آج ہمارا معاشرہ ’گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور....‘ کی ڈگر پر چل پڑا ہے۔ اگر ہمارے ہمسائے یا کسی ساتھی پر بُرا وقت آن پہنچے تو اُس بدقسمت کی خیر نہیں۔ ایسا ہی کچھ آجکل پاکستان کیساتھ ہو رہا ہے۔ ’اپنے‘ (چین، سعودی عرب، ترکی وغیرہ) تو ’مطلبی‘ ہوچکے۔ صرف مطلب کی بات کرتے ہیں۔ رہ گئی بات ’پرائیوں‘(انڈیا، امریکا، یورپ وغیرہ) کی۔ انہیں تو موقع مل گیا ہے کہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا دے ہی دیاجائے۔ بظاہر تو پرائے ممالک دونوں ہاتھ امن کیلئے بڑھاتے ہیں لیکن حقیقت میں ان ممالک کا ایک ہاتھ ’برائی‘ کا بھی ہوتا ہے۔ جو انہیں اُکستاتا ہے کہ کس ملک پر کتنا ظلم ڈھانا ہے اور کس ملک میں کتنے فیصد حالات خراب کرنے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہاں کمزور حکمرانی کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں نے ہمیشہ فائدہ اُٹھایا ہے۔ بلوچستان جیسے صوبے میں آج بھی 20سے زائد خفیہ ایجنسیاں ملک دشمنی میں پیش پیش ہیں۔
بھارتی خفیہ ایجنسی کے کردار تو ہمارے ملک میں نظر آتے ہی تھے مگر گزشتہ دنوں ہی بلوچستان سے افغان انٹیلی جنس کے 6 اہل کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ جنہوں نے پاکستان میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا۔ انہیں پاکستان میں قتل کرنے کے پیسے ملتے تھے، کسی بھی بم دھماکے پر ان کو 80 ہزار روپے دیئے جاتے تھے جبکہ ٹارگٹ کلنگ 2 لاکھ سے زائد روپے ملتے تھے۔ افغان انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کے ان جاسوسوں نے تسلیم کیا کہ بلوچستان میں 40 افراد کو قتل کیا جن میں سے 22 افراد کی ٹارگٹ کلنگ صوبائی دارالحکومت میں کی گئی جبکہ چمن کی گھاس مارکیٹ ، ریلوے اسٹیشن، چمن بائی پاس، بکرامنڈی اور دیگر مقامات پر بھی دھماکے کیے گئے۔ ایک گرفتار افغان انٹیلی جنس اہلکار نے کہا کہ 10ہزار روپے میں جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنوایا۔ یعنی یہ ہمارے سسٹم کی کمزوری ہے کہ یہاں سب کچھ بکتا ہے۔ یہاں ملا منصور کو پاسپورٹ مل جاتا ہے تو باقی چیزیں تو آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں اور تو اور ابھی چند ماہ قبل ہی بلوچستان میں بھارتی جاسوس کھل بھوشن جادیوکی گرفتاری نے پاکستان اور بھارت میں تو ہلچل مچائی ہے لیکن اس گرفتاری کے حوالے سے دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی اہم کیس سٹڈی کیلئے مل گیا ہے۔ کسی بھی غیر ملکی جاسوس کی گرفتاری ہمیشہ ایک بڑی خبر ہوتی ہے۔ اس گرفتاری میں مرکزی کردار ہمیشہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہی ہوتا ہے۔یہ سچ ہے کہ آج تک بھارت نے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچایا شاید ہی دنیا کے کسی ہمسایہ ملک نے اتنا نقصان پہنچایا ہوگا بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کے کئی ونگز پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را “ (ریسرچ اینڈ انیلیسنگ ونگ) کا قیام 1968ءمیں عمل میں لایا گیا۔ یہ خفیہ ایجنسی بیرونی ممالک میں بھارتی مفادات کے تحفظ کیلئے قائم کی گئی۔ 1962ءکی انڈیا ، چین جنگ میں بھارتی انٹیلی جنس بیورو(I.B.) کی ناکامی اورستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارتی حکومت کو ایک ایسی خفیہ ایجنسی کی ضرورت کو محسوس کرنے لگی جو بیرونی ممالک میںایک موثر نیٹ ورک کی حامل ہو۔ بھارت سرکار کے مطابق”را“ کا بنیادی کام بیرون ممالک سے انٹیلی جنس معلومات کا حصول، دہشت گردی کا توڑ اور خفیہ آپریشن کرنا ہے۔ اسکے علاوہ بیرون ممالک سے حاصل ہونے والی اطلاعات کا تجزیہ کر کے بھارتی پالیسی ساز افراد کو راہنمائی مہیا کرناہے۔ ”را“ کا ہیڈکوارٹر نیو دہلی میں ہے۔
1988سے 1999ءتک بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ایجنٹ پاکستان میں داخل ہوئے جن میں 12 ہزار سے زائد سندھ، 10 ہزار پنجاب، 8 ہزار کے پی کے اور 5 ہزار بلوچستان میں داخل ہوئے اور اس وقت بھارت میں 55 دہشتگردی کے کیمپ چلائے جا رہے ہیں جن میں ”را “کے ایجنٹوں کو پاکستان کےخلاف کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ کیمپ راجستھان، مشرقی پنجاب، مقبوضہ کشمیر، اترپردیش، کیرالہ، ہماچل پردیش اور ایسے ہی کئی اہم علاقوں میں چلائے جا رہے ہیں جبکہ افغانستان میں بھی ابھی تک 12 مقامات پر پاکستان کیخلاف بھارت نے دہشت گردی کے کیمپ بنا کر وہاں تکفیری دہشت گردوں کو پاکستان مخالف تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کئی بھارتی ایجنٹوں کو گرفتار کر چکا ہے اور ان میں سے بعض کو جذبہ خیرسگالی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا بھی کیا گیا۔ جن میں سب سے نمایاں راوند کوشک تھا، جسے 1975ء میں پاکستان بھیجا گیا تھا، یہاں آکر اس نے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ پنجابی اور اردو زبان سیکھی۔ نبی احمد شاکر کا نام اختیار کر کے پاکستان ملٹری اکاﺅنٹس میں کلرک کی نوکری حاصل کی اور یہیں شادی بھی کی۔ وہ 1983ءتک ”را“ کو پاکستان کی اہم معلومات پہنچاتا رہا۔ 1983ءمیں وہ گرفتار ہوا اور اس نے ساری معلومات اگل دیں۔ (جاری)
سربجیت سنگھ بھی بھارت کا معروف جاسوس تھا، جس نے 90ءکی دہائی میں لاہور، فیصل آباد میں متعدد دھماکے کیے تھے۔ 2013ءمیں جب اس نے لاہور کے ایک ہسپتال میں دم توڑا تو بھارتی پنجاب نے اسکی موت کے بعد تین دن تک سوگ اور اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔ کشمیر سنگھ کو پرویز مشرف کے دور میں رہا کیاگیا۔ 2012ءمیں بھارتی جاسوس سرجیت سنگھ کو رہا کیا گیا۔اسی طرح بھارتی جاسوس رام راج 18ستمبر 2004ءکو پاکستان آیا اور اگلے ہی دن گرفتار کرلیا گیا۔ آٹھ سال کے بعد اسے بھارت واپس بھیج دیا گیا۔ 1988ءمیں پاکستان جاسوسی کیلئے آنیوالا گربخش رام دو سال تک پاک فوج کے زیر استعمال اسلحے کے معلومات لے کر واپس بھارت جارہا تھا کہ پکڑا گیا۔ 2006ءمیں اسے رہائی ملی۔ رام پرکاندی 1994ءمیں پاکستان آیا اور 1997ءمیں واپس جاتے ہوئے گرفتار ہوگیا۔ 2008ءمیں رہا ہوگیا۔ ونود ساہنی 1977ءمیں پاکستان بھیجا گیا، اسی سال گرفتار ہوگیا۔ 1988ءمیں واپس بھیج دیا گیا۔ بلو پر سنگھ 1971ءمیں پاکستان آیا، 1974ءمیں گرفتار ہوا اور 1986ءمیں بھارت واپس گیا۔ اسی طرح مختلف اوقات میں گرفتار ہونیوالے بھارتی جاسوسوں میں دیوت، سنیل، ڈینیئل، تلک راکج اور ستیپال شامل ہیں، جو جیل کاٹنے کے بعد واپس بھارت بھیج دیے گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایجنٹ پاکستان آتے کس طرح ہیں .... انکے آنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں جیسے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ’انڈرکور‘ خفیہ ایجنٹ بھارت کے تجارتی اور ثقافتی وفود کے علاوہ دانشوروں اور صحافیوں کے روپ میں پاکستان کے حکومتی سطح کے دوروں کے دوران پاکستان کی اعلی شخصیات اور اہم حکومتی اداروں تک رسائی حاصل کرتے رہے ہیں۔ ان حقائق کا انکشاف یورپی تھنک ٹینک کو ملنے والی ایک خفیہ دستاویز سے ہوا جس کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ نے افغانستان کے بعد متحدہ عرب امارات میں بھی اپنا مستقل نیٹ ورک قائم کر لیا ہے جس میں ثقافت اور تجارت کے نام پر پاکستان کی اعلیٰ شخصیات سے ایسے بھارتی صنعت کاروں اور کاروباری حضرات سے قریبی روابط گہرے ہو چکے ہیں جو کہ بھارتی افواج کیلئے اسرائیل سے جدید اسلحہ کی خرید کیلئے اسرائیلی خفیہ ایجنسی ”موساد“ سے مستقل رابطوں میں ہیں۔
جبکہ بھارتی رسالہ ’سنڈے‘ نے اپنے 18 ستمبر 1988کے شمار ے میں انکشاف کیا کہ1974 میں بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان نے کہوٹہ میں جوہری تنصیبات میں ایٹمی ہتھیار تیارکرنے کی منصوبہ بندی کی۔1978 میں ’را‘ نے ایک پاکستانی اہلکار کو کہوٹہ کا مکمل بلو پرنٹ بھارت کے حوالے کرنے پہ آمادہ کیا۔ پاکستان میں ”را“ کے ایجنٹ نے دس ہزار ڈالر کا مطالبہ کیا۔ اس بھاری رقم کی منظوری بھارتی وزیر اعظم ہی دے سکتے تھے۔ اس وقت بھارت کے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نے نہ صرف منظوری دینے سے انکار کر دیا بلکہ پاکستان کو اس ایجنٹ کا نام بھی بتا دیا جسے حساس اداروںنے خاموشی سے گرفتار کر لیا۔ مرار جی ڈیسائی کو پاکستان نے اعلیٰ ترین ”اعزاز“ نشان پاکستان عطا کیا۔
سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب ”را“ ایسا کررہی ہے تو پاکستانی ایجنسیاں تدارک کیوں نہیں کرسکتیں۔ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں کمزور نہیں۔ پاکستان کی ایک ایجنسی کا شمار آج بھی دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی ایجنسیاں بے اختیار ہیں بلکہ ان کا شمار دنیا کی بااختیار ترین ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ عملاً وہ پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں اور نہ عدالتیں ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ پی پی او اور نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد تو انہیں قانونی طور پر بھی غیرمعمولی حد تک آزاد اوربااختیار بنا دیا گیا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ”را“ کی مذکورہ سازشوں کو وہ کیوں خاطر خواہ حد تک روک نہیں سکتیں۔ میرے نزدیک پہلی وجہ اس کی یہ ہے کہ ”را“ اور پاکستانی ایجنسیوں کے وسائل کا کوئی موازنہ نہیں۔ ہندوستان کے دفاعی بجٹ اور پاکستان کے دفاعی بجٹ کا موازنہ کر کے دیکھ لیا جائے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جہاں پاکستانی ایجنسیاں سو روپے خرچ کر سکتی ہیں ، وہاں ہندوستانی ایجنسیاں دس ہزار خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں آج بھی سب سے بڑا ہتھیار پیسہ ہی ہے اور ان ممالک میں غربت اور کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے دشمن انہیں آسانی سے خرید سکتا ہے.... اور سب سے اہم بات یہ کہ اگر ملک سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوگا تو یہاں ڈرون حملے بھی ہوں گے....بھارتی ایجنٹ بھی آئیں گے.... اور افغان خفیہ ایجنٹ بھی دندناتے پھریں گے!!!