27 فروری کو دہلی میں پی ڈی پی کے سربراہ ” مفتی سعید “ نے مودی سے طویل ملاقات کی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت قائم ہو گی ۔ یکم مارچ کو مفتی سعید مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھائیں گے جبکہ BJP کے ” نرمل سنگھ “ نائب وزیر اعلیٰ مقرر کیے گئے جس میں مودی بھی شرکت کرینگے ۔ یاد رہے کہ حالیہ انتخابات میں مقبوضہ کشمیر میں PDP نے اسی بنیاد پر ووٹ لئے تھے کہ مقبوضہ ریاست کو مودی اور BJP کی غلامی کے خطرے سے محفوظ رکھا جائےگا مگر حالیہ پیش رفت نے کشمیریوں کو حیران کر دیا ہے اور وہ مفتی صاحب کی قلابازی دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ....
کیا خبر تھی لا ڈبوئے گا ہمیں منجدھار میں
وہ ستم گر جس کو اپنا نا خدا سمجھے تھے ہم
اس صورتحال کا جائزہ لیں تو ہر ذی شعور حیران ہے کہ اقتدار کی چاہ میں کوئی فرد یا گروہ اس حد تک بھی جا سکتا ہے جہاں تک مفتی اور انکی PDP پہنچ چکی ہے موصوف نے مودی سے ملاقات کیلئے جو دن مقرر کیا ہے وہ 27 فروری ہے جس دن 13 برس قبل مودی کی زیرسرپرستی گودھرا میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل شروع ہواتھا اور یکم کو مارچ نمائشی وزیر اعلیٰ کا حلف بھی تب اٹھایا جا رہا ہے جس روز احمد آباد کے گلی کوچوں میں خونِ مسلم اتنا ارزاں تھا جسکی مثال حالیہ تاریخ میں ڈھونڈ پانا بہت مشکل ہے اس سے پہلے 24 فروری کو PDP کی نائب سربراہ ” محبوبہ مفتی “ نے دہلی میں BJP کے صدر امیت سے ملاقات کے بعد مقبوضہ ریاست میں BJP اور PDP کے حکومتی اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے جب اسکے نام نہاد فوائد بیان کیے تو وہ اس شعر کی عملی تفسیر لگیں
ایسا بدلا ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
یاد رہے کہ 23 اور 24 فروری کی درمیانی شب 1991 میں قابض بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے کنن پوشہ پورہ میں ایک سو سے زائد خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کی تھی اور ہر سال اس سانحے کی یاد میں کشمیری یومِ سیاہ مناتے ہیں ۔
دوسری طرف 28 فروری 2002 کو بھارتی صوبے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل شروع ہوا جو تقریباً تین ماہ تک جاری رہا ۔ اس وحشیانہ مہم کے دوران تقریباً 3 ہزار نہتے مسلمان زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق سے محروم کر دیئے گئے ۔ ایک ہزار سے زائد لاپتہ ہو گئے جبکہ 3500 شدید زخمی ہو کر ہمیشہ کیلئے اپاہج ہو گئے ۔ ہزاروں مکانات اور دکانیں جلا دی گئیں اس نسل کشی کے دوران ڈیڑھ لاکھ افراد بے گھر ہوئے جن کی اکثریت تاحال سسک سسک کے زندگی کے دن گزار رہی ہے ۔ 230 مسجدیں اور درگاہیں شہید کی گئیں جن میں تاریخی مسجد ” محافظ خان “ اور ” ولی گجراتی“ اور ” ملک یامین “ کے مزار بھی شامل تھے ۔
27 فروری 2002 کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ” سابر متی ایکسپریس “ کی آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا ۔ جنونی ہندو گروہوں نے اس قدرتی سانحے کا الزام مسلمانوں پر دھر دیا اور یوں گجرات کے طول و عرض میں مسلمان اقلیت کا قتل عام شروع ہو گیا ۔آغاز میں احمد آباد کے علاقے ” گل برگ سوسائٹی “ میں لوک سبھا کے رکن ” احسان جعفری “ اور ان کے بچوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔ اسکے ساتھ ہی ” نرودہ پاٹیا “ اور دوسرے علاقوں میں بھی یہ سلسلہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ۔ اکثر غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ” گودھرا “ میں ” سابر متی “ ایکسپریس ٹرین کی آتش زدگی خود مسافروں کی کسی لا پرواہی کا نتیجہ تھی ۔ دہلی سرکار کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی ( جس کی سربراہی گجرات ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ” امیش چندر بینرجی “ نے کی ) اور جسٹس ناناوتی اور جسٹس شاہ کی سربراہی والے عدالتی کمیشن نے بھی اس سانحے کیلئے ٹرین میں سوار مسافروں اور مقامی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا مگر سیکولر بھارت میں ہزاروں بے قصور انسانوں کو محض مسلمان ہونے کے جرم میں زندہ جلا دیا گیا ۔
” سابر متی ایکسپریس “ کی آتش زدگی کے” مبینہ“ جرم میں21 مسلمانوں کو پھانسی سمیت مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں مگر ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی کے گھناﺅنے جرم میں ملوث شاید ہی کسی کو سزا ملی ہے ۔
برہمنی انصاف کی ان کالی کرتوتوں کو واضح کرتے مبصرین نے کہا ہے کہ ایک جانب ہزاروں انسانوں کے مسلمہ قاتلوں کو رہا کیا جا ر ہا ہے تو دوسری جانب اکتوبر 1998 میں ممتاز فلمی بھارتی اداکار ”سلمان خان “ کیخلاف کالے ہرن کو مارنے کے سنگین جرم میں 3 مارچ 2015 کو جودھپور کی عدالت انکی سزا کا فیصلہ سنانے والی ہے کیونکہ ان کا جرم بھی یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔
اس معاملے کا یہ پہلو بھی قابلِ ذکر ہے کہ 3 ستمبر 2002 کو VHP کے سربراہ ” اشوک سنگھل “ اور ” اچایہ گری راج کشور “ نے امرتسر میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ”گجرات کا تجربہ بہت کامیاب رہا ہے اس لئے کوشش کی جائیگی کہ اسے پورے بھارت میں دہرایا جائے “ ۔
غالباً اسی تجربے کے نتیجے میں BJP پورے بھارت میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اب مقبوضہ کشمیر میں بھی مفتی صاحب کو اپنا آلہ کار بنا کر حکومت بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکی ہے اور عمر عبداللہ کی اس بات میں غالباً وزن ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی راجدھانی درحقیقت RSS کے ہیڈ کوارٹر ناگ پور منتقل ہو گئی ہے ۔ اور اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں بھارت کے طول و عرض میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے ۔
اس پس منظر میں توقع رکھی جانی چاہیے کہ وطنِ عزیز کا ہر شہری ایسی سرگرمیوںپر نظر رکھے گا کہ کوئی فرد یا ادارہ باہمی نفرت کو فروغ دینے کا باعث نہ بنے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024