ہیں اور اس دوران انہوں نے دھمکی، گالی اور گولی کے استعمال کے ساتھ ساتھ برا وقت دیکھ کر معافی مانگنے کی ”بیماری“ بھی لگ گئی، جس کا پردہ اِسی حرف ناز میں اِس کالم نگار نے چار مئی کو ان الفاظ میں چاک کیا تھا”جہاں طبی ماہرین متفق ہیں کہ بار بار ایک ہی جرم کرنا اور کرتے ہی چلے جانامحض ایک جرم نہیں بلکہ خطرناک بیماری بھی ہے، وہیں اس مرض کے ”علاج“ کے حوالے سے بھی مغرب میں بہت تحقیق ہوچکی ہے۔مغرب میں تکرار جرم کا ارتکاب کرنیوالے مجرم نما مریضوں کے لیے سزا کے ساتھ علاج کی ضرورت بھی محسوس کی جانے لگی ہے۔امریکہ میں اگرچہ ایسے مجرم نما مریضوں کا علاج صرف سزا دے کر کیا جاتا ہے، لیکن برطانیہ میں ایسے مجرم نما مریضوں کو سزا کی بجائے، علیحدگی میں رکھ کر تعلیم اور تربیت کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر برطانیہ میں اس”بیماری“ کی بہترین علاج گاہیں جیلوں میں قائم ہیں، اور ایسے مریضوں کا علاج جیل میں رکھ کر ہی کیا جاتا ہے؟ “
±ٓقارئین کرام!! اسی طرح29جون کو اِس کالم نگار نے لکھا تھا کہ ”کراچی کے عوام سے منہ کا نوالہ چھیننے میں پیش پیش متحدہ قومی موومنٹ پر محب وطن حلقے عرصہ سے پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس پابندی سے بچنا اب خود متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت پر منحصر ہے۔ ”اگر“ ایم کیو ایم کی قیادت دشمن ملک سے رابطوں اور فنڈنگ لینے کا اپنا جرم تسلیم کرلے، اپنا عسکری ونگ ختم کرکے قاتلوں کو قانون کے حوالے کردے اور اپنی جماعت کو مکمل سیاسی قالب میں ڈھال لے تو ٹھیک ”ورنہ“ ایم کیو ایم پر مکمل پابندی کا جو کام بوجوہ پاکستان میں نہیں ہوسکا، وہ کام برطانیہ کی عدالتوں سے ہوجائے گا“۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے رہنماو¿ں نے اِس ”اگر“ پر عمل نہیں کیا، اب لگتا تو یہی ہے کہ اختر رضوی کی35 برس پہلے بچھائی جانے والی شطرنج کی بازی پلٹنے والی ہے اور اُس کی میز کے نیچے ”اگر اور ورنہ“ کی سیاست سیکھنے والے الطاف حسین کو اب خود ”اگر اور ورنہ“ کا سامنا ہے۔جس طرح الطاف حسین نے کراچی میں ”اگر اور ورنہ“ کا خونیں کھیل کھیلا، بالکل اُسی طرح اب ”اگر اور ورنہ“ کا خونیںکھیل الطاف حسین پر پلٹنے والاہے۔”اگر اور ورنہ“ کے اِس خونی کھیل میں اب قدرت کی باری ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024