پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی کمی نہیں ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آج ایک بھی سیاسی جماعت قومی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ سیاسی جماعتیں صوبوں اور علاقوں تک محدود ہو چکی ہیں۔ درجنوں بلکہ سینکڑوں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے باوجود آج بھی عوام کی اکثریت سیاست سے باہر ہے جسے ”خاموش اکثریت“ کہا جاتا ہے۔ سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ روایتی سیاسی جماعتیں نظریاتی، محب الوطن اور عوام دوست افراد کو اپنے اندر سمونے سے قاصر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں چوں کہ اقتدار کی سیاست کرتی ہیں جس کیلئے انہیں اُصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے اس لیے نیک نام اور باکردار افراد ان جماعتوں میں اطمینان قلب محسوس نہیں کرتے۔ معراج محمد خان اور حنیف رامے نظریاتی سیاستدان تھے انہوں نے پی پی پی سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی جماعتیں تشکیل دیں مگر بڑی جماعتوں کے مقابلے میں ان کا چراغ نہ جل سکا۔ ائیر مارشل اصغر خان کی نیک نامی اور دیانتداری کے سب معترف ہیں مگر وہ اہلیت اور صلاحیت کے باوجود پاکستانی سیاست میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ درجنوں مسلم لیگی افراد نے اپنی جماعتیں کھڑی کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ آج بھی درجنوں محب الوطن افراد مختلف ناموں سے سیاسی جماعتیں چلا رہے ہیں مگر ابھی تک کوئی نئی سیاسی جماعت ابھر کر سامنے نہیں آسکی۔عوام کے ذہنوں میں یہ سوچ راسخ ہوچکی ہے کہ سیاست شریف آدمی کا کام نہیں ہے حالانکہ بانی پاکستان قائداعظم نے کہا تھا ”سیاست معزز لوگوں کا کام ہے“۔ قائداعظم خود انتہائی محترم شخصیت تھے وہ آج بھی ہمارے رول ماڈل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا پوری دنیا کے دانشور اور سیاسی رہنما انکی ذہانت اور اہلیت کے قائل تھے۔ قائداعظم اور قائد عوام دونوں کامیاب رہنما ثابت ہوئے۔ ایک نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ وطن لےکر دیا جبکہ دوسرے نے نئی سیاسی پارٹی تشکیل دی اور کامیابی حاصل کی۔
پاکستان کے موجودہ سیاستدان روز بروز عوام میں ایکسپوز ہورہے ہیں۔ ان پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا جارہا ہے۔ عمران خان اپنا وقار اور ساکھ بحال رکھنے کی کوشش کررہے ہیں مگر تحریک انصاف میں پرانے اور نئے ارکان کی اندرونی کشمکش تیز ہوتی جارہی ہے۔ تحریک انصاف میں پرانے سیاسی چہروں کو عوام نے ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔ ان حالات میں ایک ایسی جماعت کی گنجائش موجود ہے جو پاکستان سے محبت کرنے اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے پڑھے لکھے صاف ستھرے بے لوث افراد پر مشتمل ہو اور پاکستان کی خاموش اکثریت کو متوجہ کرسکے البتہ مایوسی، بددلی اور بے حسی کی فضا میں نئی سیاسی جماعت کا قیام بہت بڑا چیلنج ہے۔ہوٹل انڈسٹری سے منسلک انگلینڈ سے چارٹرڈ اکاﺅٹنٹ کی ڈگری کے حامل معروف سماجی شخصیت ہارون خواجہ نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے اور پاکستان فریڈم موومینٹ کے نام سے نئی سیاسی جماعت تشکیل دی ہے۔ ہارون خواجہ طویل عرصہ ریاست اور گورنینس کے ماہر کی حیثیت سے اعزازی طور پر وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ میں شہباز شریف کے سیکریٹریٹ میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ عمران خان کی معاونت بھی کی ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے محب الوطن ماہرین کے تعاون اور اشتراک سے اٹھارہ سالہ ریسرچ کے بعد ”پاکستانی پلان“ تیار کیا ہے جو پاکستان کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور چار سال کی مدت میں اس ”پلان“ پر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے پاس قومی مسائل کا ٹھوس حل موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے پاکستانی سیاست قومی ایشوز کی بجائے نان ایشوز کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ ہارون خواجہ نے گزشتہ ہفتے لاہور کے صحافیوں اور دانشوروں کے اعزاز میں ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جماعت کے پروگرام کے بارے میں بریف کیا۔ہارون خواجہ اور انکے رفقاءنے اپنے ذاتی سرمایے سے پنجاب اور سندھ میں دو سو گھرانوں پر مشتمل ماڈل گاﺅں تعمیر کیے ہیں۔ چھونپڑیوں میں رہنے والوں کو سستے مکان تعمیر کرکے دئیے ہیں۔ ماڈل گاﺅں میں تعلیم، محنت، سیورج، صاف پانی، بجلی اور سکیورٹی کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ لاہور کے ملحقہ علاقے میں صحت کا موبائیل یونٹ (چلتا پھرتا منی ہسپتال) مریضوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کررہا ہے گویا ہارون خواجہ پہلے لیڈر ہیں جنہوں نے سیاسی جماعت تشکیل دینے سے پہلے ”پاکستانی پلان“ کا عملی ماڈل پیش کیا ہے۔ بریفنگ کے دوران ماڈل گاﺅں کی فلم بھی دکھائی گئی۔ ہارون خواجہ نے کسی سیاسی جماعت پر الزام تراشی نہ کی اور کہا کہ انگریزوں کے موجودہ ریاستی نظام میں پاکستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔سینئر صحافی اور معروف دانشور ہارون خواجہ کی بریفنگ سے بہت متاثر ہوئے۔ ہارون خواجہ نے کہا کہ قائداعظم اور علامہ اقبال انکے رول ماڈل ہیں اور وہ آزادی کا وہ خواب پورا کرنے کے آرزو مند ہیں جو آج تک پورا نہیں ہوسکا۔
ایک نشست میں ایک دانشور نے ہارون خواجہ سے کہا کہ وہ ناممکن کو ممکن کیسے بناسکیں گے۔ انہوں نے جواب دیا کہ قائداعظم نے کہا تھا ”ناکامی ایسا لفظ ہے جسے میں نہیں جانتا“۔ ہارون خواجہ کا اپنے رب پر یقین لازوال ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ نیک نیت افراد کو کبھی ناکام نہیں ہونے دیتا۔ ”یقین محکم“ ہارون خواجہ کا بہترین ہتھیار اور غیر معمولی اثاثہ ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا۔....
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہی مردوں کی شمشیریں
پاکستان فریڈم موومنٹ نے اپنے پارٹی پروگرام میں پارٹی وژن کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ”پاکستان فریڈم موومینٹ متحد، معیاری، خوشحال اور ہمدرد پاکستان چاہتی ہے جس کی تشکیل نوقائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریہ¿ مساوات اور انصاف پر کی جائے۔ پاکستان کے مسائل بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن کے بغیر ”پاکستانی پلان“ کی بنیاد پر حل کیے جائیں۔ پرانے چہرے اور پرانا فرسودہ نظام تبدیل کرکے بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی تقسیم کو محدود کیا جائے یہ تقسیم ہمارے ملک کے دل میں سے گزررہی ہے اور کروڑوں پاکستانیوں کی فطری صلاحیتوں کو برباد کررہی ہے“۔ نئی سیاسی جماعت کیلئے سب سے مشکل چیلنج اپنے ”پاکستانی پلان“ کو عوام تک پہنچانا ہوگا۔ پاکستان کے پڑھے لکھے بے لوث افراد اگر عملی سیاست میں شریک ہوتے تو کرپٹ، مفاد پرست اور موقع پرست عناصر کبھی پاکستانی سیاست پر بالادستی حاصل نہ کرسکتے۔ بار بار دھوکے اور فریب کھانے کے باوجود پرانی جماعتوں کے ساتھ چمٹے رہنا حب الوطنی اور عوام دوستی نہیں ہے۔ چین کے انقلابی رہنما ماﺅزے تنگ نے کہا تھا جب سیاسی جماعتیں کرپٹ ہوجائیں تو ان کی اصلاح ممکن نہیں رہتی اور ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے اہل اور محب الوطن افراد کی ٹیم نے ہارون خواجہ ماہر فنانس اور گورنینس، جواد اسلم ماہر کمیونٹی ڈویلپمنٹ، سید نبیل ہاشمی ماہر صنعت و تجارت، عائشہ حمید ماہر تعلیم، ڈاکٹر نعیم الدین میاں ماہر صحت، ڈاکٹر ریحان ملک ماہر پالیسی، جی ایم لالی صدر پنجاب عبدالغفار خان صدر آزاد کشمیر ”پاکستان فریڈم موومینٹ“ کے نام سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا ہے جسکے پاس قومی مسائل کا ٹھوس حل بھی موجود ہے۔ اس نئی جماعت کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی ہونی چاہیئے۔ حالات کا ماتم کرتے رہنے سے پاکستان کا سیاسی قبلہ درست نہیں ہوگا۔ مثالی سیاسی ماڈل پیش کرکے اور اس کا حصہ بن کر ہی بحرانوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ کنگ مارٹن لوتھر نے کہا تھا ”ہماری زندگی اس دن سے ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے جس دن ہم ان معاملات پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں جو ہمارے لیے بڑے اہم ہوتے ہیں“۔ خاموشی جرم ہے پاکستان کے نوجوان مایوسی اور بے حسی سے باہر نکلیں اور پاکستان میں صاف شفاف نظریاتی سیاست کا آغاز کریں اور عوام کے سامنے مثالی متبادل ماڈل پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کا ارادہ نہ کرلے۔ ....
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اُڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں