آج ملکی حالات کے حوالے سے ”فخریہ“ اور ”فاتحانہ “انداز میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیںکہ ملک صحیح سمت پر جا رہا ہے ،یا ملک ترقی کر رہا ہے ۔( معذرت کے ساتھ) اگر یہ کہا جائے کہ وطن عزیز میں حکومت ہے ہی نہیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے، بس اللہ توکل ہی ملک چل رہا ہے اور ہر طرف سے پاکستان کو گھیرے میں لیا جا رہا ہے ، دشمن نے اپنے پینترے بدل دیے ہیں، اُسکی چالوں میں جدت آچکی ہے، دشمن نے اپنی حکمت عملی کو بدلتے ہوئے پاکستان کے کمزور پہلوﺅں کو ہٹ کرنا شروع کر دیا ہے، وہ کبھی ہمیں سوئٹزلینڈ جیسے ملک میں ”آزاد بلوچستان“ کی غیر ضروری مہم میں اُلجھا رہا ہے تو کبھی اسلام آباد جیسے شہروں میں داعش کی موجودگی کو ہو ادےکر پوری دنیا میں پاکستان کےخلاف پراپیگنڈہ کر بھی رہا ہے اور وہ اُس میں کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ وہ کبھی ہمارے درمیان شخصیات کو خریدتا ہے ، کبھی پڑھے لکھے نوجوانوں کو استعمال کرتا اور اپنے مقاصد پورے کرتا دکھائی دیتا ہے۔ داد دینی چاہیے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کو کہ انہوں نے ان خطرات کا پہلے سے بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان کیلئے حالات بگڑتے جا رہے ہیں اور اگر ہم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو حالات کی سنگینی بڑھتی جائےگی۔ لیکن افسوس اُنکی باتوں پر حکومت نے توجہ نہ دی .... افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ، کنٹرول لائن پر بھارتی چھیڑ چھاڑ، پاکستان کو توڑنے کی بھارتی سازش اور پاکستان کیخلاف عالمی سطح پر سنگین بھارتی پراپیگنڈہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آنیوالے دن پاکستان کیلئے بہت مشکل ہونے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے انڈیا اربوں ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔
مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادتیں بلی چوہے کے کھیل میں مصروف دکھائی دیتی ہیں ، حکومت اور اپوزیشن ذاتی مفادات کو تقویت بخشنے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں، ملک کھربوں ڈالر کے قرضے تلے دب چکا ہے، امپورٹ بل اس قدر بڑھ چکا ہے کہ پاکستان کا سارا ریونیو اُس پر خرچ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ افریقی ممالک کی ایکسپورٹ سے بھی نیچے آرہی ہے۔ عوام کو مہنگے داموں بجلی فروخت کر کے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اُس نے لوڈ شیڈنگ ختم کردی ہے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرکے دنیا کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ہم قرضے اُتارنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، دنیا میں سب سے مہنگے ریٹ پر ہمیں قرضے مل رہے ہیں، ملک ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ احتساب نام کی کوئی چیز اگر ہو تو وہ عوام کیلئے ہوجبکہ حکمران قانون سے بالاتر ہوں،ملکی معیشت غیر ملکوں اور غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں میں جا رہی ہے، پیسے والے لوگ بینکاری نظام کی دھجیاں اڑا رہے ہیں،ارب پتی اربوں روپے کے قرض لے کر معاف کر وا رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ جبکہ حکمرانوں کے ذاتی کاروبار 500فیصد سالانہ منافع پر کمار ہے ہیںاور ملک ڈوب رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ میں پاکستان کے دشمنوں کو ”داد“ دینا چاہتا ہوں جنہوں نے ہمارے سیاسی قائدین کو ایسی گمبھیرتامیں اُلجھا دیا ہے جہاں سے نکلنا اُن کیلئے خاصا مشکل ہو چکاہے۔ جب دشمن سر پر کھڑا ہو اور سیاسی قائدین اداروں کو لڑانے کیلئے میدان میں ہوں تو بہت سے سوال جنم لیتے ہیں ، ہماری اسمبلیاں اکثریت اور اقلیت کے کھیلوں میں اُلجھی ہوئی نظر آرہی ہے۔ حقیقت میں یہ قومی تاریخ کا سنگین المیہ ہے کہ پاکستان کو ”بنانا ری پبلک“ بنا دیا گیا ہے ، لیکن کس نے بنایا یہ کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے؟ ہماری پالیسی کہاں ہے؟ فکر کی بات عوام کیلئے یہ ہے کہ جن قائدین کا ہم انتخاب کر رہے ہیں کس قدر شرمندگی کی بات ہوگی جب کوئی باہر سے آنیوالے کسی مہذب معاشرے کا صدر یا وزیر اعظم پارٹی سربراہ سے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دے گا کہ ”آپ کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 2بار نااہل کیا ہے“ لہٰذا آئی ایم سوری....!
بہرکیف ہمیں اب سنبھل جانا چاہیے، شخصیت پرستی کو فروغ دینے کے بجائے ملک کے بات کرنی چاہیے۔ بیرونی حالات کو سمجھ کر ایسی پالیسیاں مرتب کرنی چاہیئں جو فی الوقت ملک اور عوام کیلئے آسانیاں پیدا کر سکیں اور ان حالات کا تدارک کیا جائے جو ”جن“ بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ ان خطرات ہی کی بدولت گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں اسپیشل کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی جس میں قومی سلامتی اور ملک کی داخلی صورتحال کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے اور واضح کیا گیا کہ بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار قبول نہیں ہے اور مادر وطن کے دفاع کیلئے بھرپور اقدامات کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اتفاق کیاگیا کہ اس سلسلے میں تمام وسائل بروئے کار لائے جائینگے۔
ان خطرات ہی کی بدولت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ افغانستان کے مختصر دورے پر گئے ، جہاں اُن کا مقصد ماضی کی تلخیوں کا خاتمہ اوردونوں ممالک میں جاری کشیدہ صورتحال کو بہتر سمت میں لانا تھا،آرمی چیف کا افغانستان کا دورہ دونوں ممالک میں امن کی فضاءقائم کرنے میں بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہواجس کے مثبت اثرات بھی بہت جلد سامنے آنے شروع ہوجائینگے۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں کشیدگی کا خاتمہ باہمی گفت و شنید میں ہی پوشیدہ ہے،دونوں رہنماﺅں نے سیاسی وفوجی تعلقات کو بہتر کرنے کے ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹر کا راستہ روکنے پر بھی اتفاق کیا ، افغان صدر اشرف غنی اور د یگر عسکری حکام سے اجتماعی اور ون ٹو ون ملاقاتوں میںماضی کی غلط فہمیوں کو دور کیا گیا۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جنگوں کارحجان اور مسافروں سمیت تجارتی آمدو رفت کو روکنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا سیکورٹی وجوہات پر ایسا کرنا درست ضرورہوسکتاہے مگر تاحیات ایسا کرنا کسی بھی پڑوسی ملک کے ساتھ اچھا رویہ نہیں سمجھا جاتا،ہمیں آرمی چیف کے اس دورے سے امید رکھنی چاہیے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان جذبہ خیر سگالی کا عمل دونوں ہی ممالک کیلئے فائدہ مند ثابت ہواور ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ ہمسائے کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتے جبکہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ افغانستان پاکستان کیلئے سر درد بن جائے جس سے جان چھڑانے کیلئے پاکستان افغانستان پر چڑھ دوڑے اور دونوں ملک کے آپس میں لڑنے کافائدہ بھارت اُٹھاتا رہے۔ اسی قسم کا خطرہ آج داعش کی صورت میں سر اُٹھا رہا ہے اور بعض قوتوں کی جانب سے یہ دکھایا جا رہا ہے کہ داعش پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ داعش جسے پسپا کرنے کیلئے ایک مو¿ثر پیشگی حکمت عملی کی ضرورت ہے اور پاک فوج اس کا خاتمہ کرنے کیلئے کامیاب بھی ہوئی ہے۔ ۔ لہٰذا پاکستان کو چاہیئے کہ اس سلسلے میں اپنے بیانیے کو موجودہ حالات و واقعات کی روشنی میں ہم آہنگ کرے اوراپنے نوجوانوں کوانتہا پسند نظریات کی یلغار سے محفوظ رکھنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے، چونکہ اس تنظیم کا اصل ہدف”نوجوان نسل“ ہے۔
اور رہی بات پاک فوج کے عزم کی تو پاک فوج کی تاریخ جرا¿ت اور بہادری کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، سینکڑوں ہزاروں ایسی مثالیں ہیں کہ والدین کا اکلوتا بیٹا اور بہنوں کا اکلوتا بھائی مادر وطن کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے گیا۔ اس قربانی کی قدر اسکے پیاروں سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ ہم لوگ تنقید کرنےوالے اپنے گھروں اور مہنگے مہنگے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں آزاد ماحول میں بیٹھے بلا خوف خطر اپنے ہی محافظوں کیخلاف محاذ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں مگر ہم اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ آج اگر امریکا افغانستان کی نئی پالیسی میں پاکستان کو نظر انداز کرتا ہے تو اس میں ہمارے سیاستدانوں کی منافقت نظر آتی ہے۔ امریکہ کی طرف سے افغانستان میں بھارتی کردار میں اضافے اور امریکی مطالبات سے پاکستان کیلئے خطرات کی شدت میں اضافے کا عندیہ ملتا ہے۔یوں بھارت اور افغانستان کی طرف سے پاکستان پر بڑھتے عسکری دباﺅ اور خطرات کی صورتحال میں پاکستان میں اقتصادی راہداری کے تاریخی نتائج پر مبنی اہم منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے اور اسی تناظر میں چین پاکستان کے دفاع میں ایک اہم اور موثر معاون کے طور پر نظر آتا ہے۔پاکستان کو درپیش خطرات کی شدت اور سنگینی میں اضافے کی بڑی اور بنیادی وجہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی اور ملکی حاکمیت کی کشمکش ہے۔لہٰذاہمیں اس شدت کو کم کرکے ملکی مفاد کیلئے کام کرنے اور پاک فوج کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے ورنہ امریکا، اسرائیل، بھارت اور بعض جگہوں پر افغانستان مستقبل میں ہمارے لیے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ جن سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔