افسوس کہ آج قومی سطح پر منافقت اور نمک حرامی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کرہ ارض پر جن اقوام نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ان میں سب سے پہلے خود احتسابی کا کلچر فروغ پایا۔ مغرب ہمیشہ ہی سے ترقی یافتہ نہیں تھا، کوئی امریکہ شمریکہ یا برطانیہ شرطانیہ چند صدیاں پہلے اس قدر ترقی یافتہ اور طاقتور نہیں تھے۔ جب لوگوں نے دو دن کی زندگی کو فلاح وبہبود اور بناﺅ کیلئے وقف کیا تو صدیوں نے شفاءاور ارتقاءپائی۔ خود احتسابی منافقت کی شدت اور نمک حرامی کی مقدار کو ختم کر دیتی ہے۔
سارا معاشرہ کبھی صالح نہیں ہوتا مگر صالحین کی موجودگی بہرحال ہوتی ہے۔ حقوق العباد‘ انسانی حقوق ہی شاہراہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حقوق العباد کوئی مولویانہ لفاظی ہے اور انسانی حقوق کوئی ماڈرن شے‘ ہمارا المیہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی تقریر کو سیاسی بیان اور وعدہ کرکے مکر جانے کو سیاست کہتے ہیں۔ زرداری صاحب نے ماضی میں کہہ دیا تھا کہ وعدہ کوئی ”قرآن وحدیث“ نہیں اور اس پر کہرام مچ گیا تھا۔ میاں برادران نے لوڈشیڈنگ کے نام پر حکومت چھینی‘ مینڈیٹ چھینا، کرپٹ عناصر کو گھسیٹنے کے وعدے پر شہرت پائی لیکن سب سیاست کے زمرے میں آگیا۔ تاریخ نے جب پانامہ والے معاملات میں بے نقاب کیا تو یہ سب ادائیں بھی سیاست قرار پائیں۔ وہ مسلم لیگ جو پاکستان بنانے کی دعویدار اور اس بنا پر عزت کی حقدار بھی ہے اسی مسلم لیگ کے جدید اشرافیہ مجموعی طور پر مل کر پانامہ کا دفاع کیا۔ وہ دفاع کہ جو آصف علی زرداری کو بھی پی پی پی سے میسر نہ ہوا۔ آہ! یہ بھی سیاست ہے کیا؟
آج زرداریوں اور نوازیوں کے سامنے مختلف اور متضاد سکول آف تھاٹ کے ذوالفقارعلی بھٹو اور جنرل ایوب خان وجنرل ضیاءالحق اولیاءدکھائی دیتے ہیں۔ کوشش اور دشمنی کے باوجود یہ لوگ ایک دوسرے سے کرپشن نہ نکال سکے اور المیہ یہ بھی ہے کہ آج کے سرگرم نوجوان متوالے‘ جیالے‘ نرالے اور نورے اس تاریخ سے ناآشنا ہیں۔ آج چوکیدار سے وزیراعظم تک‘ نائب قاصد سے مالکان ایوان صدر تک سبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنے استحقاق کو انجوائے کرنے کے درپے ہیں، کسی دوسرے کے استحقاق کو کوئی کچھ نہیں سمجھتا۔ کہاں کی خود احتسابی اور کیا ہے احیائے حقوق العباد؟
چلیئے نہالی استحقاق سے قبل چھوٹے چھوٹے استحقاق کی باتیں پہلے کرلیں کیونکہ اب تو عالم یہ ہے کہ جو آدمی سفارش یا رشوت کی لاج رکھتا ہے اسے لوگ بااصول یا بات کا پکا سمجھتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر ہیں‘ قوم کا کھاتے‘ ملک کا پیتے ہیں لیکن نمک حرام ہیں۔ قیادت کہلاتے ہیں‘ قائد بنتے ہیں مگر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ شاید اسے ہی منافقت بلکہ یقیناً اسے ہی منافقت کہتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ رمضان میں مسلمانوں کی کھجوریں اور پھل مہنگے داموں اور یہودیوں کے مشروبات سستے‘ اب کوئی اس پر کیا تبصرہ کرے؟ پٹواری‘ تھانیدار‘ انکم ٹیکس انسپکٹر‘ ایکسائز انسپکٹر وغیرہ اپنے استحقاق کا اندھا دھند استعمال کریں تو آفیسر، کوئی ذمہ دار جرنلسٹ کرے تو بلیک میلر۔ ایک سیکشن آفیسر بلیک میل کرے تو بابو‘ ایک بڑا صاحب کرے تو سیکرٹری ........ واہ۔ ایڑھیاں رگڑنے پر پنشن کا اجراءہو‘ وہ بھی رشوت دے کر بلے بلے۔ ایک ایم پی اے‘ ایم این اے بن جائے تو سارا ٹبر ممبر اسمبلی۔ استاد سے وائس چانسلر تک میرٹ کم‘ اور ”استحقاق“ کا استعمال کریں تو انبیاءکا پیشہ‘ واہ........ سبحان اللہ۔ جہاں انبیاءہوں وہاں عبداللہ بن ابی بھی ہوتے ہیں‘ پس خیال رہے۔
غلطی سے ہمارے ایک دوست نے لاہور کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا ذکر خیر کردیا‘ وہ بھی مکاریاں اور کلا کاریاں ہاتھ میں پکڑ کر‘ وہ وائس چانسلر اپنے دست راست کو سامنے بٹھا کر کہنے لگا ”مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے“ لیکن مالی بدعنوانی کی بات باہر کیسے گئی؟ اب اس دانشمندانہ وائس چانسلر کو کون بتائے کہ تمہارے جہیز میں لائے تعینات دوست ہی تو پکی خبر پکی جگہ تک پہنچا کر آتے ہیں۔ ہم بہت سے ایسے جرنلسٹوں کو جانتے ہیں جو کسی ایرے غیرے سے پانی بھی نہیں پیتے مگر خود نمک کھلا کر رہتے ہیں کہ سندر ہے۔
دور کیا جانا، ایک خاتون وفاقی وزیر مملکت راقم کے حوالے سے ایک ممبر قومی اسمبلی کو کہنے لگی کہ ”اس کو نقص صرف میری وزارت میں نظر آتے ہیں؟“ اس میں ناچیز کا کیا قصور عدالت عالیہ میں اس کے پسندیدہ افسر کے چرچے ہیں۔ اس کی ایک کونسل کا سیکرٹری جیسے تیسے نیب سے بچ گیا لیکن اسلام آباد کی نرسز ہی نہیں ایک بڑا ہسپتال اس کی کارستانیوں کا گواہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اب بھی پچھلی عمر میں مزلے لوٹ رہا ہے۔ اس کا ”استحقاق“ ہی ختم نہیں ہو رہا ”کعبے کس منہ سے جاﺅ گے غالب....؟“ اور ہم اف بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام اور وہ....؟
تعلیم کے وفاقی وزیر مملکت کو تعلیم کو تربیت کس نے دینی ہے‘ ہم تو محض اتنا ہی کہتے ہیں کہ جس وزیر کو کام نہ آتا ہو وہ سلمان فاروقی سا بیورو کریٹ ڈھونڈ لیں۔ سارے بیورو کریٹ بابو نہیں ہوتے کچھ کمال کے بھی ہوتے ہیں۔ موٹر وے سے ڈیف سکولوں تک‘ دنیا میں ابتدا ہی میں ڈیجیٹل فوننگ کو پاکستان میں روشناس کرانے اور بطور وفاقی محتسب ایک بھی فائل پینڈنگ نہ چھوڑنے کے سسٹم کو متعارف کرانے والے سلمان فاروقی سے کاش زرداری کا ایوان صدر کوئی استفادہ کر لیتا تو کہانی ہی کچھ اور ہوتی۔ استعمال استحقاق ہو تو سلمان فاروقی جیسا! اب کوئی نہال ہاشمی اپنی چرب زبانی اور شعلہ بیانی سے سینیٹر ہوتے ہوئے بھی استحقاق کاروکاری سے نونہال ہاشمی بننے کے در پے ہو اور بعدازاں پرویزرشید کا سا ”ثواب دارین“ حاصل کرے تو کوئی کیا کہے۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ کوئی طلحہ محمود جیسے فن سے آشنا نہ ہو تو سینیٹر سیاسی سنجیدگی کا آخری زینہ ہے۔ ”نہالی استحقاق“ پر بھی ایک نظر کہ ”پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لئے زمین تنگ کر دی جائے گی“ پھر یہ بھی فرمایا کہ: ”حساب لینے والے کل ریٹائر ہو جائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنا دیں گے“ ممکن ہے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری بھی کسی استحقاقی زمرے میں آتی ہو لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے میں اپنے شاہ کا نقصان ہی ہوتا ہے۔ تمیہں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘ بھٹو صاحب کو بھی لوگ ایسے ہی پمپ کر گئے اور قوم کا ایک ہیرا منتخب وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی تخت سے تختے تک پہنچ گیا۔ پھر نہ کوئی جتوئی ملا اور نہ کوئی کھر۔
ہمیں تو یہ بھی یاد ہے کہ لوگوں نے کہا ”قدم بڑھاﺅ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں“ لیکن جب جنرل مشرف نے شب خون مارا تو کئی نواز لورز نے (ق)لیگ کی جانب قدم بڑھا لیا۔ مڑ کے دیکھا تو پانچ پیاروں میں سے رانا نذیر‘ شیخ رشید‘ چودھری شجاعت اور دیگر میں سے کئی نے قائد ہی بدل لیا نہ کوئی اختر رسول رہا‘ نہ میاں اظہر اور نہ کوئی ہمایوں اختر‘ لہٰذا بہتر یہی ہوتا ہے جن سے پیار ہو ان کیلئے خیر مانگیں شر نہیں۔ محبت‘ بول‘ بلف اور شوخی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
اگر کل کسی نے عدلیہ بحالی کا نعرہ لگایا تھا تو دراصل اپنی بحالی اور ”گو زرداری گو“ کیلئے تاریخ کبھی سابق جسٹس افتخارچودھری کی بحالی اور بعداز بحالی معاملات پر بھی روشنی ڈالے گی لیکن وہ پرسوں جو جسٹس سجادعلی شاہ کے ساتھ بھی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے تناظر میں ہوا تو تاریخ میں قلم بند ہے۔
استحقاق سبھی ادارے رکھتے ہیں‘ پارلیمنٹ بھی اور منتخب وزیراعظم بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر استحقاق اگلے کے استحقاق کا بھی خیال رکھے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ توازن ضروری ہے‘ جن اقوام میں توازن کا بگاڑ رہا وہ کبھی ترقی یافتہ نہیں بنیں۔ ہمارے نزدیک تو میاں نوازشریف بھی ایک قومی ہیرا اور ہیرو ہیں، سو ہم ان کے دوستوں سے کہیں گے کہ ان کے لئے ازراہ کرم آپ تو مشکلات پیدا نہ کریں۔ جو انہوں نے خود پیدا کی ہوئی ہیں ابھی وہی کافی ہیں۔ آج قومی سطح پر صداقت اور نمک حلالی کے چولی دامن کا ساتھ درکار ہے۔ ایک استحقاق ”نیا پاکستان“ بنانے والوں کا بھی عجیب ہے۔ سب کو کرپٹ کہتے ہیں لیکن ہر کرپٹ کو اپنے دامن میں جگہ دینے کے استحقاق پر شاداں ہیں۔ قریشی وصمصام سے فردوس اعوان و بابر اعوان تک پی پی میں کیا گل کھلاتے رہے۔
کوئی الرجی نہیں مگر پی پی سے الرجی کی انتہا ہے‘ پھر ہر وقت اقوال زریں مگر عدالت ذرا پکڑ لے تو یہی اقوال زریں ”سیاسی بیان“ بن جاتے ہیں۔ ارے بھائی! گلشن میں علاج تنگئی داماں بھی ہے۔ مانا کہ استحقاق اپنا اپنا لیکن وزیراعظم سے وزراءتک اور ججوں سے جرنیلوں تک بمعہ سب کو آئین‘ ریاست اور معصوم عوام کے استحقاق کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔۔۔۔ پلیز!!!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38