شریف حکومت کی ایک تہائی مدت پوری ہو چکی ہے اس عرصے میں حکومت کے خدوخال واضح ہو چکے ہیں۔ حکومت کی اہلیت بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ دہشت گردی پہلے بھی تھی آج بھی ہے۔ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی بھی نئی باتیں نہیں۔ ہارس ٹریڈنگ ماضی میں بھی ہوتی رہی آج بھی اسی کا شور ہے۔ ضمیر کسی مردہ خانہ میں پڑا ہے۔ سینٹ کی 52 نشستوں کیلئے تگ و دو جاری ہے۔ ووٹ کے تقدس کی پامالی نہ ہوتی تو دھرنا کیونکر ہوتا اور عمران خان جوڈیشل کمیشن بنانے کی مالا بار بار کیوں جپتے؟ آٹا روٹی گھی چینی کی طرح سرکاری ملازمت بھی ایک جنس ہے جسکی قیمت مقرر ہے۔ طلب اور رسد کا قانون ملازمت میں بھی لاگو ہوتا ہے گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سبب بھی طلب اور رسد کا جھگڑا ہے یہ وہ جھگڑا ہے جس کا فیصلہ کوئی اے پی سی یا پنچایت نہیں کر سکتی۔ ہر دور حکومت میں ایک ہی رٹی رٹائی بات سامنے آئی کہ پاکستان کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔ دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج ہے یہ ہماری اور آئندہ آنے والی نسلوں کی بقا اور سالمیت کا معاملہ ہے جس کا عسکری قیادت مقابلہ کر رہی ہے۔ اسحاق ڈار کیلئے اس سے بڑی خوشی کی بات اور کوئی نہیں ہوتی کہ آئی ایم ایف اور عالمی بنک ان کی کمر پر تھپکی دیں۔ پاکستان تین سال کے وقفے کے بعد عالمی بنک کے رعایتی قرضے کی سہولت کا اہل ہو گیا ہے اور اب اسے چار سال کے دوران دو ارب ڈالر ملیں گے۔ کہا جاتا ہے زرداری دور الوداع ہوا تو سٹیٹ بنک کے پاس صرف پونے تین ارب ڈالر کا زرمبادلہ رہ گیا تھا جبکہ وزارت خزانہ میں اسحاق ڈار کے قدم رنجہ فرمانے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر ہو گئے ہیں لیکن ساتھ ہی پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 22 فیصد اور 314 اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی 5 فیصد کی شرح سے نافذ کی گئی ہے۔ جولائی 2014ء کے بعد سے اب تک عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں 58 فیصد کمی ہوئی لیکن حکومت نے قیمتوں میں صرف 35 فیصد کمی کی۔ کیا اسی تناسب سے اشیائے صارفین کی قیمتوں میں کمی ہوئی اور کیا ریلوے اور پی آئی اے کے کرایوں میں کمی ہوئی؟ کیا سکولوں کالجوں کی فیسیں کم ہو گئیں؟ کیا بچتوں کی شرح میں اضافہ ہو گیا، شریف دور کے 18 ماہ میں قرضوں میں 2550 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ رقم کہاں استعمال ہوئی ہے؟ سکولوں کالجوں کے بجٹ کا کثیر سرمایہ خاردار تاروں پر خرچ ہو چکا ہے۔ بچا کھچا بجٹ لیپ ٹاپس پر لٹانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ حکومت کی ایک تہائی مدت بیرونی دوروں کمیٹیاں اور کمیشن بنانے اور اعلی سطحی اجلاسوں میں تمام ہو چکی ہے۔ یہ خبریں روز اخباروں میں پڑھی جاتی ہیں کہ وزیراعظم نے بجلی گیس ٹیکس چوری کا نوٹس لے لیا۔ رپورٹ طلب کر لی وغیرہ وغیرہ۔ حکمرانی یہ نہیں کہ کسی بات کا بار بار اعادہ کرنا پڑے۔ حکمرانی ایک دبدبے کا نام ہے کہ کوئی غلط کام نہ ہونے پائے۔ آج تک بجلی گیس ٹیکس چوری کا سدباب کیوں نہیں ہو سکا؟ ٹیکس دہندگان کو بلیک میل کرکے رشوتوں کے نرخ کون بڑھاتا ہے؟ نئی سے نئی دوبئی نما ہائوسنگ سکیموں میں پلاٹ اور گھر کون خرید رہا ہے؟ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں سے تو ہر روز کلف لگے کپڑے نہیں پہنے جاتے۔ چھوٹے چھوٹے سرکاری کلرک 1500 سی سی کی گاڑیاں کیسے لئے پھرتے ہیں راڈو کی قیمتی گھڑیاں پہنے فائیو سٹار ہوٹلوں میں لنچ اور ڈنر کرتے ہیں۔ بجٹ کا ایک پیٹرن ہے کہ ہر سال اہداف بڑھاتے چلے جائو۔ حکومت کے نزدیک اہداف بڑھانے کا نام ہی ترقی ہے۔
ہر سال منی بجٹ کیوں لائے جاتے ہیں؟ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں معیشت کو 113 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ سمندر پار پاکستانی 24 ارب ڈالر نہ بھیجتے تو ہماری کمر ٹوٹ جاتی۔ سعودی عرب کے 1500 ملین ڈالروں نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائروں کو سہارا دیا اور اب قطر سے 15 ارب ڈالر کی مائع قدرتی گیس درآمد کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کو امریکہ کی نظر لگ چکی ہے۔
وزیراعظم نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے تمام منصوبے 2017ء تک مکمل کرنے کی سختی سے ہدایت ہے جب کہ نیپرا رپورٹ حکومتی دعوے کو چیلنج کر رہی ہے۔ عوام آئے روز بجلی منصوبوں کے ایم آئی یوز پر دستخط ہوتے اور منصوبوں کے افتتاح کی تصاویر دیکھتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں جیسے چنیوٹ میں سونے چاندی لوہے اور تانبے سمیت قیمتی معدنی ذخائر کی دریافت نے انہیں نہال کر رکھا ہے ۔ بلوچستان اور خیبرپی کے کے بے بہا وسائل کا سن کر ہمارے چہرے جگمگانے لگتے ہیں۔ 68 سال گواہ ہیں کہ ہماری نسلوں نے کتابوں میں معدنیات کے ذخائر کا پڑھا ضرور ہے لیکن عملاً استفادہ سامنے نہیں آیا۔ کالا باغ ڈیم کی طرح دریافتوں اور منصوبوں پر کام کے آغاز کے اعلانات کے بعد وہ کون سا غیبی ہاتھ ہے جو خاموشی سے منصوبوں کو لپیٹ دیتا ہے کیا سونے کی دریافت کی خبروں کے بعد ہماری ترقی کے دشمنوں کے کان کھڑے نہیں ہونگے۔ نیپرا نے ملک سے 2020ء تک بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو ناممکن قرار دیدیا ہے۔ یہ درست ہے کہ بجلی صارفین کو آج تک کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا۔ بجلی تقسیم کار کمپنیاں بجلی چوری روکنے اور ریکوری بہتر بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ 480 ارب کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے باوجود صورتحال کیوں بہتر نہ ہو سکی؟ اب تو یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ تیل اور بجلی حکومت کیلئے کمائی کا بڑا ذریعہ ہے۔
اسحاق ڈار سوئس بنکوں میں پڑی پاکستانیوں کی بلیک منی کو واپس لانے کا نعرہ لگا کر ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے اسی طرح بجلی پانی اور گیس کے وزراء خواجہ آصف، عابدشیرعلی اور خاقان عباسی بھی بجلی اورگیس چوروں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ بجلی کے نادہندگان سے 500 ارب روپے کی ریکوری فی الحال تو خواب و خیال دکھائی دیتی ہے۔ 9 فروری 2015ء تک وزیر خزانہ تین منی بجٹ سامنے لا چکے ہیں۔ فرنس آئل سمیت 285 درآمدی اشیاء پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی۔ ودہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کیا گیا۔ ریونیو ٹارگٹ 2810 ارب روپے سے گھٹا کر 2691 ارب روپے کیا گیا۔ آئی ایم ایف نے 518 ملین ڈالر کی چھٹی قسط کو اضافی ٹیکسوں سے باندھ دیا۔ منی بجٹ کیخلاف اپوزیشن کا بائیکاٹ بھی بے اثر ثابت ہوا۔ اپوزیشن فرینڈلی ہو تو باتوں میں وزن نہیں رہتا۔ ریگولیٹری ڈیوٹی میں پانچ فیصد اضافہ ہے۔ صارفین پر عملاً سولہ سے بیس ارب تک کے ٹیکسوں کا بوجھ لادا گیا ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں بار بار ردوبدل کس لئے کیا جاتا ہے؟ بجٹ تقریر میں دوران سال نئے ٹیکس نہ لگانے کی یقین دہانی کس لئے کرائی جاتی ہے ایک بین الااقومی ریٹنگ ایجنسی کیمطابق ایشیائی ممالک میں مہنگائی کا سب سے زیادہ بوجھ پاکستانی عوام پر ہے۔ مہنگی غیر ملکی لگژری گاڑیاں، اعلی درجے کی کراکری، بیش قیمت قالین، مہنگا عمارتی سازوسامان، قیمتی سگار اور سگریٹ جیسی چیزیں وزیر خزانہ کو کیوں نظر نہیں آتیں۔ اب کون سی چیز بچی ہے جس پر جی ایس ٹی کا سٹکر نہیں لگا ہوا۔ شاید کفن بچ گیا ہے!