1۔ شیکسپیئر کے ڈرامے میکبتھ میں یہ الفاظ وہ بدیاطنی، ریاکار، خوں آشام جادوگرنیاں دہراتی ہیں جن کا مطع نظر شرارت، فساد، خونریزی اور تباہی و بربادی ہوتا ہے۔ یہ دو معنی باتیں کرتی ہیں، جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہناتی ہیں۔ ضمیر نام کا کوئی لفظ ان کی لغت میں نہیں ہوتا۔
2۔ گو یہ محض ایک کہانی ہے لیکن اس میں کئی تلخ حقائق بیان کئے گئے ہیں۔ کیسے عالمی قوتیں اپنے مفاد کیلئے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اخلاقیات تکریم انسانیت اور اپنے مسلک کا احترام کرنیوالے ملک امتحان کی گھڑی سے گزرتے وقت مکر و فریب سے کام لیتے ہیں۔ دوغلا پن کوحکمت عملی گردانتے ہیں۔ میکاولی اور چانکیہ کے پیروکار دراصل اب Genuine Respector of Torth نہیں رہے۔
3۔ اسکی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہندوستان کا نریندر مودی وزیراعظم بننے سے پہلے گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ اسکے دور حکومت میں ہندوﺅں نے کئی بار خون مسلم سے ہولی کھیلی۔ ہزاروں بے گناہ مرد، بچے، بوڑھے شہید کر دیئے گئے۔ عورتیں سربازار رسوا ہوئیں۔ اس نے قانون شکن ہندو بلوائیوں کےخلاف ایکشن تو کیا لینا تھا، یہ اس رقص ابلیس کا محرک تھا۔ اس کی انگیخت پر اتنا بڑا انسانی المیہ وقوع پذیر ہوا۔ وقتی طور پر عالمی ضمیر جاگا اور مغرب میں اسکے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔
امریکہ، برطانیہ وغیرہ نے اسے بنیاد پرست ”بلڈ تھرسٹی“ شخص گردانتے ہوئے ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ کسی ملک کو اس بدیاطنی شخص سے داغا پرخاش نہ تھی۔ مقصد محض اس قسم کے طرز عمل کی حوصلہ شکنی تھا اس وقت بھی یہ شخص ایک بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ تھا۔ عوام نے اسے ووٹوں سے چنا تھا جو بات نوٹ کرنیوالی ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم کے اختیارات میں فرق محض Degrees کا ہوتا ہ، Kind کا نہیں ہوتا۔
4۔ مودی کا وزیراعظم بننا تھا کہ ان اخلاقیات کے علمبرداروں کی سوچ کے قافلے مفاداتی راہوں پر چل نکلے۔ کل کے نہرو میں انہیں آج کا ہیرو نظر آیا۔ استعماراتی دور میں یہ ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھتے تھے۔ وہ چڑیا پھر سے اپنے سنہری پر پھڑپھڑانے لگی۔ اتنا بڑا ملک اتنی بڑی مارکیٹ! ضمیر کی خلش کو انہوں نے بنک کے لاکر میں بند کر دیا۔ کیا ہوا جو اس کا وزیراعظم انسانی خون کا پیاسا ہے۔ کیا ہوا جو اس کا ماضی داغدار ہے۔ کیا ہوا جو وہ بدکردار ہے۔ اگر سوا ارب لوگوں کو اس کا خیال نہیں تو ہمیں بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرنا ہو گا۔ اسکے ناز نخرے برداشت کرنا ہونگے۔ اسکی ناجوازیوں سے صرف نظر کرنا ہو گا۔ حق اور سچ وہ نہیں ہوتا جو ہے بلکہ اسے مفاد کی عینک سے دیکھنا، جانچنا اور پرکھنا چاہئیے۔
5۔ حالیہ ہندو پاک چپقلش کو اس تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ کشمیر بلاشبہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ یہ مسلم ریاست تھی اور اب بھی اس میں مسلمان بستے ہیں۔ اسکے حصول کیلئے پاکستان اور ہندوستان میں تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ چوتھی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ کشمیریوں نے آزادی کے حصول کیلئے جو جدوجہد شروع کر رکھی ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔ ہزاروں لوگ آزادی کی راہ میں شہید ہو چکے ہیں۔ عورتیں رسوا ہو رہی ہیں۔ آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہندوستانی فوج نے بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کھیت کھلیان، بستیاں اور مکان، مساجد اور مزارات، کوئی بھی اپنی اصل حالت میں نہیں ہے۔ صرف گزشتہ دو ماہ میں دو سو سے زیادہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں ”پیلٹ گنوں“ کی وجہ سے بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکہ اور برطانیہ جو کبھی مودی کو مطعون کرتے نہ تھکتی تھیں، اب مہر بلب ہیں۔ مذمت کی کوئی قرار داد منظور نہیں ہو پائی۔ یہ کیسی UNO ہے جسے اپنی قرار دادوں کا پاس نہیں۔
6۔ اس وقت کشمیری عوام حالت جنگ میں ہیں، نہتے لوگ آگ اورخون کے دریا میں کور گئے ہیں۔ اوڑی حملہ بھی اس کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ مارے کون لوگ گئے ہیں؟ وہ جو کشمیریوں کے قاتل ہیں۔ یہ کیسا عالمی ضمیر ہے جو ہزاروں بے گناہ لوگوں کے ناحق قتل پر تو چپ سادھ لیتا ہے لیکن قاتلوں کی موت پر ہا ہا کار مچ جاتی ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
7۔ اس واقعہ کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آٹھ لاکھ کی مسلح فوج، تین سکیورٹی گارڈز، ہمہ وقت چاک و چوبند رہنے والے سپاہی جس دلیری، مہارت اور منصوبہ بندی سے مٹھی بھر لوگوں نے اپنی جان پر کھیل کر حملہ کیا ہے اس سے ہندوستانی فوج کی طاقت اور پلاننگ کی قلعی کھل گئی ہے۔ پاکستان پر الزام دھرنے سے تو کہیں بہتر تھا کہ آرمی چیف اپنی ناکامی پر استعفے دے دیتا۔ مودی اقتدار کسی دوسرے رفیق کو سونپ دیتا!
8۔ کیا اس واقعہ پر پاکستان اور ہندوستان میں جنگ چھڑ سکتی ہے؟ بظاہر ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔ دونوں جوہری قوتیں ہیں۔ جیسا کہ پاکستانی ڈیفنس منسٹر نے کہا ہے۔ ہتھیار کھلونے نہیں ہوتے۔ بوقت ضرورت استعمال کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ امریکہ اور روس کے پاس ہزاروں ایٹم بم ہیں۔ انہیں عملاً ویت نام، افغانستان میں شکست ہوئی لیکن لڑائی روایتی ہتھیاروں سے لڑی گئی۔ اس کی وجہ....؟
صاف ظاہر ہے! کوئی ان ممالک پر حملہ کر کے تو دیکھے! پھر دیکھئیے۔ آسمان کیسے شعلے اگلتا ہے زمین کا سینہ کیسے چاک ہوتا ہے۔ چھوٹے ملک ان کی شکار گائیں ہیں۔ یہ روایتی اسلحوں کو آزماتے رہتے ہیں۔ جب ضرورت پڑی تو امریکہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرانے سے نہیں چونکا چونکہ امریکہ کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لئے اس کے اپنے عوام ان جنگوں کے مخالف ہو گئے.... کسی بھی جنگ کا بنیادی مقصد اسے جیتنا ہوتا ہے۔ مخالف فریق کو شکست دینا۔ ایسی جنگ کا کیا فائدہ جو جیتی نہ جا سکے۔
ہندوستان Mutually Assured Destrution MAD کا مفہوم سمجھتا ہے اس کے مضمرات سے بھی آگاہ ہے۔ دنیا میں سوا ارب مسلمان ہیں۔ فریقین کی مکمل تباہی کی صورت میں بھی مسجدوں کے میناروں سے آواز آذان گونجتی رہے گی صرف ہندوﺅں میں ناقوس بجنا بند ہو جائیں گے۔ جب مندر ہی خس و حاشاک میں بدل جائیں گے تو گھنٹیوں کی صدا کہاں سے آئے گی؟ لہٰذا جنگ خارج از امکان ہے۔
9۔ پاکستان کا پانی روکنا بھی ناممکن ہو گا۔ سندھ طاس منصوبہ میں ان دو ممالک کے علاوہ تیسرا فریق بھی ہے ورلڈ بنک یا ویسے بھی پانی روکنے کا مطلب اعلان جنگ ہو گا۔ لین ایک حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان ہمارے دریاﺅں پر جو ڈیم بنا رہا ہے اس سے پانی کی روانی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑا دشمن باہر نہیں ہماری صفوں میں گھسا ہوا ہے۔ دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم اور دیگر بندوں کی اہمیت اجاگر ہو گئی ہے۔
ایک پرانی کہاوت ہے۔ زہر کیوں دیں اسے جو مرے شیر کے ساتھ۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ”را“ پاکستان کو زک پہنچانے کیلئے روپیہ پانی کی طرح خرچ کر رہی ہے۔ اپنے ایجنٹوں، گماشتوں اور حاشیہ برداروں کے ذریعے کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیتی۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر میں بھی روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ قوم اپنی صفوں میں چھپی ہوئی ان کالی بھیڑوں کو پہچانے۔ سرحد کا خانوادہ ہو یا سندھی وڈیرا یہ لوگ سندھ اور خیبرپختون خواہ کے عوام کے بھی دشمن ہیں۔ یہ عصر حاضر کے میر جعفر و میر صادق ہیں۔ ملک فروختند چہ ارزاں فروختند، چند ٹکوں کے عوض انہوں نے ملکی سالمیت داﺅ پر لگا دی ہے۔ مودی از خود تو کچھ نہیں کر پائے گا۔ اس کے گماشتوں پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے!