مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے بھارتی سرکار پر ایک بار پھر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” کشمیر میں حالات کی خرابی کا ذمہ دار پاکستان کو کسی بھی صورت نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ کشمیر میں بدامنی پاکستان نے نہیں پیدا کی ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر میں حالات کی خرابی سے متعلق پاکستان پر الزام لگا کر غلط تاثر دیا جاتا ہے، بھارتی سرکار ہمیشہ اپنے آپ کو بچاتی ہے اور الزام پاکستان پر ڈالنا ان کے لیے آسان حربہ ہے۔“
موصوف نے کہا کہ اہم نے بارہا بھارتی حکومت کو سمجھایا ہے کہ کشمیر میں بد امنی پاکستان نے پیدا نہیں کی، یہ ہمارے اپنے فیصلوں کا نتیجہ ہے، حالات کی بہتری کے لیے بھارتی سرکار کشمیریوں سے کئے اپنے وعدے پورے کرے“ ۔
یاد رہے کہ اس سے محض چند روز پہلے مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور عمر عبداللہ کے والد ” فاروق عبداللہ “ نے بھی انتہائی سخت لہجے میں مودی سرکار کے لتے لیتے ہوئے وہ لب و لہجہ استعمال کیا تھا جو یقینا ناقابلِ اشاعت ہے ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم و زیادتی کا بازار گرم کر رکھا ہے اس سے کون آگاہ نہیں ۔ درندگی کی انتہا یہ کہ پیلٹ گنوں کے استعمال سے سینکڑوں نہتے کشمیر سے ان کی بینائی مکمل طور پر چھین لی گئی ہے ۔ وحشت و بر بریت کے ان واقعات کو محض انسانی حقوق کی پا مالی قرار دینا بھی بہت چھوٹی بات ہے کہ ایسی صورتحال کے اظہار کے لئے لفظ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔
تازہ ترین رپورٹس کے مطابق صرف نومبر کے مہینے میں پچیس نہتے کشمیریوں کو شہید کیا گیا جبکہ 352 افراد شدید زخمیوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔ ماہِ نومبر کے دوران 202 عام شہری گرفتار کیے گئے جبکہ پندرہ خواتین سے اجتماعی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے ۔
دوسری طرف یہ بات بھی غالباً انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہونی چاہیے کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس تمام عرصے کے دوران 10921 کشمیری ایسے لا پتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں جو بظاہر ہندوستان کی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں یقینا شہید کیے جا چکے ہیں مگر چونکہ ایسے تمام افراد کی شہادت کی تصدیق نہیں ہو سکی لہذا ان کے لواحقین عجیب سی صورتحال میں مبتلا ہیں کیونکہ ایسی شادی شدہ خواتین کو نہ تو بیواﺅں میں شمار کیا جا سکا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے زمرے میں ۔ معاشرتی اور سماجی حوالے سے یہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہے جس کا شائد تصور بھی کسی ذی نفس کے سواہانِ ہو ہے مگر اسے عالمی ضمیر کی بے حسی کہا جائے یا انسان دوست ہونے کے دعویدار حلقوں کا تجاہلِ عارفانہ کہ اس معاملے کی سنگینی کا خاطر خواہ انداز سے اظہار تک نہیں کیا جا رہا ۔
غیر جانبدار میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوری 1989 سے نومبر 2016 تک 94,589 کشمیریوں کو شہید کیا گیا ۔ 7074 افراد کو حراست کے دوران شہید کیا گیا جبکہ 139,219 معصوم شہریوں کو گرفتار کیا گیا ۔ اس کے علاوہ 107,702 مکانوں اور رہائشگاہوں کو مسمار یا نذرِ آتش کیا گیا ۔ بھارتی بربریت کے نتیجے میں 22,828 خواتین کو بیوگی کے لق و دق صحرا میں دھکیل دیا گیا جبکہ 107,594 بچوں کے سر سے ان کے والدین کا سایہ ہمیشہ کے لئے چھن گیا ۔ اس کے علاوہ 10,808 خواتین کے ساتھ اجتماعی بے حرمتی کے مکروہ واقعات پیش آئے ۔
اس ضمن میں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ یہ مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائی محتاط اندازوں پر مبنی ہیں وگرنہ تو اکثر ذرائع اس سے کئی گنا زیادہ نقصانات کا اظہار کرتے آئے ہیں ۔ دوسری جانب ہندوستان بھر کے مسلمان 6 دسمبر کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ 24 برس قبل یعنی 6 دسمبر 1992 کو جنونی ہندوﺅں نے بابری مسجد کو شہید کر کے بھارتی مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچائی تھی اس کا مداوا آج تک نہیں ہو سکا بلکہ انتہا پسند ہندو گروہ کھلے عام اپنے اس غیر انسانی جرم کو بطور کارنامہ بیان کرتے ہیں اور سنگھ پریوار میں شامل BJP سمیت ساری جماعتیں اس دن کو ” گرو دیوس“ یعنی یومِ فخر کے طور پر مناتی ہیں ۔
اس امر سے سبھی آگاہ ہیں کہ یہ گروہ ان مذموم عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ جلد ہی متھرا میں واقع عید گاہ مسجد اور بنارس کی عالم گیری مسجد کو بھی شہید کر دیں گے اور ان کی جگہوں پر بالترتیب کرشن مندر اور شیو مندر بنایا جائے گا ۔ علاوہ ازیں پورے ہندوستان میں 3 ہزار دیگر مسجدوں اور درگاہوں کی فہرست جاری کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جلد یا بدیر ان تمام عبادت گاہوں کو مسمار کر دیا جائے گا ۔
بابری کی شہادت کے 24 سال مکمل ہونے پر غیر جانبدار حلقوں نے اس معاملے کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ اتر پردیش کے ضلع فیض آباد کے قصبے ایودھیا میں واقع 4 سو سالہ بابری کی مسجد کو جس طور شہید کیا گیا اس سے بھارتی سیکولر ازم کے دعووں کی قلعی پوری طرح کھل چکی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی برادری کے اکثر حلقے اپنی وقتی مصلحتوں کے پیش نظر اس انسانی المیے کا خاطر خواہ ڈھنگ سے اعتراف نہیں کر رہے جس کی وجہ سے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے جذبات اتنا فروغ پا چکے ہیں کہ 30 ماہ پہلے BJP جیسی انتہا پسند جماعت بھاری اکثریت سے چوتھی بار حکومت بنانے میں کامیاب ہو ئی ۔
مبصرین کے مطابق بابری مسجد کی شہادت میں BJP اور سنگھ پریوار کا جو کردار رہا ہے اس سے تو ایک عالم آگاہ ہے مگر یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ کانگرس سمیت کم و بیش سبھی بھارتی جماعتیں اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر اس جرم میں ملوث ہیں کیونکہ جب یہ جرم سر زد ہوا تو بھارت میں کانگرس کی حکومت تھی اوراس وقت کے وزیر اعظم نرسیما راﺅ چاہتے تو اس المیے کو وقوع پذیر ہونے سے رکوا سکتے تھے اور اگر ذرا سا بھی خلوص نیت ہوتا تو اس گھناﺅنے جرم میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکتا تھا کیونکہ 1996 تک بھارت میں کانگرس کی حکومت قائم رہی تھی۔ پھر مئی 2004 سے 10 سال تک کانگرس اور سونیا گاندھی کی حکومت رہی مگر اس معاملے کے کسی ملزم کو ایک گھنٹے کی بھی سزا نہ سنائی جا سکی اور اب گذشتہ ڈھائی سال سے تو گویا مودی جیسی انتہا پسند شخصیت ہی بھارت کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہے ۔ ایسے میں کوئی بہتری کی امید کرے بھی تو کیسے ۔بہرحال ایسے جرم کا ارتکاب اگر دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو یقینا متعلقہ سوسائٹی کے سبھی بالا دست طبقات مارے ندامت کے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے مگر د نیا کی سب سے بڑی ”جمہوریت“ کے تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں ۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024