کراچی میں گرمی کی شدید لہر میں ہزاروں ہلاکتوں کے تقریباً ہفتے بعد وزیراعظم میاں نوازشریف نے کراچی کا دورہ کیا۔ انکے دورے سے یہ امید لگائی جارہی تھی کہ وہ کراچی کے عوام کی ریلیف کیلئے براہ راست اعلانات کرینگے اور کراچی کے عوام کو پانی و بجلی کی فراہمی کیساتھ ساتھ گرمی سے ہلاک ہونیوالوں کیلئے مناسب امداد کا اعلان کریں گے مگر میرے خیال میں وزیراعظم صاحب کا دورہ صفر ہی رہا ہے اور نااہل سندھ حکومت کے لوگوں نے ان کو ’’بریفنگ‘‘ دیکر فنڈز کا مطالبہ کیا اور وزیراعظم سے مختلف وعدے لیکر انہیں واپس اسلام آباد روانہ کردیا۔ اس دورے میں وزیراعظم گرمی سے متاثرہ افراد کی عیادت کرنے اسپتال بھی نہیں گئے اور نہ ہی انکی جانب سے براہ راست خطاب کیا گیا۔یہ بات سب پر عیاں ہوگئی ہے کہ کراچی میں گرمی سے ہلاکتوں پر ذمہ دار کے متعلق وفاق اور صوبائی حکومت میں اتفاق رائے ہے اور دونوں نے اس کا ملبہ کے الیکٹرک پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔
وزیراعظم کے دورہ کراچی کے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے وفاق کی جانب سے ایف آئی اے کو اختیارات دینے اور نیب کو ایکٹیو کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے ایف آئی اے سے اختیارات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ قائم علی شاہ نے دھمکی دی کہ اگر ایف آئی اے کو دیئے گئے اختیارات واپس نہ لئے گئے تو ہم عدالت سے رجوع کرینگے کیونکہ یہ صوبائی معاملات میں مداخلت ہے۔ ایف آئی اے کو اختیارات اس لئے دیئے گئے ہیں کہ سرکاری اداروں سے کرپشن‘ جعلی بھرتیوں اور لوٹ مار کی تحقیقات کی جاسکیں اور اپنے ان اختیارات کی وجہ سے ایف آئی اے اور نیب ملکر ایسی کارروائیاں کریں جس سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور لوٹ کھسوٹ کرنیوالوں کی نشاندہی ہو۔ اس میں آخر برا کیا ہے؟ اگر ایف آئی اے اور نیب کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالیں تو یہ کس طرح سے صوبائی معاملات میں مداخلت ہوگی؟ قائم علی شاہ تو دکھاوے کے وزیراعلیٰ ہیں اصل میں تو سندھ حکومت کوئی اور چلارہا ہے اور اسی کو یہ تکلیف ہے کہ ایف آئی اے اور نیب کو کیوں اختیارات دیئے گئے ہیں؟
وزیراعظم کو دوٹوک الفاظ میں کہنا چاہئے کہ کسی بھی صورت ایف آ ئی اے سے اختیارات واپس نہیں لئے جائینگے بلکہ قائم علی شاہ کے اس مطالبے کے بعد وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ میڈیا سے براہ راست خطاب کرکے سندھ حکومت کے اس مطالبے سے قوم کو آگاہ کرتے تاکہ کراچی میں گرمی سے ہزاروں افراد کی ہلاکتوں پر وزیراعظم کے دورے کے دوران سندھ حکومت کی تمام توجہ آخر کس طرف تھی؟ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو کرپشن‘ قبضہ مافیا‘ جعلی بھرتیوں اور سرکاری اداروں میں لوٹ مار کرنیوالوں کو کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہئے اور اس سلسلے میں کوئی دبائو قبول نہیں کیا جانا چاہئے۔
ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے اور انکا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے۔ 1992ء میں بھی ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن کیا گیا تھا اور کسی کے اشارے پر آفاق احمد اور عامر خان نے علیحدہ دھڑا بنالیا تھا مگر وقت نے ثابت کیا کہ ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن بھی ناکام رہا اور جناح پور کی سازش کا الزام لگانے والوں نے بعد میں میڈیا پر آکر معافی بھی مانگی اور سندھ کی شہری آبادی نے الطاف حسین کے علاوہ کسی کو نمائندگی نہیں دی اور نہ ہی ان کا متبادل کوئی بن سکا۔
اب ایک بار پھر ایسا لگ رہا ہے جیسے ایم کیو ایم کے خلاف سخت ایکشن ہونے جارہا ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کو بھی یکساں خطرہ ہے کیونکہ ایم کیو ایم پر مسلح ونگ کا الزام لگایا جاتا ہے تو پیپلزپارٹی پر کرپشن‘ قبضہ مافیا اور لیاری گینگ وار کی حمایت کا الزام لگتا ہے۔ میڈیا میں اس موضوع پر باقاعدہ مذاکرے ہورہے ہیں کہ کیا مائنس الطاف فارمولا لایا جارہا ہے؟ میرے خیال میں مائنس الطاف فارمولا اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک الطاف حسین زندہ ہیں۔
اگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے پاس اس قدر ثبوت ہیں کہ عدالتوں میں ایم کیو ایم کیخلاف ہونیوالے ایکشن کو درست ثابت کرسکیں تو تبھی انکے خلاف ایکشن لینا چاہئے کیونکہ ماضی میں کبھی عدالتوں میں الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکے۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں چند ماہ قبل ہی ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے دوران عامر خان کو حراست میں لیکر 90 روز کا ریمانڈ لیا گیا تھا۔ اب ان کو رہا کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں نجی بینک (ایم سی بی) کی نجکاری کے متعلق انکوائری بند کرنے کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران جسٹس مقبول باقر نے بہت سخت ریمارکس دیئے اور کہا کہ چند بزنس مینوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ نیب میگا اسکینڈلز نظر انداز کررہا ہے اور نیب جان بوجھ کر عدالت سے حقائق چھپا رہا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ نیب حکام چند سوداگروں سے خوفزدہ ہیں اور چند سوداگروں نے ملک کا جوحال کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر نیب حکام اپنی روش جاری رکھیں گے تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔
اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ 3 عشرے قبل جاگیرداروں کے بعد پاکستان کی سیاست میں صنعت کاروں اور سرمایہ داروں نے بھی قدم جمانا شروع کئے اور پھر سیاست میں کرپشن اور دولت کا عنصر شامل ہونا شروع ہوا۔ سرمایہ داروں نے ہی سیاست کو صنعت کے تحفظ کیلئے وقف کیا جس کی وجہ سے عام آدمی کی حالت بد سے بدترہوتی چلی گئی اور اب یہ حال ہے کہ ملک کی حکمرانی صنعتکاروں کے پاس ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے بالکل درست کہا ہے کہ نیب حکام وزیراعظم‘ وزیر داخلہ‘ وزیر خزانہ یا کسی سیکریٹری وغیرہ کے کہنے پر بھی حقائق چھپالیتے ہیں اور عدالتوں کو اگر ثبوت نہ دیئے جائیں تو کس طرح سے مجرموں کی نشاندہی ممکن ہے؟ پھر مجرموں کو سزائیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟ نیب جان بوجھ کر کرپشن کیس میں لوگوں کو فائدہ دیتی ہے۔
سپریم کورٹ کو چاہئے کہ بینکوں سے قرضے معاف کرانیوالوں کی فہرست بھی طلب کرکے میڈیاکو جاری کرے تاکہ قرضے معاف کرانیوالوں کا بھی احتساب ہوسکے کیونکہ ملک میں کرپشن مافیا‘ قبضہ مافیا‘ دہشت گرد مافیا کے ساتھ ساتھ قرضہ معافی مافیا بھی ہے اور ملک کو لوٹنے اور اس حالت تک پہنچانے کے سب ہی مساوی ذمہ دارہیں۔ کرپشن کرنیوالے اور قرضے معاف کرانیوالے قومی مجرم ہیں اور انکے ٹرائل تک ملک سے کرپشن اور لوٹ مار ختم نہیں ہوسکتی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38