جنرل راحیل شریف اپنا یادگار عسکری باب لکھ کر رخصت ہوچکے نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے عسکری باب کا پہلا صفحہ لکھ کر قوم کے ان وسوسوں اور اندیشوں کو ختم کردیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کمزور پڑجائیگی اور ریاستی اداروں پر عسکری اخلاقی دباﺅ ختم ہوجائیگا۔ نئے آرمی چیف نے منصب سنبھالنے کے دوسرے ہی روز شمالی وزیرستان اور پشاور کور کا دورہ کرکے واضح کردیا کہ ”دہشت گردی کیخلاف آپریشن کے تسلسل کو نہ صرف جاری رکھا جائے گا بلکہ جنگ کی کامیابیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔ دہشت گردوں کو کبھی پاک سرزمین میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ پاکستان کا بیرونی دفاع اور اندرونی سکیورٹی آرمی چیف کی اولین ترجیح رہے گی“۔ وزیراعظم پاکستان کے فیصلے کی حوصلہ افزاءپذیرائی ہوئی ہے۔ انہوں نے میرٹ اور سنیارٹی کی بنیاد پر نامزدگیاں کرکے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا ہے۔ چارسینئر جرنیلوں میں سے پہلے نمبر پر سینئر موسٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نامزد کیا گیا ہے جبکہ چوتھے نمبر پر جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کا منصب سونپا گیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ نے جنرل اشفاق ندیم احمد اور جنرل جاوید اقبال رمدے کو فون کرکے درخواست کی کہ وہ پاکستان کو لاحق چیلنجوں کے پیش نظر ریٹائر نہ ہوں اور ان کو تقویت دیں۔ خدا کے کرم سے پاک فوج کے چاروں سینئر جرنیل ٹیم کی صورت میں اپنے دفاعی فرائض جاری رکھیں گے۔حکومتی وظیفہ خواروں اور ”شرپسندوں“ نے مذموم عزائم کے پیش نظر نئی نامزدگیوں کے بعد عسکری ادارے کے بارے میں مختلف نوعیت کی افواہیں پھیلانا شروع کردی تھیں جن کی ڈی جی آئی ایس پی آر نے بروقت تردید اور وضاحت کرکے افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا۔
خدا کے فضل سے پاک افواج ریاست کا عالمی معیار کا ادارہ ہے جبکہ دوسرے ریاستی ادارے پارلیمنٹ (مقننہ) عدلیہ اور حکومت (انتظامیہ) ابھی عالمی معیار کےمطابق مثالی اور مستحکم نہیں بن سکے۔ جب یہ ادارے معیاری بن جائینگے تو سول ملٹری عدم توازن ختم ہوجائےگا۔ حکمران چوں کہ ذاتی تشہیر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں کے اربوں روپے خرچ کردیتے ہیں مگر پاک فوج کے وقار اور ساکھ کا دفاع کرنے کی ذمے داری پوری نہیں کرتے لہذا عسکری ادارے کو براہ راست میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے تاکہ فوج اور عوام کے درمیان اعتماد برقرار رہے کیونکہ ملکی دفاع کا سب سے بڑا ہتھیار عوامی اعتماد ہی ہوتا ہے۔ ملک دشمن خفیہ ایجنسیاں فوج پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کیلئے اربوں روپے خرچ کررہی ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ ان ایجنسیوں کا کون کون آلہ کار بن رہا ہے۔ عسکری قیادت یکسو ہے کہ کرپشن ملکی سلامتی کیلئے دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے لہذا اس کیلئے زیرو ٹالیرینس ہونی چاہیئے۔ انشاءاللہ جنرل زیبر محمود حیات اور جنرل قمر جاوید باجوہ عوام کی توقعات پر پورے اُتریں گے اور جنرل راحیل شریف کی لیگیسی پر کاربند رہتے ہوئے تمام ریاستی اداروں کے استحکام کیلئے معاون ثابت ہوں گے۔
امریکی صدر جان ایف کینڈی نے 10جون 1963ءکو اپنے خطاب میں کہا ”ہمیں اس دنیا میں جنگی ہتھیاروں کے ذریعے نافذ کردہ ”امریکی امن“ درکار نہیں نہ ہی ہمیں قبرستان سا سکون یا غلاموں کی خاموشی و اطاعت چاہیئے۔ میں تو حقیقی امن کی بات کرتا ہوں وہ امن جس کے باعث اس کرہ¿ ارض پر زندگی قابل رشک ہوجائے۔ وہ امن جو انسانوں اور قوموں کو آگے بڑھنے اور اپنے بچوں کیلئے بہتر زندگی کی تعمیر کی اُمید دلائے۔ ایسا امن جو محض امریکی عوام کی بجائے پوری دنیا کے مرد و خواتین کیلئے ہو۔ وہ امن جو ہمارے اس دور کیلئے نہ ہو بلکہ دائمی اور مستقل امن ہو“۔ [ڈاکٹر مجاہد کامران: سانحہ ستمبر اور نیا عالمی نظام] کینیڈی کے اس بیان کے بعد ان کو 22نومبر 1963ء کو دن دیہاڑے ٹیکساس کے شہر ڈلاس میں ہزاروں لوگوں کے سامنے قتل کردیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ”سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کے تمام ادارے چند بے انتہا اور ناقابل تصور امیر خاندانوں کے ایک گروہ کے انتہائی پوشیدہ اور مستقل شکنجے میں گرفتار ہیں اور یہ خاندان خونیں رشتوں، باہمی شادیوں اور کاروباری مفادات کے ذریعے سے ایک دوسرے سے منسلک ہیں یہی خاندان امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی معیشت کو کنٹرول کرکے عالمی سیاست کو اپنے قابو میں کیے ہوئے ہیں“۔ امریکہ نے سائینس، ٹیکنالوجی، دفاع اور مستحکم معیشت کو ہتھیار کے طور پراستعمال کرکے دنیا پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ نوام چومسکی انسانیت اخلاقیات اور انسانی اقدار کے ترجمان ہیں وہ امریکہ کی اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں انہوں نے اپنی نئی کتاب "Who Rules the World" میں اعلیٰ بصیرت اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان محرکات کا جائزہ لیا ہے جن کی وجہ سے امریکہ نے دنیا کی سپر پاور کا درجہ حاصل کیا ہے۔
چومسکی لکھتے ہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ دنیا کے غیر مساوی ملکوں کا پہلا بالادست ملک بن گیا۔ امریکہ کی جمہوریت اس قدر نمائندہ نہیں ہے جتنی وہ بظاہر نظر آتی ہے۔ تاجر اشرافیہ کا امریکی فیصلہ سازی پر گہرا عمل دخل ہوتا ہے۔ اجارہ داریوں پر مبنی نظام کےخلاف امریکی عوام میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ امریکی جمہوریت کو چرالیا گیا ہے۔ امریکن کانگرس کارپوریٹ لابی اور دوسرے پریشر گروپوں کی آشیرباد کے بغیر کوئی قانون منظور نہیں کرسکتی۔ سیاسی جماعتیں کارپوریٹ سیکٹر سے بھاری پارٹی فنڈ وصول کرتی ہیں۔ بڑے سرمایہ دار اور بزنس مین امریکی معیشت کے اصل مسائل سے کوئی سروکار نہیں رکھتے بلکہ ان کو عوامی مسائل کی پرواہ ہی نہیں ہے۔ امریکی فلاسفر جان ڈیوی لکھتے ہیں کہ امریکی سیاست اور سوسائٹی تاجروں کے سائے میں چلتی ہے۔ نڈر اور بے باک مو¿رخ چومسکی لکھتے ہیں کہ انتخابات میں 72فیصد امریکی شہریوں نے رائے دی کہ بڑے سرمایہ داروں پر ٹیکس لگا کر بجٹ کا خسارہ پورا کیا جائے۔ 75فیصد عوام نے صحت کا بجٹ کم کرنے کی مخالفت کی مگر امریکی سیاسی نظام (جمہوریت) نے عوام کی خواہشات کا کبھی احترام نہیں کیا۔ موجودہ جمہوری نظام نے دولت اور اختیارات کے ارتکاز کو جنم دیا ہے۔ چند خاندان طاقتور ہوگئے ہیں جو اب امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک فیصد امریکی شہری اس قدر امیر ہوچکے ہیں کہ وہ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی اس کا تازہ منہ بولتا ثبوت ہے۔
نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ جوزف لکھتے ہیں کہ امریکہ اپنے سماج میں غیر معمولی عدم مساوات کے باوجود دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن گیا ہے حالاں کہ امریکی عوام کو مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں۔ یہ فرق ہمارے اپنے بنائے ہوئے قوانین کی وجہ سے ہے اور یہ فرق بڑھتا جارہا ہے۔ چومسکی کے مطابق دنیا کا یہ تاثر درست نہیں ہے کہ امریکی عوام پالیسیاں بناتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پالیسی سازی پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے۔ محدود اشرافیہ نہ صرف امریکی نظام کو چلاتی ہے بلکہ پس پردہ رہتے ہوئے پوری دنیا پر حکمرانی کرتی ہے۔ میڈیا اس اشرافیہ کی معاونت کرتا ہے۔ چومسکی لکھتے ہیں کہ امریکہ کی دنیا کے ممالک میں جمہوریت کی حمایت محض دکھاوے کیلئے ہوتی ہے جبکہ امریکہ تیل پیدا کرنیوالے ملکوں میں ان آمروں کی حمایت کرتا ہے جو مشرق وسطیٰ میں اسکے معاشی مفادات (تیل کی سپلائی اور کنٹرول) کا دفاع کرتے ہیں۔ حقیقت میں اشرافیہ جمہوریت کی مخالف ہوتی ہے لیکن اگر جمہوری ماڈل اسکے مقاصد پورے کرتا ہو تو وہ اپنے معاشی مفادات کیلئے اسکی حمایت کرتی ہے۔ چومسکی کے مطابق امریکہ "Rogue Supper Power" یعنی بدمعاش اور بے قابو سپر پاور ہے۔ امریکہ نے افغان جنگ پر 4.4ٹریلین ڈالر خرچ کردئیے اور اندرونی طور پر معاشی بحران کا شکار ہے مگر امریکہ مالی مسائل کے باوجود دنیا پر حکمرانی کرتا رہے گا اور چین و بھارت غربت اور دیگر مسائل کی بناءپر امریکہ کی اجارہ داری کو چیلنج نہیں کرسکیں گے۔ چومسکی کے وژن کے مطابق سوال یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ”دنیا پر حکمرانی کون کرتا ہے“ بلکہ سوال یہ ہونا چاہیئے کہ ”کن اقدار اور اُصولوں کی دنیا پر حکمرانی ہے“۔پاکستان میں بھی چند امیر ترین خاندان حکمرانی کررہے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024