قیام پاکستان کی بنیاد اور اساس میں عدل اجتماعی کا اہتمام مقصود تھا جس کیلئے ضروری تھا کہ پاکستان حقیقی معنوں میں ایک جمہوری اور قانون کی حکمرانی پر ایمان رکھنے والا ملک بنے یہاں میرٹ کا دور دورہ ہو اور یہاں احتساب اور جوابدہی کے ایسے ہی کڑے معیار نافذ کئے جائیں جیسے مغربی ممالک میں موجود ہیں تاکہ سماجی اور معاشی ناانصافیوں کے پھیلتے سایوں سے عوام کو محفوظ رکھا جا سکے مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمران منصفانہ احتساب کا کوئی ایسا نظام نافذ نہ کر سکے جس سے پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور بھی مستحکم ہوتا اورکرپشن کے امکانات بھی قابل لحاظ حد تک کم ہو جاتے لیکن مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران ہوں یا ماضی کے حکمران خصوصاً80کی دہائی کے بعد انہوں نے اس ملک میں بدعنوانی‘ کرپشن‘ اقربا پروری اور قانون شکنی کے ناسور کو بری طرح پروان چڑھایا۔ آج نیب اور ایف آئی اے کے ادارے جن کا کام بیورو کریسی اور حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنا ہے اور انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوانا ہے، وہ معمولی نوعیت کے کیسز میں تو محض لیپا پوتی کرنے کیلئے کارروائی کرتے ہیں مگر آج تک پاکستان میں کرپشن‘ ٹیکس نادہندگی‘ کالا دھن منی لانڈرنگ‘ رشوت‘ سرکاری زمینوں کی ناجائز الاٹمنٹ پر کبھی احتساب بیورو نے کوئی مو¿ثر کارروائی نہیں کی اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کی جرا¿ت رکھتے ہیں کیونکہ اعلیٰ عدلیہ ‘ اعلیٰ فوجی اور سول بیورو کریسی اور بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز کےخلاف وہ کارروائی کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے کیونکہ انسداد کرپشن سے وابستہ اکثر افسران ہائی پروفائل مجرموں سے مک مکا کر لیتے ہیں یا ان ہائی پروفائل کرپٹ ٹائیکونز کے ہاں سرکاری ملازمتوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد نوکریاں حاصل کر لیتے ہیں۔ سابق آئی جی موٹروے محترم ذوالفقار چیمہ نے ایک معاصر اخبار میں اپنے کالم میں ذکر کیا کہ وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر نے پولیس فا¶نڈیشن پر دبا¶ ڈال کر 5 کروڑ کا کمرشل پلاٹ اپنے نام الاٹ کروایا اور دوسرے دن ہی اسکو بیچ بھی ڈالا حالانکہ وہ اعلیٰ افسر اسکا قطعی طور پر استحقاق نہ رکھتا تھا۔ آج ایک اور اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کے کئی افسران پولیس فا¶نڈیشن میں زبردستی پلاٹس حاصل کرتے ہیں جبکہ یہ فا¶نڈیشن ملازمت کے دوران شہید ہونےوالے افسران کی بیوا¶ں کو پلاٹ الاٹ کرنے کی پابند ہے مگر سابق پولیس افسر ظفر قریشی کی تحقیقات کیمطابق انجم عقیل اور اعلیٰ پولیس افسران نے اربوں روپے کی کرپشن کی اور سپریم کورٹ میں اسکے مقدمات زیر سماعت ہیں مگر ایک اطلاع کیمطابق جب پولیس فا¶نڈیشن کے ایم ڈی نے مذکورہ بالا اعلیٰ افسر کو سپریم کورٹ کی پلاٹوں کی خرید و فروخت اور الاٹمنٹ پر پابندی سے آگاہ کیا تو مذکورہ اعلیٰ افسر نے کہا مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں۔ واقعی وہ اعلیٰ افسر اسقدر طاقتور ہے کہ کوئی شخص میڈیا میں اسکا نام لینا بھی گورا نہیں کرتا۔ سینٹ کے انتخابات میں فاٹا میں ایک ووٹ کی خریداری کی قیمت چالیس کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ عمران خان نے بتایا کہ اسے سینٹ کے ٹکٹ کے عوض ایک شخص نے شوکت خانم کے ہسپتال کیلئے 15 کروڑ روپے کی ڈونیشن آفر کی۔ آج پاکستان سے کھربوں روپوں کا کالا دھن دوبئی منتقل ہوتا ہے اور پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں بڑے بڑے پراجیکٹس میں لگا دیا جاتا ہے جب روپے کی قدر میں کمی سے انکی غیر ملکی کرنسی کی قوت خرید میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہو۔ پاکستان میں ہمیشہ سے اپوزیشن قومی انتخابات میں کرپشن کیخلاف کڑے احتساب کے نعرے لگاتی ہے مگر پھر کوئی این آر او جاری ہو جاتا ہے یا پھر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن اور باری باری حکمران بننے کے معاہدے سے ایک دوسرے کی کرپشن پر پردہ پوشی کی جاتی ہے اور ایسا چیئرمین نیب لایا جاتا ہے جو دونوں کے مفادات کا خیال رکھے۔ آج پاکستان میں کرپشن کے محاسبے کیلئے بہت سے ادارے قائم ہیں لیکن اسکے باوجود ہماری اشرافیہ چاہے وہ سیاستدان ہوں، وزراءیا ممبران پارلیمنٹ ہوں، انکا تعلق سول اور ملٹری بیورو کریسی سے ہو انکی اکثریت (استثنا صرف ان کو حاصل ہے جو یا بزدل ہیں یا انہیں موقع یا مناسب منفعت بخش عہدہ نہیں ملا ہے) روٹین کیمطابق مسائل زدہ عوام کو پریشان اور انکا استحصال کرنے میں مصروف ہے۔ سرکاری دفاتر عوام کی پریشانیوں میں اضافے کی فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے عدالتیں موجود ہیں مگر نہ تو دہشت گردوں کو سزائیں دی جا رہی ہیں اور نہ ہی دہشت گردی میں کمی واقع ہو رہی ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کو اپوزیشن اس بنا پر کھلے دل سے تسلیم کرنے سے عاری ہے کہ انکے خیال میں پیسے کی چمک سے 2013ءکے الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔ عمران خان نے تو کھل کر اسکے الزامات سابق چیف جسٹس اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب پر لگائے ہیں اور وہ موجودہ سیاسی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کیلئے انتخابات میں کرپشن کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے پر مصر ہیں جس پر ابھی تک حکمران لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔
ایک مہینہ پہلے ہی آسٹریلیا میں ایک شخص کی Email میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ ورلڈکپ کے پہلے میچ میں بھارت پاکستان کو شکست دے گا اور جس طرح کھلاڑیوں کے آ¶ٹ ہونے اور کارکردگی کے لحاظ سے اس میں تفصیلات درج ہیں ویسے ہی ہماری ٹیم نے کارکردگی دکھائی تو پھر ایسے میں کون ٹیم اور بورڈ کی انتظامیہ کا احتساب کرے گا۔
قارئین میں آج بھی شفاف‘ غیر جانب دارانہ‘ اعلیٰ سطحی احتسابی نظام جو بلاامتیاز سب کیلئے یکساں ہو ، پاکستان کے متعدد مسائل کا حل سمجھتا ہوں اس سے نہ صرف کرپٹ لوگوں کو پکڑنا ممکن ہو جائیگا بلکہ اس نظام کے خوف کی وجہ سے کرپشن کا ارتکاب بھی کم ہو سکے گا مگر جب اعلیٰ عدلیہ کے سابق چیف جسٹس اپنے ہی بیٹے کو راتوں رات ارب پتی بننے دینگے اور شعیب سڈل کا کمیشن محض اس لئے بنایا جائے کہ پراپرٹی ٹائیکون اور سابق چیف جسٹس کا معاملہ دو فریقوں کا باہمی کاروباری تنازعہ ڈکلیئر کیا جائے تو چلیں اس رپورٹ کیمطابق اگر حکومت میں جرا¿ت ہے تودونوں فریقوں کے ذمے بالترتیب 125 ارب اور 6 کروڑ کے جو ٹیکس واجب الادا ہیں وہ تو قانون کے زور پر وصول کرے۔ مگر موجودہ حکومت سے طاقتور قرض دہندگان‘ انتہائی طاقتور سول اور فوجی بیورو کریسی کے کرپٹ عناصر کا بے لاگ احتساب اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے کیونکہ ....
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
تو کیا پھر ہم منصفانہ شفاف اور بے لاگ اور بلاامتیاز across the Board کی روایت قائم ہونے اور مستقبل دیدہ میں اسکے اہتمام ہونے کے حوالے سے مایوس ہو جائیں؟ مجھے افسوس ہے کہ میرے لئے اس سلسلے میں قومی رہنما¶ں سے چاہے وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہو کسی پر امیدی کا اظہار ممکن نہیں احتساب کے قومی ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو روح آزادی کی خاطر ذاتی مفادات کو قائداعظم کی طرح تہہ تیغ کر سکتا ہو۔ موجودہ دور احتساب عوام کیلئے بھیانک خواب ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38