وقت نیوز کے پروگرام اپنا اپنا گریبان میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی انتظامی کمیٹی کے رکن بریگیڈئیر سیمسن سائمن شیرف کے انٹرویو نے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔جمعے کی رات10بجے نشر ہونے والے اس انٹرویو میں سابق بریگیڈئیر نے یہ انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے اس وقت کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے تحریک انصاف کے کچھ رہنمائوں کولگڑ بگڑ(jackals)کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یہ سازش کی تھی کہ نواز حکومت غصے میں آکرآرمی چیف جنرل راحیل شریف کو عہدے سے ہٹا دے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے انٹرویو میں اُس ملاقات کا بھی ذکر کیا کہ جس میں بقول ان کے وزیراعظم نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام اور اُن کے چیلوں کی تحریک انصاف کے رہنمائوں سے گفتگو کی خفیہ ٹیلیفون ریکارڈنگ چلائی جس کے بعد جنرل راحیل نے فوری طور پر جنرل ظہیر الاسلام کو طلب کر کے انہیں وہ ٹیلیفون ریکارڈنگ سنوائی اور پوچھا کہ کیا میں نے آپ سے ایسا کرنے کو کہا تھا؟جس پر جنرل ظہیر الاسلام نے کہا "نہیں"۔ اس انٹرویو کے بعدمختلف آراء اور تجزیے سامنے آرہے ہیں اسلئے یہ مناسب ہو گا کہ اس انٹرویو کے اہم حصے حرف بہ حرف تحریر کر دئے جائیں تا کہ پڑھنے والے اور خاص کرتحریک انصاف کے رہنما اور حمایتی بآسانی اپنی اپنی تشریح جاری رکھ سکیں۔
نوٹ:- ضروری سوالات ، وضاحت اور ترجمے کو بریکٹ () میں لکھا گیا ہے۔
(اہم اقتباسات)
اصل کہانی یہ ہے کہ جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے اور انہوں نے تمام چیزوں کا جائزہ لیا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انہوں نے پاکستان کی مسلح افواج کو دہشت گردی کے خلاف ایک نئی جدت دینی ہے اور ان کی یہ assessment (تجزیہ) تھی اور ان کے جنرل اسٹاف کی، جس کے نیچے ملٹری آپریشن اور ملٹری انٹیلی جنس بھی آتا ہے کہ دہشت گردی کو ہم پاکستان سے جڑ سے نکال سکتے ہیں،یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ لہذا انہوں نے حکومت کے ساتھ اس کے اوپر سخت لائن لینے کے لئے بار بار بات کی۔ حکومت کبھی negotiation (مذاکرات) کبھی یہ۔ کبھی نیشنل ایکشن پلان۔ Finally(حتمی طور پر)جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب شروع کر دیا اور اسکی وزیراعظم صاحب نے بعد میں sanction (منظوری) دی اور اس کے اوپر زیادہ اخباروں میں بھی خبریں آئیں کہ اس کی announcement (اعلان) بھی۔جب یہ آپریشن شروع ہو گیا تو اس آپریشن کو سویلین سپورٹ چاہییے جو کہ اب بھی سو فیصد ہونی چاہئیے تھی، جو مشکل سے 10سے15فیصد ہے اس سے زیادہ نہیں ملی۔ اس پر ملٹری بڑی frustrated (تنگ) تھی۔ وہ ان کو push (دبائو ڈالتی ) تھی۔ اس pushing (دبائو ڈالنے) کو نواز شریف نے سمجھا کہ راحیل شریف صاحب میرے ساتھ ایک bulwark (مزاحمت) کر رہے ہیں۔ ان دونوں میں شک و شبہات پھیل گئے اور نواز شریف صاحب کے کانوں میں کسی نے ڈال دیا کہ جنرل راحیل شریف صاحب جو ہیں وہ عمران خان کی backing (پشت پناہی) کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ ظاہر ہے کہ ان کے جو حواری ہیں انکے advisers (مشیران) ہیں نواز شریف صاحب کے جو نورتن ہیں وہ اور ہو سکتا ہے ہمارے جو انٹیلی جنس ادارے۔۔۔، تو جنرل راحیل شریف کو adversary (مخالف) سمجھ لیا وزیراعظم نواز شریف نے کچھ شواہد دئیے ان کے اداروں کو آئی بی کے جس میں کچھ conversation (بات چیت) تھی جو کہ بظاہر کوئی آئی ایس آئی کے آفیشلزتھے، انکی بات چیت وغیرہ ہو رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں سے ان کو directions (ہدایات)وغیرہ دے رہے ہیں (سوال۔ اور جنرل ظہیر السلام بھی؟) ظاہر ہے سب۔ اب جب باتیں اخباروں میں آنے لگیں کہ پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن آرہا ہے اور نواز شریف صاحب کچھ جرنیلوں کوfire (نکال دیں) کر دیںگے تو (joint resolution of the joint parliament) (مشترکہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد) یہ سارا کچھ ہونا شروع ہو گیا۔ ابھی اس tension (تنائو)کے ماحول میں جو جنرل اسٹاف ہیڈ کوارٹر تھا جو جی ایچ کیو کا ،جس کے نیچے ملٹری آپریشن اور ملٹری انٹیلی جنس آتی ہیں اور جو tasking (کام سونپنا) کرتا ہے۔ آئی ایس آئی کی ان کو یہ فکر درپیش ہوئی کہ نواز شریف صاحب اس قسم کی حرکت پہلے بھی ایک دفعہ کر چکے ہیں۔اگر انہوں نے چار پانچ جرنیل فائر اس طریقے سے کر دیئے، فرق ہو نہ ہو، فرق چیز ہے۔
ملک کے لئے بہت بڑے crises (بحران) بن جائیں گے کہ ہم ایک فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ گئے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ پر اور stabilization of Afghanistan (افغانستان کا استحکام) تو پھرfinally (آخرکار)تنگ آکر، "اچھا بیچ میں انہوں نے راحیل شریف کو کہا کہ آپ negotiations (مذاکرات) کریں وہ تو خدا کو اس طرح کا منظور تھاکہ وہ مان بھی رہے تھے عمران خان نہیں مانے اور میرے خیال میں ہماری پارٹی کے لئے اور پاکستان کے لئے بہت اچھا ہوا کہ وہ یہ condition (شرط) نہیں مان رہے کیونکہ یہ آپ کو آئندہ پتہ چلے گا کہ کس کے فائدے"۔
تو یہ وہbait (جال) نہیں چلا، جو چارا پھینکتے ہیں مچھلی کو وہ نہیں چلا۔وزیراعظم صاحب نے کہا تھا (راحیل شریف کو کہ وہ مذاکرات کریں) اور بعد میں ایک petition (درخواست) بھی چلائی سپریم کورٹ میں جومیں نے کی، لیکن سپریم کورٹ نے ہماری پٹیشن کو رد کر دیا۔ وہ (راحیل شریف)جب وزیراعظم سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ جی اس طرح کی ہم خبریں سُن رہے ہیں، اِس کو آپ stabilize (مستحکم) کریں بڑےcritical(پیچیدہ) اسٹیج پر ہم ہیں، تو انہوں نے کہا کہ جی آپ تو ہمیں ہٹانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ سنیں، انہوں نے پھر سب کچھ سُنا دیا (آڈیو کیسٹ) بڑیadvance equipment (جدید مشینری) ہے، آئی بی کے پاس آپ کو تو پتہ ہے، رحمٰن ملک صاحب دے گئے تھے۔بہت ایڈوانس ہے۔ راحیل شریف صاحب نے کہا اسے روک دیں، ڈی جی آئی ایس آئی کو بلایا گیا، مجھے نہیں پتہ(یہ میٹنگ) کہاں پر ہوئی،وہ پھر جب ان کو بلایا گیاتو پھر دوبارہ سنی تو جنرل ظہیر الاسلام صاحب کو کہا (جنرل راحیل شریف نے)کہ بتائو ہوا ہے ایسے؟ تو انہوں (ظہیر الاسلام)نے کہا کہ "جی"۔ تو انہوں (جنرل راحیل شریف) نے کہا کہ (کیا) میں نے تمہیں کہا تھا؟ (تو ظہیر الاسلام نے کہا)"نہیں"۔ تو انہوں نے (راحیل شریف) نے کہا کہ "آپ جائیں"۔ تو اس کے بعد یہ تھیوری ختم ہو گئی کہ جنرل راحیل شریف "پی ٹی آئی" کی backing(پشت پناہی) کر رہے تھے۔
(سوال: مگر ایک تھیوری تو ثابت ہو گئی کہ ظہیر الاسلام صاحب ٹیلیفون پر گفتگو کرتے رہے ہیں اور وہ تحریک انصاف کے ساتھ رابطے میں رہے؟)
مگر اس کا ایک مقصد تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ نواز شریف صاحب تنگ تھے راحیل شریف صاحب سے اور وہ پچھتا رہے تھے اور وہ بھی اپنی مرضی کا نیا آرمی چیف لانا چاہتے تھے۔ لیکن یہ ہوا نہیں اور میرے خیال میں (تحریک انصاف والوں کے ساتھ ٹیلیفون گفتگو ظہیر الاسلام کو اپنی نہیں بلکہ) اُن کے کوئی ایجنٹس وغیرہ کی تھی جوprompt (اُکسانا) کر رہے ہوں گے مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ (They were not from ISI).(وہ آئی ایس آئی سے تعلق نہیں رکھتے تھے) (They are not tunny type of front men).(وہ سب مزاحیہ کردار جیسے فرنٹ مین تھے) بس کسی بھی قسم کے تھے(They were impersonating perhaps it was (all) in knowledge of Gen. Zaheerulislam.) (غالباــــ وہ کسی اور شخص کا کردار ادا کر رہے تھے اور یہ سب جنرل ظہیر الاسلام کے علم میں تھا) تو دھرنے کی جو اصل گیم تھی وہ یہ نہیں تھی کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانا تھا وہ گیم تھی (to change the chief of Army staff).(آرمی چیف کو تبدیل کرنا)۔ مگر وہ (پی ٹی آئی کی قیادت کو)استعمال نہیں کر سکے۔ جس کی کوشش انہوں نے ضرور کی۔ )……جاری ہے………)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024