قائداعظم وژنری لیڈر تھے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے دنیا کے اس خطے میں واقع ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ جرمن وزیر خارجہ فرینک والٹر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’ایشیا کا کوئی راستہ اسلام آباد کے بغیر ممکن نہیں‘‘۔ پاکستان کی اہمیت دنیا جانتی ہے مگر افسوس پاکستان کو قائداعظم کے بعد کوئی قوم پرست لیڈر نہ ملا جو پاکستان کی اہمیت کا درست ادراک کرتے ہوئے پاکستان کو ایشیا کا مضبوط، مستحکم اور خوشحال ملک بنا دیتا۔ ہم نے خاندانوں کی سلطنتیں بنتی دیکھیں مگر پاکستان آج بھی پس ماندہ، غریب اور مقروض ملک ہے۔ امریکہ کے صف اول کے مصنف باب وڈ اپنی کتاب "Obama's War" میں لکھتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ کی رائے ہے۔ ’’پاکستان کی اکانومی کو مستحکم رکھا جائے اگر پاکستان معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوگیا تو دہشت گردی شہروں تک پھیل جائے گی۔ ہم افغانستان کو پاکستان کی معاونت کے بغیر کنٹرول نہیں کرسکتے‘‘۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے سیاسی اور عسکری لیڈر اپنے قومی مفادات کا پوری طرح تحفظ کرنے میں ناکام رہے۔ قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس کا دورہ پہلے سے طے تھا اس کا پاک بھارت حالیہ کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان جن علاقوں میں عالمی امن کی جنگ لڑرہا ہے ان علاقوں میں امریکہ، برطانیہ اور روس جیسی عالمی طاقتیں ناکام ہوچکی ہیں۔ شمالی وزیرستان میں افواج پاکستان کی قربانیوں اور کامیابیوں کی مارکیٹنگ سیاسی و عسکری قیادت کو کرنا ہے۔ امریکی مشیر نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی اور ان کو امریکی صدر اوبامہ سے اکتوبر میں ہونے والی ملاقات کا ایجنڈا دیا اور ان کو دو ٹوک پیغام دیا کہ امریکہ انکے دورے اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پیش رفت کے بارے میں منتظر رہے گا۔ ایک سینئر امریکی افسر کے مطابق سوزن رائس نے واضح الفاظ میں کہا ’’امریکہ کو کابل میں دہشت گردی کے خطرناک حملوں پر تشویش ہے جو حقانی نیٹ ورک نے کیے ہیں۔ امریکہ کیلئے یہ حملے ناقابل قبول ہیں۔ پاکستان یہ خطرہ ختم کرے‘‘۔وزیراعظم نے بھارت کی حالیہ جارحیت اور مذاکرات کے بارے میں بھارتی سرد مہری کے بارے میں آگاہ کیا۔
امریکی عالمی سفارتکاری کے بڑے ماہر ہیں۔ سخت پیغام ہمیشہ سیاسی قیادت کو دیتے ہیں۔ امریکی مشیر نے یاد دلایا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی 300ملین ڈالر کی قسط ڈیفنس سیکریٹری کے سرٹیفکیٹ سے مشروط ہے۔ رائس نے ان ’’خصوصی اقدامات‘‘ کا ذکر کیا جو پاکستان کو اُٹھانے ہیں۔ امریکی وفد نے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز اور انکی ٹیم سے وزارت خارجہ میں ملاقات کی جس میں وزیراعظم پاکستان کے امریکی دورے کی تفصیلات طے کی گئیں۔ پاک بھارت کشیدگی اور افغانستان میں امن کے قیام پر مفصل تبادلہ خیال کیا گیا۔ سرتاج عزیز نے امریکہ کے ساتھ معاشی تجارتی، تکنیکی اور جوہری تعاون پر بھی بات کی۔ امریکی مشیر رائس نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اور شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی قربانیوں اور کاوشوں کو سراہا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق جنرل راحیل شریف نے پر اعتماد لہجے میں امریکی مشیر کو باور کرایا کہ افغانستان میں مستقل امن کا قیام تمام سٹیک ہولڈرز کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
سوزن رائس نے پاکستان کے دورے کے اختتام پر میڈیا اور عوام کیلئے یہ ٹویٹ جاری کیا۔ ’’پاکستانی قیادت پر واضح کیا کہ مشترکہ ترجیحات سے نمٹنے کے لیے تعلقات کیسے گہرے کئے جائیں اور خطے میں امن اور استحکام کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان کی حوصلہ افزائی کی‘‘۔ وزیراعظم پاکستان کا دورہ امریکہ بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔ توقع ہے کہ وزیراعظم اس دورے کی سنجیدگی کے ساتھ پوری تیاری کرینگے اور اس سلسلے میں عسکری اور سیاسی قیادت کا قومی مؤقف ایک ہی ہوگا اور پاکستان کو اوفا (روس) جیسے سیٹ بیک کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا اور امریکی دورے کے بعد انڈر سٹینڈنگ مس انڈرسٹینڈنگ میں تبدیل نہیں ہوگی۔ باری تعالیٰ ہمارے لیڈروں اور حکمرانوں کو نیشل ازم کی دولت سے مالا مال کردے تو پاکستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے گا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ امریکہ چین اور پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کیلئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا ہے۔
بھارت نے ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری کرکے آٹھ پاکستانیوں کو شہید کردیا جبکہ درجن سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیاں بلاجواز اور قابل مذمت ہیں۔ بھارت کو ضرب عضب کی کامیابیاں ہضم نہیں ہورہیں۔ بھارتی قیادت نہیں چاہتی کہ پاکستان اندرونی طور پر مستحکم ہوجائے حالانکہ بھارت کا استحکام اور امن پاکستان کے استحکام اور امن سے وابستہ ہے۔ بھارت کے علاوہ عالمی طاقتیں تسلیم کرتی ہیں کہ پاکستان کا استحکام عالمی امن کیلئے بے حد ضروری ہے۔ بھارت کے لیڈر پاکستان کو سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بروقت اور دو ٹوک الفاظ میں بھارت کو انتباہ کیا ہے کہ اگر بھارت نے جارحیت کی تو اس کو ایسا سبق سکھایا جائیگا کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ پاکستان اپنی سلامتی اور بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ ان حالات میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو متفق ہونا چاہیئے تھا مگر افسوس ان کو پاکستان کی سلامتی کی کوئی فکر نہیں ہے اور انہیں اپنے گروہی و سیاسی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ ان میں سے اکثر جماعتیں بھارتی جارحیت کی مذمت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتیں۔پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری کے سخت بیان نے سیاسی طوفان برپا کردیا ہے۔ یہ طوفان اگر اصلی اور حقیقی ہے تو مڈ ٹرم انتخابات کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے اور اگر یہ بیان وقتی اور عارضی ہے تو اس کا مقصد دبائو ڈال کر اپنے قریبی ساتھیوں کو احتساب سے بچانا بھی ہوسکتا ہے۔قومی اسمبلی کے سابق سپیکر فخر امام جن کی عالمی اور پاکستانی سیاست پر گہری نظر ہے کراچی میں قیام کے دوران سندھی دانشوروں، بیوروکریسی اور سیاستدانوں سے ملاقات کرتے رہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کرپشن کیخلاف پورے پاکستان میں آپریشن شروع نہ کیا گیا تو سندھ میں نفرت کے جذبات جنم لیںگے جو قومی یکجہتی کیلئے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔
پاکستان وژنری فورم کی ایک نشست ڈاکٹر محمد صادق کی صدارت میں ٹیک کلب میں ہوئی جس میں پاک بھارت تعلقات اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی افواج کی جانب سے پاکستان کی سول آبادی پر اشتعال انگیز گولہ باری پر تفصیلی غور و فکر کیا گیا۔ پاک بھارت تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے نوجوان دانشور صحافی سلمان عابد اس فکری نشست کے گیسٹ سپیکر تھے۔ شرکاء نے بھارت کی کھلی جارحیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے اور اپنے گرتے ہوئے گراف کو سہارا دینے کیلئے ورکنگ بائونڈری پر اشتعال انگیزی کررہے ہیں۔ انہوں نے افواج پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں پر اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کے دفاع کیلئے پوری قوم متحد ہے اور بھارت کبھی اپنے ناپاک عزائم پورے نہیں کرسکے گا۔ پاکستان اور بھارت کے تمام متنازعہ امور بشمول کشمیر اور پانی پر امن مذاکرات سے ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔ شرکاء نے حکومت پر زور دیا کہ فوری طور پر کل وقتی وزیر خارجہ تعینات کیا جائے۔ بھارتی ایجنسی را کی پاکستان کے اندر مداخلت کے ثبوت سلامتی کونسل میں پیش کیے جائیں۔ پاکستان کی سفارتکاری کو مؤثر، فعال اور معیاری بنایا جائے۔ قومی اتحاد اور یکجہتی کیلئے مناسب اقدامات اُٹھائے جائیں۔ وژنری فورم کی نشست میں ڈاکٹر عطیہ سید، ڈاکٹر حسیب اللہ، آئی ایم ایف کے سابق مشیر خالد محمود سلیم، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، پروفیسرمشکور احمد، کرنل (ر) وحید حامد، انجینئر محمود الرحمن چغتائی، عمران افضل، انجینئر محمد عظیم اور یعقوب چوہدری نے اظہار خیال کیا۔ ٹیک کلب کے منیجر محمد ندیم نے فکری نشست کے انتظام و انصرام کے فراض انجام دئیے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024