کتاب ہو یا کالم ہر کوئی پذیرائی چاہتا ہے۔ کوئی مصنف خود لکھے یا کسی گھوسٹ رائٹر کو مستعاد لے۔ ہر صورت میں وہ اپنی تحریر کی قیمت چاہتا ہے۔ قیمت واہ واہ کی صورت میں ہو یا روپے پیسے کی شکل میں۔ کچھ سیانی عورتیں تو یہ کہتی ہیں کہ مرد دولت، شہرت اور عورت کے ’’چکر‘‘ میں رہتا ہے۔ پس یہ ثابت ہوا کہ شہرت کی شکل میں بھی رشحات قلم کی وصولی ہو جائے تو بزنس برا نہیں۔
’’دی کنٹریکٹر‘‘ ریمنڈ ڈیوس کی وہ کتاب ہے جس میں اسکی معرکہ آرائی کم اور ہمارے نظام پر سوالیہ نشان زیادہ ہے۔ سوالیہ نشان مثبت ہو تو کوئی دریافت یا انکشاف یا رہنمائی ہوا کرتاہے۔ اور اگر یہ منفی ہو تو ماتھے کا کلنک ۔پہلے اس ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان کی جاسوسی کا کنٹریکٹ لیا۔ یہ باقاعدہ کوئی ڈپلومیٹ نہیں تھا تاہم سہولتیں ڈپلومیسی کی لیں اور باقاعدہ قاتل ہونے کے باوجود سن 2011ء میں با عزت براستہ افغانستان امریکہ واپس چلا گیا۔ یہ باقاعدہ رائٹر بھی نہیں اس کتاب کا گھوسٹ لکھاری سٹورمز ریبیک ہے۔ (1) پہلے غلط آمد، (2) آمد کے بعد جاسوسی، (3) جاسوسی کے بعد دن دیہاڑے لاہور کی معروف اور مصروف شاہراہ پر قتل، (4) قاتل کی با عزت رہائی، (5) رہائی کے بعد ’’محسنوں‘‘ ، اسلامیہ جمہوریہ پاکستان اور اسکے نظام کی بدنامی کیلئے کتاب کی اشاعت۔ (کوئی سمجھ آئی؟)
پہلی عرض تو یہ ہے کہ اس کتاب کا کوئی نیک مقصد نہیں۔ کوئی سفارتی یا اخلاقی پہلو اس کی تربیت و پیشکش سے ایسا نہیں نکلتا کہ جو بنائو کی جانب جائے۔ اس میں سچ کی مقدار بہت زیادہ بھی ہو تو 50 فی صد سے زائد نہیں۔ گویا زیب داستان میں سچ اور جھوٹ ففٹی ففٹی ہیں۔ لیکن امریکیوں اور مغربی حکومتوں، ایجنسیوں اور دانشوروں میں ایک خوبی ہے کہ وہ مخصوص عرصہ کے بعد راز کو راز نہیں رہنے دیتے۔ اس کو اس لئے اوپن سیکرٹ بنا دیتے ہیں کہ ہیروز اور ولنز سامنے آ جائیں علاوہ بریں حالات و واقعات سے سبق سیکھا جائے۔ یہ بھی پہلو مد نظر ہوتا ہے کہ ’’سو دن چور تے اک دن ساڈا‘‘ اس کے برعکس ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری مقصد گائیں مرنے کے بعد بھی ’’پوترتا‘‘ کی میراث اور جھوٹ کی سیاہ چادر میں دفن رہتی ہیں کہ تاریخ سے کچھ نہ سیکھا جائے بلکہ ہماری تحریر کردہ تاریخ بھی فرمائشی پروگرام ہوتا ہے اور آمر آئین تک میں اپنا نام کندہ کرواتا ہے۔سوھنیو سن لو کلبھوشن جاسوس گر بچا تو کتاب یہ بھی لکھے گا۔
دوسری عرض یہ کہ امریکہ ہمارا دوست نہ دشمن، وہ صرف اپنے مفادات کا دوست اور حکم عدولی کرنیوالوں کا دشمن۔ سیاست سے محبت رکھنے والوں کیلئے یہ بھی عرض کرتا چلوں امریکہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے بہر حال نالاں ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ ان دونوں سے امریکی جی بھر چکا ہے اور عمران خان پر امریکہ اعتماد کرنے کو قطعی تیار نہیں۔ اب اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اگر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے ریمنڈ ڈیوس کی مدد بھی کی تو کیا حاصل اس ساری داستان میں اس وقت کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی ویلیو کیا ہے؟ جنرل پاشا کے احسانات اور مدد امداد کی کتاب میں تسبیح پروئی گئی ہے لیکن اس جنرل پاشا کی مہربانیاں عمران خان کیلئے بیان کی جاتی ہیں۔ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی۔ کوٹ لکھپت جیل پنجاب میں تھی۔ عدالتی عمل لاہور میں چل رہا تھا۔ پنجاب حکومت کی مدد کے بغیر ریمنڈ ڈیوس جا نہیں سکتا تھا۔ امریکی سفیر سینٹر، پھر اس کا امریکی خارجہ کمیٹی کے سربراہ جان کیری اور سیکرٹری خارجہ (وزیر خارجہ) ہلیری کلنٹن اور ان سب کا باپ اس وقت کا امریکی صدر باراک اوباما ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے بے تاب تھے۔ حتیٰ کہ تنگ آ کر پاشا صاحب کی امریکن حکام کے سامنے ’’پیشی‘‘ بھی ہوئی اور حکم ملا کہ ’’تکلیف کیا ہے؟‘‘ بس پھر اس وقت کے آرمی چیف کیانی صاحب سے جنرل پاشا تک اور آصف علی زرداری صدر پاکستان سے معروف اور نمبر ون سیاسی طاقت و اپوزیشن رہنما میاں نواز شریف صاحب سب ایک صفحہ پر۔ پھر کیا کوئی شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب،کیا شاہ محمود قریشی جیسا نا اہل وزیر خارجہ اور کیا کسی رانا ثناء اللہ جیسے صوبائی وزیر کی جھوٹی بڑھکیں۔ سب بے معنی اور بے وقعت !!! دکھ تو بس اتنا ہے کہ ان سب کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور کب ’’سو دن چور دا تے اک دن شاہ دا‘‘ ہوگا؟ یہاں کبھی محمود الرحمن کمیشن رپورٹ نہیں آئی۔ یہاں تو کبھی ریمنڈ ڈیوس رپورٹ بھی نہ آئی۔ ریمنڈ کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ایبٹ آباد اسامہ واقعہ ہوا۔ کبھی اس کی رپورٹ نہیں آئیگی۔ کسی سرے محل سے پاناما کیس کی حقیقت رپورٹ بھی کبھی نہیں آئیگی۔ میمو گیٹ سکینڈل کی اصل رپورٹ کس کسی نے دیکھی؟ اجمل قصاب رپورٹ سے حقیقتاً کون آشنا ہوا؟ آ، جا کے بار بار ایک چیز ہی رپورٹ ہوتی ہے حسین حقانی، حسین حقانی۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
حسین حقانی وہ شخص تھا جس نے میاں نواز شریف کو بے نظیر کے مقابلہ میں قومی لیڈر بنانے میں صحافتی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو کی طرف چلا گیا اور میاں نواز شریف کو دوسری طرف مشاہد حسین سید میسر آگیا۔ اسی طرح ملیحہ لودھی کبھی بے نظیر بھٹو کی مخالف ہوتی تھیں۔ پھر دوست ہوئی، اس نے بطور ڈپلومیٹ بے نظیر کیلئے خدمات سر انجام دیں اور آجکل بھی میاں صاحب کی ٹیم کی اہم ڈپلومیٹ ہیں۔ بڑے بڑے نام، کیا یہ سب بھی کبھی ’’اوپن سیکرٹ‘‘ ایمانداری سے لکھیں گے کہ بڑے بڑے نام اور پاکستان کی ناکام ڈپلومیسی، ابھی حال ہی میں وزیراعظم پاکستان نے وزارت خارجہ کا دورہ کیا۔ آواز آئی کہ وزارت خارجہ کی تعریف و توصیف کی لیکن نوحہ یہ ہے کہ رونا دھونا تھا۔ پیارے وزیراعظم کو تو چار سالوں میں کوئی وزیر خارجہ نہیں ملا۔ دو مشیر ضرور بنائے قبلہ سرتاج عزیز اور محترم طارق فاطمی، طارق فاطمی ڈان لیکس کی نذر ہو گئے۔حسین حقانی کے کردار کی جس پر باربار نزلہ اس لئے گرتا ہے کہ محنتی‘ پڑھا لکھا اور دانشمند آدمی ہے مگر کمزور سیاسی بیک گرائونڈ کا حامل۔ آہ! غریب کی جورو سب کی بھابھی؟ سچ تو یہ ہے کہ ریمنڈ جس پاک امریکہ تعلقات کے راہ کی رکاوٹ بنا تو سب نے راہ کا روڑہ ہٹا کر تعلقات کی ترجیح چاہی۔ میں نے اپنے 2011ء کے نوائے وقت کے ایک کالم میں بھی یہ لکھا تھا۔ کون نہیں سمجھتا زرداری کو بقا، فوج کو جنگی ساز و سامان، نواز شریف کو امریکی سپریم کہانی اور مستقبل کی ضرورت تھی۔جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو کسی کے کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ شاہ محمود قریشی میں تنقید سہنے کی ہمت اور کردار ادا کرنے استطاعت نہیں تھی۔ ہر موقع پر دھڑلے سے کام جنرل پاشا آئے (بمطابق کتاب) اس وقت حسین حقانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ پڑھے لکھے اور معاملہ فہم شخص کا خیال تھا کہ ریمنڈ کو ایویں نہ چھوڑا جائے۔ اس نے قانونی طریقہ بتایا جو قصاص ہی بنتا تھا۔ یہ ہے قصور حسین حقانی کا۔ اور ہمارا اوپن سیکرٹ یہ ہے کہ اصل فیصلے کرنے والوں کو چھوڑا اور قلم کے مزدوروں پر برسانا ہمارے قومی کردار کی کمزوری کا آئینہ دار ہے! متوسط طبقہ کے حسین حقانیوں کو جہاں چاہا آگے رکھ لیا۔ اللہ مستقبل میں ملیحہ لودھیوں طارق فاطمیوں، پرویز رشیدوں اور سرل المیڈوں کو محفوظ رکھے۔
آخری عرض ، ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمارے لیڈر کم بادشاہ اور ہمارے اصلی اور نقلی ہر طرح کے دانشور تصویر کا ایک رخ نہ دیکھا کریں۔ یہ ’’دی کنٹریکٹر‘‘ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ مگر ہم اپنے حصے کا سچ کب شروع کرینگے۔ جہاں ایک طرف افغانی لاوہ دوسری جانب بھارتی فرعونیت تیسری جانب ایرانی مس انڈر سٹینڈنگ، چوتھی طرف سعودی جی حضوری، اوپر دہشتگردی اور نیچے کرپشن کا جغرافیہ ہو اور ہوں ہم گلوبل ولج کا نظریاتی چوک پھر چائنہ اور روس بھی ہم سے مفادات چاہیں اپنے گلوبل ولج سماج میں ججوں، ووٹرز، سیاستدانوں اور خارجی امور کے ماہرین کا صراط مستقیم مطلوب ہے ورنہ ہم عوام اور سیاست رلتے رہیں گے اور اشرافیہ خوش!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38