گزشتہ ہفتے بھارت سرکار کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب امریکی پشت پناہی کے باوجود بھارت کو NSG میں شمولیت نہ مل سکی۔ NSG دنیا کے ایسے ممالک کا گروپ ہے جو ایٹمی مواد، ٹیکنالوجی اور اس سے متعلق اشیاء کی تجارت کر سکتے ہیں ۔ بھارت ایک عرصے سے اس گروپ میں شمولیت کیلئے تڑپ رہا ہے۔ ایک تو بھارت کا خیال ہے کہ ایٹمی تجارت سے بھارت زر مبادلہ کما سکتا ہے اور اس خواہش کا ایک دوسرا اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت اس تجارت سے اپنے ایٹمی پروگرام کو جو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پاکستان سے کافی کمتر ہے (خاص طور پر ’’ ٹیکٹیل نیوکلئیر ویپن‘‘) ، کو مزید ترقی دینے اور بہتر بنانے کا خواہشمند ہے۔ بھارتی خواہشات اور امریکی آشیرباد اپنی جگہ لیکن مودی سرکار ایک اہم چیز شاید بھول گئی تھی کہ اس گروپ کا اصل مقصد صرف ایٹمی تجارت نہیں بلکہ یہ ایسے ممالک کا گروپ ہے جو ایٹمی تجارت کیلئے اپنے اوپر ایک اہم ’’ ذمہ داری‘‘ لاگو کرتے ہیں ، جو ہے دنیا میں خطرناک ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی اسلحہ کے پھیلائو کو روکنے کی کوشش ۔ اسی لیے اس گروپ کے تمام ممبران وہ ممالک ہیں جو ’’ ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے‘‘ یعنی NPT پر دستخط کر چکے ہیں۔ اسکے برعکس بھارت نے نہ تو اب تک NPT پر دستخط کیے ہیں اور نہ بظاہر ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ عالمی امن کا چیمپئن ہونے کا دعویدار بن کر NSG میں شمولیت کی خواہش میں بھارت یہ تلخ حقیقت بھی بھول چکا ہے کہ NSG کا قیام ہی دراصل بھارت کی ’’ ایٹمی دہشتگردی ‘‘ اور غیر ذمہ داری کے جواب میں ہوا تھا۔ ’’ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘۔بھارت نے جب 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کیا تو اس دھماکے کے رد عمل میں دنیا کے ممالک نے خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ ایٹمی پھیلائو کیخلاف 1975ء میںایک گرو پ تشکیل دیا۔ شروع میں اس گروپ کی میٹنگز لندن میں ہوئیں اور یہ ’’ لندن کلب‘‘ اور پھر’’ لندن گروپ‘‘ کہلایا۔ 1990ء کی دہائی میں اسکے ممبرز کی تعداد 28 تھی۔ وقت کے ساتھ اسکے ممبران کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا اور آج اسکے 48ممبر ہیں اور اسکی موجودہ شکل NSG ہے ۔ وہی NSG جس میں شمولیت کے خواب مسٹر مودی روزانہ دیکھتے ہیں۔
بارک اوبامہ نے اپنے دورہ بھارت کے دوران اور اسکے بعد مسٹر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران امریکہ نے اعلان کیا کہ امریکہ بھارت کی اس گروپ میں شمولیت کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت کا خیال تھا کہ روس ، میکسکو اور دیگر ممالک بھی اسکی مکمل حمایت کرینگے ۔ امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ بھارت اس مقصد کے حصول کیلئے چین کی حمایت بھی چاہتا تھا ۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس سلسلے میں بھارت کی وزارت خارجہ کے ایک اہم عہدیدار نے چین کا خفیہ دورہ بھی کیا تھا اور اب اپنی خواہش میں ناکامی کے بعد بھارتی میڈیا نے اپنی تمام توپوں کا رخ چین اور پاکستان کی جانب کر دیا ہے۔ زی نیوز نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ویسے تو وزیر اعظم پاکستان بھارت کے ساتھ د وستی کا بہت دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس مسئلہ پر پاکستان نے بھارت کیخلاف لابنگ کی۔ بھائی بھارت کیساتھ دوستی کی خواہش تو تمام پاکستان کو ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی بھی پاکستانی فرد یا ادارہ ، پاکستان کے مفادات کیخلاف کام کرے۔ دوسرا اس مسئلے پر پاکستان کا مؤقف واضح اور اصولی ہے۔ جب اس گروپ کا بنیادی مقصد ہی غیر ذمہ دارانہ ایٹمی پھیلائو کو روکنا ہے تو یہ بالکل اصولی مطالبہ ہے بھارت اس گروپ میں شمولیت سے قبل NPT پر دستخط کرے۔ رہا سوال چین کا تو بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی مدد نہ کر کے چین نے بھارت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ کوئی ان عقل کے اندھوں کو سمجھائے کہ چین نے بھارت سے کونسا کوئی ایسا وعدہ کیا تھا جس سے وہ عین وقت پر مکر گیا۔ دوسرے چین کا مئوقف بھی پاکستان کی طرح اصولی ہے کہ ایسا کوئی بھی ملک جس نے NPT پر دستخط نہیں کیے ہوئے اسکے اس گروپ کی شمولیت پر مزید بحث اور اسکے اصول اور قواعد مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں بھارت کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والی کیا بات ہے؟ سب سے اہم یہ کہ عالمی سیاست باہمی مفادات اور کچھ لو اور کچھ دو پر چلتی ہے۔ بھارت چین کی حمایت مانگ رہا تھا اور بدلے میں چین کو کیا دے رہا ہے؟ چین کی اقتصادی راہداری کو دیگر ممالک کیساتھ مل کر تباہ کرنے کے منصوبے؟ اصل میں تو بھارت چین کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی کوشش میں ہے۔ ویسے بھی چین اور پاکستان کیخلاف بھارتی میڈیا شاید عادت سے مجبور ہو کر بول رہا ہے۔ ورنہ صرف چین ہی نہیں ، برازیل، میکسکو، سوئٹزرلینڈ‘ سائوتھ افریقہ اور ترکی نے بھی موجودہ صورتحال میں بھارت کی اس گروپ میں شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ اور تو اور اس گروپ کے تمام ممبران (بشمول امریکہ )نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ ’’ ایٹمی عدم پھیلائو‘‘ اس گروپ کی بنیاد اور اسکی ممبر شپ کی ’’ چابی ‘‘ ہے۔ مطلب واضح ہے کہ جو بھی ملک اس گروپ میں شمولیت کا خواہشمند ہے و ہ سب سے پہلے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کرے۔
بھارتی سرکار اور خصوصاََ مسٹر مودی کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ’’ سیلفیاں ‘‘ لینے اور دنیا کے لیڈروں کو پروٹوکول سے ہٹ کر ’’ جادو کی جپھی‘‘ ڈالنے سے حقیقی دنیا میں کچھ نہیں ہوتا۔ بھارت کیلئے مفید مشورہ ہے کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ بھارت اپنی یہ غلط فہمی دور کرے کہ وہ ’’ مہا بھارت ‘‘ ہے اور دوسرا یہ کہ عالمی سیاست میں جتنی اسکی چادر ہے اتنے ہی پائو ں پھیلانے کی کوشش کرے۔ اور سب سے اہم یہ کہ دوغلی اور ’’ چانکیہ اصولوں‘‘ پر مشتمل پالیسیاں اب ترک کر دے۔ ایک جانب آپ امریکہ میں کھڑے ہو کر یہ اعلان اور خواہش کر رہے ہیں کہ آپ ایشیاء سے لے کر افریقہ تک امریکہ کے ’’ پولیس مین‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ کو یہ ’’پولیس مین ‘‘ سب سے زیادہ چین کیخلاف چاہئیے اور ساتھ ہی آپ کی معصوم خواہش ہے کہ چین خود اس ’’ پولیس مین‘‘ کی مدد بھی کرے اور اسے ’’دانت ‘‘ بھی فراہم کرے؟ بقول شاعر ’’ میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں؟‘‘
دنیا اتنی جنگیں اور قتل و غارت دیکھ چکی ہے مگر بدقسمتی سے بھارت اب بھی علاقائی تنازعات کو ہوا دینے کی پالیسی پر گامزن رہنا چاہتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارت عقل اور فہم سے کام لیتے ہوئے پاکستان سمیت علاقے کے تمام ممالک کیساتھ اپنے حل طلب مسائل بذریعہ بات چیت حل کرنے کے بعد پاکستان یا چین کیخلاف دیگر ممالک کیساتھ ملکر اتحاد بنانے اور دور دراز کی کسی طاقت سے علاقے میں کوئی کردار مانگنے کی بجائے، تمام علاقائی ممالک کیساتھ مل کر علاقے میں استحکام اور امن کے قیام اور تمام خطے کی اقتصادی ترقی کیلئے مثبت کام کرے۔ بھارت کی موجودہ پالیسیاں علاقے میں عدم استحکام پیدا کرنے اور بھارت کیلئے مزید سبکی کا سبب بننے کے علاوہ بھارت کو کچھ نہیں دیں گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024