اگر کراچی سے پشاور تک ذہنوں میں یہ سوال کلبلائے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جس پارٹی کے نام پر پیپلزپارٹی وفاق میں پانچ سال اور سندھ میں تاحال اقتدار میں رہی اس کے سربراہ مخدوم امین فہیم اور دیگر اہم افراد کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں پر آصف زرداری اور دیگر رہنما اس قدر سیخ پا نہیں ہوئے جس قدر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر وہ حکومت اور ریاستی اداروں سے ٹکرانے پر بھی تیار نظر آتے ہیں، تو آخر یہ ڈاکٹر عاصم ان سب سے زیادہ اہم کیوں ہو گئے اور کیا واقعی پیپلزپارٹی کے جیالوں کا ڈاکٹر عاصم سے ایسا جذباتی تعلق ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل کر فوج سے بھی ٹکرا جائینگے۔ جائزہ لیا جائے تو ڈاکٹر عاصم نہ کبھی پارٹی کے لیڈر رہے نہ سرگرمیوں میں پیش پیش نظر آئے اور نہ ہی پارٹی کیلئے کوئی ایک خدمت بھی انکے دفتر عمل میں ہے پھر آخر انکی گرفتاری نے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ صفوں میں بھونچال کی کیفیت کیوں پیدا کر دی ہے دراصل ڈاکٹر عاصم وہ ’’طوطا‘‘ ہیں جس میں اعلیٰ قیادت کی جان ہے۔ اس طوطے کی گردن جتنی مروڑی جائیگی اتنا ہی اعلیٰ قیادت کی گردن میں پھندا سخت ہوتا چلا جائیگا اس خدشے سے دھیمے مزاج کی شہرت کو شعلہ جوالہ میں تبدیل کر دیا لوگ حیران ہو کر سوال کر رہے ہیں کہ کراچی میں آپریشن تو فوج کی نگرانی میں رینجرز کر رہی ہے زرداری اس پر مشتعل ہو کر نوازشریف کو لتاڑ رہے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس معاملے میں تو نوازشریف پر ’’مختاری‘‘ کی تہمت بھی نہیں ہے اس سلسلے میں نوازشریف کے پاس انہیں کچھ دینے کیلئے اسی طرح نہیں ہے جس طرح ایم کیو ایم کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ دراصل آصف علی زرداری نے ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی تڑی لگانے کا نتیجہ ملک سے فرار کی صورت بھگتا ہے لہٰذا اب پنجابی کی ایک کہاوت ہے ’’کہنا بیٹی کو سنانا بہو کو‘‘ کا انداز اختیار کیا گیا ہے اور یہ جو ماڈل ٹاؤن لاہور کے واقعہ کے ڈاکٹر طاہرالقادری کے نامزد ملزمان، فراڈ کیس کے عاصم ملک سے پیسے پکڑنے کے حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد کی وڈیو، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا منی لانڈرنگ سے متعلقہ مبینہ بیان اور دیگر واقعات کا حوالہ دے کر انکے ملزمان کو پکڑنے اور صرف سندھ، پیپلزپارٹی کو نشانہ بنانے کی شکایت بھی آپریشن کے ذمہ داروں کی جانبداری ثابت کرنا ہے چنانچہ عمومی طور پر یہ تاثر ہے کہ اصل قوتوں کی بجائے توپوں کا رُخ نوازشریف کی طرف موڑنے کی کوشش رائیگاں ہی جائیگی کیونکہ وہ انہیں مطلوبہ ریلیف دلانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کا کراچی آپریشن پر ردعمل تو سمجھ میں آتا ہے کہ بات بہت ’’اوپر‘‘ تک جائیگی اے این پی کیوں اس کی ہم زبان نظر آنے لگی، اسفندریارولی نے بھی دھمکی دی کہ کسی انتقامی کارروائی کو تسلیم نہیں کرینگے، اے این پی کے لیڈر زاہد خان نے کہا کہ آصف زرداری کی بات کسی حد تک درست ہے کہ انتقامی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ کراچی آپریشن ایسا ’’جادو‘‘ ہے کہ اندیشے اور خدشات خود بولنے لگے ہیں۔ جناب اسفندر یار ولی کے دوبئی میں کاروبار اور ہوٹل وغیرہ کی خبریں اے این پی کے وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کے دور میں ’’ایزی لوڈ‘‘ کے قصے کہانیاں پورے خیبر پی کے میں زبان زدِ خاص و عام رہی ہیں۔ مسلم کمرشل بنک کے میاں منشاء سے بھی کئی بار نیب کی جانب سے پوچھ گچھ ہو چکی ہے۔ ایک سو پچاس میگا سکینڈلز میں سے 6 نمبر اور 20 نمبر کا تعلق ان سے ہے۔ وفاقی وزراء اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق کے حوالے سے بھی نیب میں کوئی اچھی خبریں نہیں ہیں جبکہ نیب کے ذرائع کے مطابق پنجاب کے دو وزراء بھی آئندہ ہدف ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ایل ڈی اے کے بیرون ملک فرار ہونیوالے پٹواری نواز کو بھی واپس لانے کی تیاریاں ہو ہی ہیں۔ اسکی واپسی اور تحقیقات کا نتیجہ چودھری برادران کیلئے کوئی خوشگوار صورتحال کو جنم نہیں دیگا ۔
سندھ میں چیف سیکرٹری بعض سیکرٹریز، کچھ سابق اور موجودہ وزراء کی ضمانتوں کی منسوخی کی خبریں بھی جلد منظر عام پر آنیوالی ہیں اس مشکل کے دور میں سندھ حکومت کے ترجمان شرجیل میمن کی ’’پُر اسرار گمشدگی‘‘ بھی معنی خیز ہے۔ صحت کی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے پہلے ڈاکٹر عاصم پر پی ایم ڈی سی تباہ کرنے کا الزام لگایا بعد ازاں اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر اس سے مکر گئیں۔
آصف زرداری کے دھمکی آمیز بیان کے جواب میں وزیراعظم نوازشریف کا یہ بیان کہ کرپشن پر سودے بازی نہیں ہوگی، سکیورٹی فورسز کا مورال گرنے نہیں دینگے، وفاقی حکومت کراچی آپریشن میں فوج سے بھرپور تعاون کر رہی ہے اس لئے اس حکومت کے فوری طور پر گرنے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن اگر یہ تعاون نہ ہو تو بھی آپریشن کے ذمہ داروں نے اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے اور ظاہر ہے فوج سول اداروں کی طرح کوئی کام اندھا دھند نہیں کرتی بلکہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر کارروائی کا آغاز کرتی ہے۔ چنانچہ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہوگا کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں بالخصوص پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی مل کر داخلی طور پر ایسا سیاسی محاذ گرم کر سکتی ہیںجس سے آپریشن کی رفتار متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ بھی اہم سوال ہے کہ کیا اس گٹھ جوڑ کا تحریک انصاف بھی حصہ بن سکتی ہے وہ یقینی طور پر کرپشن کیخلاف آپریشن کی مخالفت تو نہیں کریگی مگر دشمن کا دشمن دوست کے مصداق نوازشریف سے سیاسی عناد پیپلزپارٹی سے اس بنیاد پر تعاون کی راہ ہموار کر دے کہ اس طرح نوازشریف کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف نے ایسا فیصلہ کیا تو یہ اپنی ساکھ کو خود ملیامیٹ کرنے والا غیر دانشمندانہ قدم ہوگا۔ تاہم تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں نے ایسے کسی امکان سے اتفاق نہیں کیا ہے بلکہ کہا ہے کہ ہم پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دونوں کی کرپشن کیخلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ کرپشن کیخلاف کارروائی میں رکاوٹ کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں۔
ادھر حکومتی پارٹی نے آصف زرداری کے بیان کے حوالے سے دفاعی پوزیشن اختیار کر لی ہے اور اس بیان کو آصف زرداری کی غلط فہمی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت پیپلزپارٹی کے لیڈران کیخلاف کچھ نہیں کر رہی اگرچہ انکی جانب سے آصف زرداری کی ناراضگی دور کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں اس حوالے سے بعض حلقے مولانا فضل الرحمن کا کردار بھی دیکھ رہے ہیں۔
دریں اثنا چند روز میں ہی ڈاکٹر عاصم اتنا کچھ اُگل چکے ہیں کہ اسکی روشنی میں جو آئندہ چند روز میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں ہوں گی جسے تمام سیاسی جماعتوں کا ’’گٹھ جوڑ‘‘ نہیں روک سکے گا اور اہم شخصیات کی گردن پھندے سے نہیں بچ سکے گی۔ آپریشن کے ذمہ داروں کے عزائم سے اسکی نشاندہی ہوتی ہے اور ان عزائم کی منطقی انجام تک پہنچنے کی روشن دلیل یہ ہے کہ کراچی سے پشاور تک تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے یا نہ رکھنے والے عوام اس آپریشن کی پشت پر ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38