بالائی پنجاب پھوٹھوہار ‘میانوالی ‘اٹک‘بہاولپور ‘خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں بے روزگاری کی شرح ملک کے دیگر علاقوں سے بہت زیادہ ہے اس لئے ان علاقوں کی اکثریت کا تعلق ٹرانسپورٹ کے پیشے سے ہے۔جو اپنی زندگی کی جمع پونجی خرچ کر کے گڈز ٹرانسپورٹ یا آئل ٹینکر خرید کر نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں بلکہ ایک آئل ٹینکر ٹریلر سے درجنوں گھروں کا روزگار وابستہ رہتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں سیاسی طور پر ہمیشہ حکمران جماعت کو ہی ووٹ ملا ہے۔
ٹرانسپورٹ انڈسٹری بلواسطہ اور بلا واسطہ 20 طرح کے ٹیکس دینے والی ایسی انڈسٹری ہے جسے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے کے باوجود نہ تو حقوق حاصل ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر ان کے جائز ترین مطالبات پر کبھی غور کیا گیا بلکہ ہر چوک پر کھڑا عام سپاہی بھی اس کا ممکن حد تک معاشی استحصال کرنے کو تیار نظر آتا ہے ۔ٹرانسپورٹ انڈسٹری خصوصا آئل ٹینکر انکم ٹیکس کے علاوہ ایکسائز رجسٹریشن‘ڈپ چارٹ‘ فٹنس‘ پرمٹ‘ ایکسپلوزیو نقشے‘ کسٹم سمیت درجنوں بھاری اخراجات کر رہی ہوتی ہے اور اسکے بعد ٹائر ‘اسپئر پارٹ فیول یعنی ہر قدم پر بھاری ادائیگی معمول کا حصہ ہے۔ کرایوں میں اضافہ کرنے کا حکومت نے آج تک کوئی فارمولہ طے ہی نہیں کیا۔مہنگائی کے اس دور میں بہ مشکل خلوص نیت اور حب وطنی سے وطن عزیز کو پیٹرولیم مصنوعات کی بلا تعطل فراہمی میں کوشاں ہے۔ ملک کے نازک حالات کے پیش نظر اپنے جائز مطالبات کو بھی پس پشت ڈال کر ہمیشہ کی طرح جذبہ حب الوطنی کے تحت اپنے کام میں مگن تھے کہ اچانک احمد پور شرقیہ کا معمول کا حادثہ وفاقی‘صوبائی حکومتوں اور اہم قومی اداروں کی سنگین ترین لاپرواہی سے سانحہ میں تبدیل ہوگیا۔کوئی بھی سرکاری ادارہ اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں۔آئل ٹینکر الٹنے کے بعد موقع پر موجود موٹر وے پولیس‘پنجاب پیٹرولیم پولیس اور چندگز کے فاصلے پر موجود مقامی پولیس لوگوں کو حادثے کے شکار آئل ٹینکر تک جانے سے نہیں روک سکی۔حالانکہ سانحہ احمد پور شرقیہ کے بعد رونما ہونے والے ایسے حادثات کو سانحہ میں تبدیل ہونے سے کامیابی سے روکا جا رہا ہے۔
نیشنل ہائی وے آرڈیننس سن2000میں نافذ ہوا۔جس کے نفاذ کو17برس مکمل ہو چکے ہیں اور اس دوران بننے والے تمام آئل ٹینکرز نہ صرف نیشنل ہائی وے آرڈیننس کےمطابق تھے بلکہ ملک بھر میں این ایچ اے اور موٹر وے پولیس کی موجودگی میں چل رہے ہیں۔نیشنل ہائی ے آرڈیننس میں گڈز ٹرانسپورٹ کیلئے فی ایکسل 13.333 ٹن وزن بمع گاڑی منظور ہے یعنی6ایکسل کے ٹریلر کو 80 ٹن بمع گاڑی آزادانہ سفر کرنے کی اجازت ہے اور اسی فارمولے کے تحت تمام آئل ٹینکرز بھی برسا برس سے بن کر چل رہے ہیں۔سانحہ احمد پور شرقیہ کے بعد ایک مخصوص میڈیا گروپ نے بے بنیاد طور پر سانحہ احمد پور شرقیہ کا ذمہ دارآئل ٹینکر اور آئل مارکیٹنگ کمپنی کو ٹھہرایا حالانکہ اسی میڈیا گروپ نے سانحہ احمد پور شرقیہ کے مطابق میرا بھی انٹرویو کیا لیکن اسے بد نیتی کی وجہ سے شائع نہیں کیا گیا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے اوگرا ‘این ایچ اے اور ایکسپلوزیو ڈیپارٹمنٹ نے آئل ٹینکرز کا بد ترین معاشی استحصال شروع کر رکھا ہے جس سے یقینی طور پر آئندہ انتخابات میں حکمران جماعت کو بھاری نقصان پہنچے گا اور دوسری طرف ان اداروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کرایوں میں کم از کم 0اضافہ کرنا ہوگا بصورت دیگر ان اداروں کی ڈکٹیشن پر آئل ٹینکر چلانا نا ممکن ہوگا۔بہتر تو یہی ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ان اداروں کو لگام دیں اور آئل ٹینکر کو 13.333ٹن فی ایکسل وزن کے مطابق چلتا رہنے دیں کیونکہ کنٹینر‘ٹریلر وغیرہ بھی اسی فارمولے کے تحت آزادی سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں اور این ایل سی کے 52000ہزار لیٹر کے آئل ٹینکر بھی ملک بھر میں چل رہے ہیں۔کیا این ایل سی جیسا قومی ادارہ این ایچ اے ‘اوگرا اور ایکسپلوزیو ڈیپارٹمنٹ کے قوانین پر عمل درآمد کا پابند نہیں۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ان اداروں کو فوری طور پر آل پاکستان آئل ٹینکر اونر ایسوسی ایشن سے مناسب معاہدہ کا پابند بنائیں۔
میری آپ سے یعنی NHAاور موٹر وے پولیس سے درخواست ہے کہ میرے ساتھ کراچی سے لاہور تک سفر کریں اور ان گاڑیوں کو دیکھیں ۔
گاڑیوں کا وزن کم ہونے سے کرایہ لاہور کا 6000روپے ٹن ہوگا اب یہ کرایہ 3500روپے فی ٹن ہے اسی طرح48000کا آئل ٹینکر اوگرا اسٹینڈ کے مطابق کرایہ کراچی سے ماچھکے تک 0اضافہ ہوگا۔یہ سارا کا سارا بوجھ 20کروڑ عوام پر پڑیگا جس سے ملک میں بدامنی پھیلے گی۔ گڈز ٹرانسپورٹ اور پاکستان آئل ٹینکر ملکر ہڑتال کی بھی کال دے سکتے ہیں اور آنیوالے انتخابات میں مسلم لیگ ن کا بہت ہی نقصان ہوگا۔ پانا مہ فیصلے سے مسلم لیگ ن کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا کہ اوگرا‘NHA‘موٹر وے اور ایکسپلوزیو کی وجہ سے ہوگا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024