عجب بات ہے کہ ایک چائے والے کی ہندو جنونیت نے بھارت کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کو یر غمال بنا رکھا ہے۔ بھارت کے پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویے کی تمام تر ذمہ داری اس چائے والے کے سر ڈالی جا رہی ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جو بظاہر شکل اور عقل دونوں سے محروم ہے اس کے حکم اور آنکھ کے اشارے پر بھارتی فوج لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر پاکستانی شہریوں کے خون سے ہولی کھیلے۔یہ ضرور بھارتی فوج کے سربراہ کی کوئی نئی چال ہو گی ورنہ نریندر مودی کی کیا حیثیت ۔یہ بھارتی فوج کے سپہ سالار نجانے کون ہیں ان کا نام بھی انٹرنیٹ سے ڈھونڈنا پڑے گا ۔خیر جو بھی ہے شاید انتہائی بدشکل اور سادہ لوح ہی ہو گا جس کو بھارتی اخبارات اور ٹی وی چینلوں والے لفٹ نہیں کراتے۔ لگتا ہے بھارتی فوج کا سربراہ اپنے وزیراعظم کو ملاقات کا وقت بھی نہیں دیتا،فوجی جوانوں کے جنازوں میںشریک نہیں ہوتا،سرحدوں پر جوانوں کو گلے نہیں لگاتا،اپنے ہلاک ہونے والے ہندو ،مسلمان اور عیسائی فوجی افسران کو خراج عقیدت پیش کرنے دریائے گنگا، قبرستانوں اور چرچ کی تقریبات میں شریک نہیں ہوتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے اپنے ہم وطنوں سے خطاب کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔اسکی اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو گی کہ اس کے اپنے بے ڈھنگے وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران کشمیر پر بھارتی مﺅقف کی تائید اور اس کے اعادے کے لئے کسی غیر ملکی کانفرنس میں خطاب کی اجازت بھی نہیں ملی۔مگر ہو سکتا ہے کہ بھارتی فوج کا سربراہ شاید اتنا بے صلاحیت نہ ہو کہ جتنا اس کے فوجی ترجمان،جومیڈیا میں اپنے باس کی سرگرمیوں کی تشہیر میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارتی میڈیا کی "کالی بھیڑیں "پاک فوج کے ساتھ ساز باز کر کے اپنے ملک کے فوجی سربراہ کی اچھی خبریں روک دیتے ہوں۔خاص کر بھارتی اخبارات کے صفحات اول پر ان کے فوجی سربراہ کی تصاویر کا نہ چھپناتو بھارتی میڈیا میں غدداران وطن کی سازش ہو سکتی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قصور بھارتی میڈیا سے زیادہ ان کی فوج کے ترجمان کا ہو جس کے اختیارات اور صلاحیت اتنی ہی ہو سکتی ہے جتنی فوج کے ایک کرنل یا بریگیڈئیر کی۔اب اتنی بڑی سرحدوں والے اتنے بڑے ملک کے اتنے بڑے میڈیا کو سنبھالنا ایک کرنل اور بریگیڈئیر کے بس کی بات تو نہیں۔بھارتی میڈیا جیسے ہاتھی کو قابو کرنے کے لئے تو ان کی پوری فوج یا انکاسربراہ بھی کافی نہیں۔کم از کم ایک کور کمانڈر کی سطح کا بھارتی جرنیل ہی اپنے قومی میڈیا کو قابو کرنے کے لئے ہونا چاہئیے ناں؟ایسے میں پاکستانی فوج کے ترجمان کی کور کمانڈر ےعنی لیفٹیننٹ جرنل کے عہدے پر ترقی کے بعد بھارتی فوجی ترجمان یقینا عدم تحفظ کا شکار ہو کر اپنے ہیڈ کوارٹر سے مزید کمک کے طلبگار ہوں گے۔آخر ایک بریگیڈ ایک کور کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے۔پاک فوج کے ترجمان دفتر کو میڈیا کور کا درجہ دینے کی خبریں بھارتی دفاعی منصوبہ سازوں کو پریشان تو ضرور کرتی ہوں گی۔مگر شاید دونوں افواج کی ذمہ داریاں یا خود ساختہ ذمہ داریاں مختلف ہیں۔اب اگر بھارتی فوج کے سربراہ اپنے ناتواں کندھوں پر ملکی سیاست ،خارجہ و دفاع پالیسی اور بد عنوان سیاست دانوں کے احتساب کا بوجھ ہی اٹھانے کی تربیت و صلاحیت نہیں رکھتے تو اس میں ان کے فوجی ترجمان کا کیا قصوراور اسی غیر اطمینان بخش صلاحیت کے باعث بھارتی سیاست دان اپنی فوج کے سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کی بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔حیرانگی کی بات نہیں کہ بھارتی حکومت اپنی فوج کو اپنے کاروباری دارالخلافہ ممبئی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے جرائم کے خلاف آزمانے کی ہمت ہی نہیں کرتی۔بہر حال یہ بھی سچ ہے کہ بھارت کو اس دہشت گردی کا سامنا نہیں جس کا سامنا پاکستان کر رہا ہے ۔اگر بھارت بھی افغانستان کا پڑوسی ہوتا (خدا نخواستہ)یا افغانستان بھارت کے پڑوس میں آجاتا(خدانخواستہ)تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔
خیر بات ہو رہی تھی ایک چائے والے کے بدلتے موڈ اور اس کی پیشانی کے بل کے ساتھ بدلتی خارجہ و دفاع پالیسی کی ۔ایک ایسا شخص جس کا ماضی گجرات کے مسلمانوں کے خون سے رنگا ہے اور جو شاید بد عنوان بھی ہو گا وہ کس منہ سے بھارت کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کا مالک بنا بیٹھا ہے۔مقدمات تو اس کے خلاف بھی عدالتوں میں ہیں ۔یہ وہ چائے والا ہے جس سے ہاتھ ملانے کے بعد مائیکرو سافٹ کمپنی کے سربراہ کو اپنے ہاتھ دھوتے ہوئے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔اس "بدتمیز" نے تو فیس بک کے سربراہ سے ملاقات کے دوران اس کا بازو پکڑ کر محض اس لئے ایک طرف دھکیل دیا کہ اسکی تصویر خراب ہو رہی تھی۔اس حوالے سے پاکستانی قوم بہت خوش قسمت ہے ۔کشمیر کے معاملے پر ہمارے وزیراعظم کی پیشانی پر کوئی بل یا اسکے اتار چڑھاﺅ کی نوبت ہی نہیں آتی۔ویسے بھی میاں محمد نواز شریف خوش شکل ،خوش خوراک اور خوش گفتارشخصیت کے حامل ہیں بلکہ کشمیر کے اس تیار سیب کی مانند ہیںجو ازخود ہی درخت سے سیدھا جھولی میں آگرتا ہے جو مہربانوں نے جال کی مانند پھیلائی ہوتی ہے۔ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس لکھی ہوئی انگریزی تقریر فر فر پڑھتے ہوئے انہوں نے انگریزوں کو ان کی اپنی انگریزی زبان میں ان کے اپنے پیدا کئے ہوئے کشمیر مسئلے کے بارے میں خوب سمجھایا۔اس جرات مندانہ تقریر کے بعد کشمیر کا مسئلہ حل ہو نہ ہو نواز شریف صاحب نے کچھ حد تک اپنے سیاسی مسائل پر ضرور قابو پا لیا ہے۔وزیراعظم کی کشمیر سے متعلق اس چار نکاتی پالیسی کا اعادہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی کر دیا ہے۔اگر لندن کی سکیورٹی کانفرنس وزیراعظم کے خطاب سے ایک دن بعد کی بجائے ایک دن پہلے ہو جاتی تو پھر یہ" اعادہ"پہلے ہوتا اور وزیراعظم کی پالیسی بعد میں آتی۔پھر بھی الزام ہے کہ وزیراعظم نے تقریر کے کچھ حصے حذف کر دئےے ۔لگتا ہے کہ وزیراعظم نے ایسا کر کے کسی حد تک اپناا ختیار جتایا ہے اور اس سے بڑا کیا ثبوت ہو گا کہ اقوام متحدہ میں خطاب کے لئے وزیراعظم نے خود تقریر کرنے کا فیصلہ کیا ۔
اب پاکستان کو یہ دیکھنا ہے کہ نریندر مودی جیسا چائے والا کتنا بااختیار ہے اور یہ کہ کشمیر سے متعلق بھارتی فوج یا ان کے سربراہ کی کیا پالیسی ہے۔یہ نہ ہو کہ نریندر مودی مذاکرات کے لئے حامی بھر لیں اور بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر چڑھ دوڑے ۔ضروری ہے کہ کشمیر سے متعلق بھارتی فوج کے سربراہ کے بیانات ،سرعام یا خفیہ ،ان پر گہری نظر رکھی جائے۔بہتر تو یہ ہو گا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں پاکستانی حکام بھارتی فوج کے سربراہ سے بھی ملاقات کریں۔امریکہ اور یورپ کے دوست ممالک سے استدعا کی جائے کہ وہ اپنے دوروں کے دوران بھارتی فوج کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کریں ۔زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب آگرہ مذاکرات کے دوران پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اور بھارت کے سویلین وزیراعظم منموہن سنگھ کے مذاکرات کو بھارت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ناکام بنایا تھا۔بظاہر یہ بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں نہ ہو کر بھی اتنی مﺅثر ہوتی ہے کہ شاید اتنی مﺅثر ہماری فوجی حکومتیں بھی نہیں ہوتیں۔کشمیر کے مسئلے کے حل کا بظاہر ایک راستہ یہ بھی ہے کہ بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ حکومت میں آکر پاکستان سے مذاکرات کرے یا نریندر مودی اور نواز شریف اپنے اپنے فوج کے سربراہان کو کشمیر کے منصفانہ اور پر امن حل کے لئے براہ راست مذاکرات کی اجازت دے دیں۔ویسے بھی دوسرے شعبوں کی طرح ہمارے سویلین و سیاسی حکام و ماہرین کشمیر پر سفارت کاری میں بھی بظاہر ناکام ہو چکے ہیںاور اب وقت ہے کہ دہشت گردی و امن و امان و عدل و انصاف کے شعبوں میں نمایاں کامیابی کے بعد سفارت کاری کی اضافی ذمہ داری بھی فوج کے حوالے کر دی جائے یا پھر دونوں ممالک کی فوج کے سابق سربراہان خاموش سفارت کاری کے لئے وقت نکالیںجس میں پاکستان کی طرف سے ہمارے کمانڈوجنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سیاسی وسفارتی صلاحیتوں اور بصیرتوںسے فائدہ اٹھایا جا ئے مگر اس کے لئے بھارتی فوج کو شاید بہت محنت اور تیاری کرنا پڑے گی جو ہمارا مسئلہ نہیں۔