پانی جب سر سے گزر گیا، معاملہ جب ہاتھ سے نکل گیا، سیاسی بحران سر چڑھ کر بولنے لگا تو نواز شریف نے انتہائی معصومانہ انداز اختیار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ انہیں بتایا تو جائے کہ ان کا قصور کیا ہے؟ ان کے بھولپن کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے کسی مخصوص شخصیت یا حلقے کو مخاطب کئے بغیر ہوا میں سوال اچھال دیا، جس کا نقصان انہیں یہ ہوا کہ یہ سوال پبلک پراپرٹی بن گیا اور ہر کسی کو طبع آزمائی کا موقع مل گیا۔اس سوال کے جواب میں جو آوازیں ابھریں اُن سے ثابت ہوا کہ شاید ہی عوام کا کوئی حلقہ ہو جو سرکاری مشینری اور دھونس کے اس نظام سے نالاں نہ ہو، جس کی حکومت سے براہ راست لینا دینا نہ تھا وہ اس غم میں دبلا ہو رہا تھا کہ حکمران ٹولے نے اقتدار اور اختیار کی کس طرح بندر بانٹ کر رکھی ہے، پہلے تو عزیز واقارب کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مناصب عطاکئے گئے اس کے بعد خوشامدیوں کے بھیس میں اپنے نام نہاد وفاداروں کو نوازا گیا، جنہوں نے اپنا پیٹ اس قدر بھر لیا کہ خمار نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر لیں، آج یہی لوگ حکومت کے زوال کا بنیادی سبب ہیں ،میرٹ کو نظرانداز کر کے سجائے گئے دربار میں نااہلوں کا میلہ لگایا اور بالآخر توقع کے عین مطابق انہوں نے ڈلیور نہ کیا ،جس کا سارا دباﺅ حکومت پر آن پڑا۔
ایک عرصہ بیرون ملک گزارنے اور تواتر کے ساتھ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے دورے کرنے والے شریف برادران سے اس دور اقتدار میں انقلابی تبدیلیوں کی توقع کی جارہی تھی ، عام خیال یہ تھا کہ ترقی اور عوامی خدمت میں وہ سیاست کے روشن چہرے کو سامنے لائیں گے،لیکن وہ عوام کو نمایاں ریلیف دے سکے نہ لوگوں کا استحصال کرنیوالے طبقات کا ہاتھ روک سکے بلکہ عملی طور پر ایسے عناصر کی سرکاری مشینری کی جانب سے سرپرستی کی گئی۔عوامی امنگوں کے برعکس اس بار حکومت ماضی کے مقابلے میں اچھی ٹیم بنا سکی نہ متاثر کن کارگردگی پیش کر سکی۔ معاشرے سے انصاف ناپید ہے، لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم ہے ، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے، ملک کو قوم کے عروج کی سمت سفر کے آغاز کا کوئی منصوبہ نہیں ، عوام شدید مایوسی کے عالم میں ہیں ، ہر شعبے پر مافیا قابض ہے، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولت کے شعبوں پر سفاک مافیا قابض ہیںاور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کا تعلق یا تو حکمران طبقے سے ہے یا انہیں مکمل حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔
عمران خان اور طاہرالقادری نے حکومت اور عوام میں فاصلے کو بھانپتے ہوئے اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
اسلام آباد میں اقتدار کی جنگ میں حکومت کے مقابلے میںدھرنا دینے والوں کو بڑے پیمانے پر پذیرائی نہیں ملی ،باوجود اسکے کہ پاکستانی قوم ہر دور میں کسی نجات دہندہ کی منتظر رہی ہے لیکن اب اسکے مسائل ماضی کے مقابلے کئی گنا سنگین ہو گئے ہیں ، جتنی لوگوں کی مشکلات بڑھیں اتنی ہی انہیں ریلیف کی بھی زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ حکومت کو ہٹانے کیلئے سرگرم عمران خان اورطاہر القادری کے اقدامات کو کئی لحاظ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے ، انکے انداز سیاست پر نہ صرف انگلی اٹھائی جا سکتی ہے بلکہ اسے آسانی سے غلط بھی ثابت کیا جا سکتا ہے ، دھرنا گروپ کے پروگرام کی عملی شکل نہایت مبہم ہے معمولی حمایت کے بل بوتے پر ایک لمحے کئے گئے اعلان کی دوسرے ہی لمحے تردید کی جارہی ہوتی ہے۔ مگر حکومتی صفوں میں اس قدر خوف ہراس نظر آ رہا ہے کہ وہ طاہر القادری اور عمران خان کی اس قدر بچگانہ سیاست کی تاب بھی نہیں لا پارہے ورنہ آج کے مہذب دور میں جتھوں کی سیاست اور منتخب ایونوں پر لشکر کشی کی کوئی باشعور شہری حمایت نہیں کر سکتا، اسلام آباد میں جاری بے تکا شو اب تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے ، ملکی تاریخ میں اس واقعہ کو ایک ڈراﺅنے خواب کی طرح یاد رکھا جائیگا۔
حکومت مخالف تحریک کے عین عروج کے وقت میں جاوید ہاشمی نے بھی بغاوت کی رسم پوری کردی، انہوں نے عمران خان پرجو الزامات عائد کئے انہیں باغی کے ماضی کو دیکھتے ہوئے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ، جاوید ہاشمی عمران خان کے بارے میں کچھ ایسا سچ بولے ہیں کہ کپتان کے حامیوں کے منہ سے اس سچ کی کڑواہٹ دور نہیں ہو پا رہی۔ عملی طور پر تحریک انصاف میں عمران خان کی آمریت قائم ہے ،ایسی جماعت میں جاوید ہاشمی جیسے سیاسی مست قلندر کا کوئی کام تو نہیں تھا لیکن وہ مسلم لیگ نون کی قیادت سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ گھٹن کے ماحول سے نکلنے کیلئے انہوں نے تحریک انصاف کو ہوا کا تازہ جھونکا سمجھ لیا اور ایک کی قید سے نکل کر دوسرے سیاسی آمر کے کے ساتھ جا کھڑے ہوئے، لیکن سلام ہے جاوید ہاشمی پر جنہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا اور جب جبر بڑھا انہوںنے بغاوت کر دی، جاوید ہاشمی نام کے ہی نہیں واقعی منافقانہ طرز سیاست اور جمہوریت کے پردے میں آمریت کے باغی ہیں۔
مسائل کی اذیت میں مبتلا عوام حکومت سے بدظن ہیں اور ریلیف کیلئے تڑپ رہے ہیں ، لیکن جلاوطنی سمیت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنیوالے حکمرانوں نے عوام پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ جلاوطنی میں بھی یہ لوگ آسودہ حال رہے، اس لئے انہیں لوگوں کے مصائب کا اندازہ نہیں ، حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے عوام کی تشفی کیلئے دو بول بولنا مناسب نہیں سمجھا اور انہیں معاشی اور سماجی انصاف فراہم کرنے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والے ٹولے کوحکومت درست طریقے سے ہینڈل نہیں کر پائی تاہم پارلیمنٹ نے اس مشکل وقت میں حکومت کا کچھ اس طرح سے ساتھ دیا کہ نئی تاریخ رقم کر دی، پارلیمنٹ نے جمہوریت کے تحفظ کا اعادہ تو کیا ہے لیکن جمہوری رویے اپنانے پر زور نہیں دیا جو جمہوریت کے لئے سب سے بڑی ضرورت ہے ، حکمرانوں کے اندازمیں جمہوری رویے رچے بسے ہوتے تو آج اقتدار کی ہوس میں مبتلا چند لوگوں کو اتنا ہلہ گلہ کرنے کا بھی موقع نہ ملتا۔
اقتدار پر قبضے کے اس کھیل میں کئی حلقوں نے اداروں میں ٹکراﺅ کی مذموم کوششوں سے بھی گریز نہیں کیا حالانکہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ فوج کا اس تمام معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تاہم حکومت کو داخلی اور خارجہ محاز پر اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ ضرور لینا چاہئے تاکہ پاک فوج کے ساتھ ورکنگ ریلیشنز مزید بہتر ہو سکیں۔اس مقصد کیلئے بھارت کے ساتھ تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر پالیسی کو سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں دیکھا جائے اور 1971 میں تشکیل پانے والی پالیسی پر عمل پیرا رہا جائے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاک فوج کے بعض تحفظات درست ہیں لیکن ملکی سلامتی اور سا لمیت سے متعلق امور پر بات کرنے کوجمہوری نظام میں مداخلت قرار دینا کسی محب وطن کو زیب نہیں دیتا۔ جہاں تک اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہرالقادر ی اور عمران خان کے ایڈونچر کا تعلق ہے تو وہ آہستہ آہستہ ڈھلنے کے بعد اب غروب ہونے کے قریب ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024