اداروں کو جی ہاں ریاستی اداروں کو باہم ٹکرانے اور الجھانے کا گھناو¿نا کھیل شروع کردیا گیا ہے اس میں چوٹی کے وفاقی وزرا اور ایک میڈیا گروپ پیش پیش ہیں۔ آزادی کے نام پر احتساب عدالت کو یرغمال بنانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ فوج اصل ہدف ہے کہ من مانی کی راہ میں واحد رکاوٹ کو آئینی بالادستی کے بم سے اڑانے کیلئے ماہر نشانچی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ احتساب عدالت میں داخلے پر پابندی کو جاسوسی ناول کی سنسنی خیز کہانی بنا دیا گیا ہے۔ ریاست کے اندر ریاست عملداری کا ماتمی جلوس برآمد کرنے سے قبل عدالتی حکم پڑھنے سے سچ سامنے آجاتا۔Greater South Asia منصوبے، پر امن اور پیار کی آشا کے ذریعے عمل درآمد کے ذمہ دار جنگ جو میڈیا گروپ نے کچھ یوں منظر کشی کی جیسے رینجرز نے ساری عدالت کو یرغمال بنا لیا ہو "سابق وزیراعظم نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر رینجرز نے محاصرہ کرکے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، دیگر وفاقی وزرا، وکلا، صحافیوں اور مسلم لیگی رہنماﺅں کو احتساب عدالت کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا جبکہ رینجرز کمانڈر روپوش ہوگئے" جبکہ اب عدالتی حکم ملاحظہ فرمائیں۔ ”آرڈر شیٹ“ ہے ”عدالت کے اطراف پرامن ماحول رہا۔ نشاندہی کی گئی کہ سکیورٹی مقاصدکے لئے رینجرز کو تعینات کیا گیا تھا۔ رینجرز کی تعیناتی حکومت کا نہایت لائق تحسین اقدام ہے۔ تاہم دیگر امور' وکلا، صحافیوں کے داخلے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ رجسٹرار عدالت کو اس ضمن میں اجلاس بلانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔“ احتساب عدالت کی قبل ازیں اخبارات میں شائع شدہ ہدایات کے مطابق معزز جج صاحب نے دو اکتوبر کو نوازشریف کی پیشی کے موقع پرعدالت میں وفاقی وزرا کے داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔ اس عدالتی حکم کو ضلعی انتظامیہ نے وزرا تک پہنچایا۔ فاضل جج کی ہدایات کی روشنی میں رینجرز اور ایف سی کی مدد لینے کا مقصد عدالت کے اطراف لوگوں کو مجمع بازی سے روکنا تھا۔ یاد دہانی کرانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ ماہ پیشی کے موقع پر ’رنگ بازی‘ کے پیش نظر یہ اقدام اٹھانا پڑا۔ ایس ایس پی (آپریشنز) کے یکم اکتوبر 2017ءکے خط میں واضح طور پر پولیس کی معاونت کیلئے رینجرز طلبی کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ وضاحت بھی اس خط میں شامل تھی کہ رینجرز اہلکار براہ راست عوام کے ساتھ ’ڈیل‘ نہیں کرینگے۔ اس خط کی نقول آئی جی اسلام آباد، جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ، کمانڈر پنجاب رینجرز سمیت پانچ متعلقہ حکام کو ارسال کی گئی۔یکم اکتوبر2017کو ایس ایس پی (آپریشنز) کے تحریر کردہ خط پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے ترجمان نے یوں وضاحت کی کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ایس ایس پی (آپریشنز) کاخط موصول ہونے کے بعد ڈی سی نے ایس ایس پی (آپریشنز) سے اس معاملہ پر بات چیت کی۔ دونوں میں گفتگوکے بعد اس خط سے متعلق مزید کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ڈپٹی کمشنر نے نیب عدالت میں رینجرز کی تعیناتی کی طلبی کے لئے کوئی احکامات جاری نہیں کئے تھے۔ پولیس اور ضلعی انتطامیہ کا موقف ہے کہ عاشورہ کی وجہ سے پہلے ہی ہائی الرٹ تھا اس لئے رینجرز کی ضرورت نہیں تھی۔ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس(اے ایس پی) کی قیادت میں پندرہ سوپولیس اہلکار عدالتی سماعت کے موقع پر تعینات کئے گئے۔ وزیرداخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ وزیرداخلہ کی حیثیت سے اس صورتحال کا نوٹس لئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ رینجرز کو جب تعینات کیا جاتا ہے تو وہ ضلعی انتظامیہ کے ماتحت ہوتی ہے۔ چیف کمشنر کی ہدایات کے تابع امور انجام دینے کی پابند ہوتی ہیں۔ اگر چیف کمشنر کی حکم عدولی ہوئی ہے تو اعلٰی ترین سطح پر نہ صرف اس کی انکوائری ہوگی بلکہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ حکومت کی رٹ کو کس نے چیلنج کیا ہے۔ میں ان معلومات پرصورتحال کا جائزہ لینے خود پہنچا۔ پندرہ منٹ تک رینجرز کے مقامی کمانڈر کو بلایاگیا تو وہ روپوش ہوگیا چھپ گیا اور سامنے نہیں آیا۔ جس کسی نے ایسا کام کیا ہے اس کے خلاف قواعد کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اگر یہ اصول ثابت نہیں ہوگا کہ رٹ آف دی سٹیٹ کیا ہے اور سول ایڈمنسٹریشن کی رٹ کیا ہے‘ میں بطور وزیرداخلہ استعفیٰ دے دوں گا۔ کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بنوں گا۔ وزیرداخلہ میں ہوں اور میرے ماتحت فورس کہیں اور سے حکم لے کر کاروائی کیونکر کرے۔ یہاں پر ایک قانون ہوگا۔ ایک حکومت ہوگی۔ ایک ریاست کے اندر دو ریاستیں نہیں چل سکتیں۔ راجہ ظفرالحق سپریم کورٹ کے سینئر وکیل بھی ہیں۔ وہ صبح آٹھ بجے مرکزی دروازے سے داخل ہونے میں تو کامیاب ہوگئے تاہم انہیں احتساب عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور احاطہ عدالت سے واپس بھیج دیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، طارق فضل چوہدری اور ملک ابرار باہر انتظار کرتے رہے۔ احتساب عدالت کے رجسٹرار اور ضلعی انتطامیہ نے طریقہ کار طے کیاتھا جس کے تحت صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ رینجرز نے رپورٹرز کو پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے لئے داخلے کی اجازت نہ دی۔ سابق وزیر اعظم کے گارڈز کو بھی بیرونی دروازے پر روک دیاگیا اور صرف نوازشریف کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ نوازشریف کی گاڑی میں سوار ڈاکٹر آصف کرمانی کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ فوج کو بدنام کرنے اور خود کو سیاسی مظلوم ثابت کرنے کےلئے رچایاگیا ڈرامہ فلاپ ہوگیا۔ اصل بات یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 245 پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ پروفیسراحسن اقبال کو روکنے اور رینجرزکے اختیارات کے بارے میں معروف کالم نگار اور قانون دان جناب آصف محمود نے تصویرکا دوسرارخ کچھ یوں دکھایا ہے کہ 9 ستمبر 2017کو اسی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوجی دستوں رینجرز وغیرہ کے اسلام آباد میں قیام میں تین ماہ کی توسیع کی۔ اب پوچھ رہے ہیں، رینجرز کہاں سے آگئے۔ جب آرٹیکل 245 کونافذ کردیا جاتا ہے اس کے بعد رینجرز کے ہرجگہ جانے سے پہلے وزیرداخلہ سے اجازت لینے کی پابند نہیں ہوتی۔ ان کے مقامی کمانڈر کو بھی اختیار ہوتا ہے جہاں مناسب سمجھیں پہنچ جائیں اور اس کیس میں تو نیب عدالت کا باقاعدہ حکم موجود تھا کہ آئندہ سماعت پر کوئی وزیر عدالت میں نہ آئے۔ عدالت کی حفاظت کے لیے رینجرز اورایف سی بھی مددمانگ لی گئی تھی اوریہ خبر یکم اکتوبر کے اخبارات میں شائع ہوچکی ہے۔ آرٹیکل 245 کے تحت جس علاقے میں فوج بلالی جائے تو اس کے اختیارات کایہ عالم ہے کہ اس کی سب کلاز 2 کے تحت وہاں ہائی کورٹ کی آرٹیکل 199 کلاز کا دائرہ کار تک ختم ہوجاتا ہے۔ یہ رو رہے ہیں کہ رینجرز وہاں عدالت کے باہر کیوں آگئے، کیسے آگئے، عدالت میں گذشتہ سماعت پر کیا ہوا تھا؟ نواز شریف کے گارڈز نے صحافی پر تشدد کیا، گاڑی کی ٹکر سے ایک زخمی بھی ہوا۔ ایسے میں اگر اس سماعت پر رینجرز آگئے تو کون سی قیامت آگئی؟ ویسے بھی وزیرداخلہ کوچاہئے وہ کرنے والے کام کریںاور بہت سے کام ان کی توجہ چاہتے ہیں۔ خواہ مخواہ شہید جمہوریت بننے کی کوشش نہ کریں۔ اداروں کے درمیان تصادم کرنا اصل ایجنڈا بن چکا ہے۔ ذاتی وفاداروں کو پاکستان کے وفاداروں سے ٹکرایاجائے اور دولت کے انبار بچ جائیں۔ ’کیوں نکالا‘ کے سیاسی دیوان میں ’مجھے کیوں روکا‘ نیا اضافہ ہے۔ ’شریف اسلام آباد‘ بننے کی خواہش میں نوازشریف سیاسی سپاہ کو میدان میں اتارچکے ہیں۔ تلخ نوائی اب حکومت کی عملداری کے نعروں میں ڈھل چکی ہے۔ فوج کے خلاف بغض ضبط کے بندھن توڑ چکا۔ عدالت میں ’میلہ یاراں‘ سجانے کی اجازت نہ ملنے پر کہرام بپا کیا جا رہا ہے۔ حرف آخر ایک لطیفہ کچھ یوں ہے کہ مجرم اپنے کرتوت بدلنے کو تیار نہیں لیکن قانون بدل رہا ہے واہ رے پیارے پاکستان تیرا قانون دان بانی اپنی مرقد میں اس صورتحال پر کیا سوچتا ہو گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024