گزشتہ سال مئی میں ایران ،بھارت اور افغانستان کے درمیان ایران کی بندرگاہ ’’چابہار‘‘ پر سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ ہوا تو دنیا میں پہلی بار گوادر کے مقابلے میں چابہار کا نام سنا اور سی پیک کی مخالفت میں بھارت پہلی بار کھل کر سامنے آیا۔ اس معاہدے کے مطابق چابہار کی بندرگاہ سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی اور بھارت نے ایران کی اہم بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر 50 کروڑ ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دیا جوبعدازاں تکمیلی مراحل تک جاتے جاتے اربوں ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اور اب جبکہ ایرانی بندرگاہ پر پہلے مرحلے کا کام مکمل ہو چکا ہے تو آج کل بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ایران میں موجود ہیں۔ جنہیں ایرانی حکومت نے پہلے مرحلے کے افتتاح کے لیے خاص طور پر مدعو کیا ہے۔اور بھارت بھی ہر ممکن یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ چابہار گوادر کا متبادل طور پراجیکٹ ہے جس میں افغانستان کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
اگر بات کی جائے چا بہار بندرگاہ کی تو یہ گوادر پورٹ سے کم و بیش 100کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یعنی بحیرہ اومان کے دھانے پر موجود چابہار بندرگاہ پاکستان میں چین کے تعاون سے تیار کی جانے والے گوادر بندرگاہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔بھارت کو امید ہے کہ چابہار کی صورت میں اسے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل ہو جائے گا۔بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نے اسے شمال جنوب کی رہداری کہتے ہوئے کہا کہ اس راستے سے بھارت کو روس اور اس کے ساتھ یورپ تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔
چا بہار بندر گاہ کی تعمیر سے پاکستانی بندرگاہ گوادر پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ایران کو بھی اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور بھارتی سرمایہ کاری اور تعاون کا بے حد فائدہ ہو گا جس سے جوان افراد کے لیے ملازمتوں کے موقعے پیدا ہو گے۔بھارت ایران سے تیل خریدنے والا ایک اہم ملک ہے اور اس نے یورپ اور امریکہ کی پابندیوں کے درمیان امریکہ کے شدید دباؤ کے باوجود ایران سے خام تیل لینا جاری رکھا تھا۔پابندیوں کے درمیان انڈیا کو ایران سے کافی مراعات بھی ملتی تھیں۔ خام تیل کی قیمتوں کی ادائیگی انڈین کرنسی روپے میں ہوتی تھی۔ بھارت دوائیں اور پابندیوں سے مستثنیٰ بعض دوشری اشیا بھی ایران کو برآمد کیا کرتا تھا۔مودی کے گزشتہ سال کے دورے میں ساڑھے چھ ارب ڈالر کی ادائیگی کے طریق کار اور وقت بھی طے کیے گئے جو رقم بھارت پر واجب الادا تھی۔ یہ خطیر رقم ایران سے خریدے گئے تیل کی قیمتیں پابندیوں کے سبب نہ ادا کر پانے سے جمع ہو گئی تھی۔ایران بھارت کی مستقبل کی پالیسی کا ایک انتہائی ملک ہے۔ پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ وسط ایشیا تک رسائی کے لیے ایک متبادل راستہ تلاش کررہا ہے۔ افغانستان کو شامل کر کے پاکستان کو الگ تھلگ کرنا بھی ایران سے انڈیا کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ افغانستان ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے کسی سمندر تک اس کو رسائی حاصل نہیں ہے، اس معاہدے کے بعد وہ اپنی اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کے لئے چابہار بندرگاہ سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ چابہار بندگاہ کا توسیعی پروجیکٹ ، چابہار زاہدان ریلوے لائن اور چابہار پیٹروکیمیکل کامپلیکس کی تیاری ان پروجیکٹوں میں شامل ہے جن میں ہندوستان سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔چا بہار کی بندرگاہ کی تعمیر و توسیع کا مقصد پاکستان کے چین کے ساتھ اقتصادی منصوبوں کے جواب میں افغانستان تک زمینی راستہ حاصل کرنا ہے۔بھارت پہلے ہی چا بہار بندرگاہ کو مغربی افغانستان کے ساتھ جوڑنے کے لیے 220 کلو میٹر لمبی سڑک بنانے کے لیے 100 ملین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔چا بہار پاکستان میں چین کی مدد سے بننے والی بندرگاہ گوادر کے ساحل سے قریب ہے ، لہٰذا بھارت کے لیے اس میں سٹریٹجک عنصر بھی ہے۔چا بہار میں بھارت کی دلچسپی کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک وجہ تو افغانستان تک رسائی ہے۔ لیکن دوسری اہم وجہ چابہار میں قدم جما کر پاکستانی بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ چا بہار کی بندرگاہ کا محل وقوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بندرگاہ ایرانی بلوچستان سیستان کے جنوب میں واقع ہے۔ اس بندرگاہ سے سمندر تک رسائی آسان ہے۔ اس بندر گاہ کے بالکل قریب اومان کی سلطنت واقع ہے۔ چابہار سے خلیج فارس اور بحیرہ اومان تک بھی آسانی سے رسائی مل جاتی ہے۔ چابہار ایک زمانے میں تجارت اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز رہ چکی ہے۔ چابہار کی ایرانی بندرگاہ بحرہند کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ چا بہار کو ایران ریل کے ذریعہ بھی دوسرے علاقوں سے منسلک کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
حقیقت میں جب سے چین نے گوادر کی بندرگاہ کو ترقی دینے کا سمجھوتہ کیا ہے بھارت کی بے چینی بڑھ گئی ہے۔ اس خطے میں بھارت چین کو اپنے لئے عسکری اور معاشی اعتبار سے اپنا حریف سمجھتا ہے چین کی کمپنی چائنیز اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی نے 2013ء میں گوادر پورٹ کو ترقی دینے کا سمجھوتہ کیاہے چین نے پاکستان کے ساتھ 46 ارب ڈالر کا پاک چین اکنامک کوری ڈور کا ایک سٹریٹجک اہمیت کا بھی سمجھوتہ کیا ہے اس سمجھوتے کے تحت گوادر پورٹ کو کاشغر سے ملا دیاجائے گا۔ پاک چین اقتصادی کو ریڈور سے بھارت کو جو بغض اورعناد ہے اس کا وہ اظہار کر چکا ہے۔ نریندر مودی نے چین کے دور ے میں پاک چین اقتصادی کوریڈور پر اعتراض کیا تھا جو چین نے مسترد کر دیا تھا۔ بھارت 65 بلین ڈالر کی لاگت سے چابہار میںا یک کنٹینر ٹرمینل تعمیر کر رہا ہے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھارت کو ایک اور پیشکش بھی کی ہے کہ بھارت چابہار پورٹ کا آپریشن بھی سنبھال لے۔ بھارت کو چابہار میں قدم جمانے کا موقع مل گیا ہے۔ چابہار اور ایرانی بلوچستان میں بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ کو ایک بڑی سہولت میسر آگئی ہے۔ چابہار اور سیستان میں بیٹھ کر’’را‘‘ کے منصوبہ ساز پاکستان میں گڑ بڑ کرانے اور وہاں علیحدگی پسند تنظیموں کو ہتھیار اور پیسہ فراہم کرسکتے ہیں۔ کلبھبوشن یادیو بھارتی بحریہ کا ایک آفیسر ہے اس کے لیے چابہار پورٹ کو ترقی دینے کے سمجھوتے کے تحت ’’ویزا‘‘ حاصل کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔لہٰذااگر یہ کہا جائے کہ دنیا اس حوالے سے خاصی ایکٹو نظر آتی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہ داری کو کسی طرف روکا جائے تو اس کے مقابلے میں پاکستان اندرونی لڑائیوں میں اُلجھا ہوا نظر آرہا ہے۔
آج لوگ ’’پریکٹیکل وار‘‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہم اندرونی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔یہ انٹرنیشنل ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر لڑائی جھگڑوں میں پڑا رہے اور غیر مستحکم رہے اور اس کے ارد گرد ممالک ترقی کرتے رہیں۔ جیسا کہ چابہار کے منصوبے کا افتتاح ہورہا ہے۔ جبکہ گوادر جیسے 46ارب ڈالر کے منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا جائے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اُس کے کمزور پہلوئوں کو مدنظر رکھا جائے۔ آج دنیا میں جتنی بھی کامیاب حکومتیں چل رہی ہیں وہ اُن کے مضبوط ’’تھنک ٹینک‘‘ کی بدولت کام کررہی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کا تھنک ٹینک اندرونی محاذ پر فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے کیوں کہ اُس کی نظر میں پاکستان کے مفادات کچھ نہیں بلکہ شخصیات کے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔