آج محسن انسانیت حضور اکرمﷺ کا یوم ولادت ہے۔ آج کا دن ہر مسلمان کیلئے خوشی اور مسرت کا دن ہے۔ مسلمان اپنے عقیدے اور وسائل کے مطابق محبوب خدا کا جنم دن مناتے ہیں۔ میلاد کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ قرآن خوانی ہوتی ہے۔ چراغ جلتے ہیں۔ سیمینار منعقد کرکے حضور اکرمﷺ کی سیرت کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ غریبوں میں کھانا تقسیم ہوتا ہے۔
عید میلاد النبی کی رات عمارتوں، مسجدوں اور سڑکوں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ آج کے دن ایک ایسی عظیم ہستی نے جنم لیا کہ جس نے بت پرستی کیخلاف آواز اُٹھائی آپﷺ کی آواز اتنی اثر انگیز اور انقلاب آفریں تھی کہ عرب کے بت پرست بت شکن بن گئے۔ انہوں نے خلوص و ایمان کی بے پناہ قوت اور کردار کی پختگی سے لا الہ الا للہ کی تحریک شروع کی۔ پوری دنیا اس انقلابی تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ خدا اور اسکے رسولﷺ کی سچائی کا اعجاز ہے کہ آج دنیا کا کوئی ایسا شہر نہیں ہے جہاں سے اللہ اکبر کی صدا بلند نہ ہوتی ہو۔ خدا کے آخری نبیﷺ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا ’’میرے بعد بڑے بڑے اختلافات دیکھو گے۔ میری جانی پہچانی سنتوں اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقوں سے وابستہ رہنا انہیں مضبوطی سے تھام لینا اور دین میں گھڑی ہوئی باتوں ’’بدعت‘‘ سے بچنا‘‘۔
مسلمان اگر حضور اکرمﷺ کے اس ابدی پیغام کو سمجھ لیں۔ سنت پر عمل کریں اور بدعت کو مسترد کردیں تو اسلام ایک بار پھر دنیا کے لیے ماڈل بن جائے۔ حضور اکرمﷺ کی سیرت اور خلفائے راشدین کا کردار ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ حضور اکرمﷺ انسان کامل تھے انہوں نے نبی ہونے کے باوجود مکمل انسانی زندگی گزاری تاکہ مسلمان ان کی سیرت پر عمل کرسکیں اور انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ ہو جس کا نمونہ انسانوں کے پاس نہ ہو۔ جرنیل، تاجر، حکمران ، سیاستدان،علمائ، مذہبی رہنما، مرشد، دوست، پڑوسی، شوہر،مسافر، ہمسفر، امام، مجاہد، باپ، بچے، نوجوان، بزرگ، بیوروکریٹ سب محسن انسانیت کی زندگی سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ وہ نوجوانی میں صادق اور امین تھے انکے دشمن بھی انکی خوبیوں کو تسلیم کرتے تھے۔ صداقت اور امانت نبی آخرالزماںﷺ کے کردار کی ایسی ممتاز خوبیاں تھیں کہ انکی بناء پر انہوں نے طاقتور کافروں کو جھکنے پر مجبور کردیا۔ حضور اکرمﷺ کا زمانہ شراب خوری، بت پرستی اور عیش و عشرت کا زمانہ تھا مگر آپ کا دامن آلائشوں سے پاک رہا اور بدترین دشمن کو بھی عیب جوئی کا حوصلہ نہ ہوا۔ ذاتی کردار اس قدر پختہ تھا کہ جب قریش کے سرداروں نے انکو دولت اور خوبصورت عورتوں کی پیشکش کی تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’خدا کی قسم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تو خدا کے دین کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔
حضور اکرمﷺ کے رویے قرآن کے بنیادی اُصولوں کیمطابق تھے۔ نرم لہجے میں گفتگو فرماتے، کوئی غیر مہذب لفظ استعمال نہ کرتے بات سیدھی اور دوٹوک کرتے۔ احسان کرکے کبھی نہ جتاتے۔ اپنے غلام زید بن حارثہ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ انکا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن سے کرایا۔ مدینے کی گلی میں ایک بوڑھی عورت بھاری بوجھ اُٹھا کر جارہی تھی اس کا بوجھ اپنے سر پر اُٹھا کر اسے گھر تک چھوڑ آئے۔ آپﷺ لشکر کے ساتھ جارہے تھے راستے میں کتیا کے بچے دیکھے صحابہ کی ذمے داری لگائی کہ انکی نگہداشت کریں تاکہ اونٹ کے پائوں تلے آکر کچلے نہ جائیں۔ جنگ خندق میں اپنے ہاتھوں سے کھدائی کی۔ مسجد نبوی کی تعمیر میں حصہ لیا رات دیر سے گھر آتے تو جوتے اُتار کر دبے پائوں گھر میں داخل ہوتے تاکہ خواتین کی نیند خراب نہ ہو۔ ایک بچے کو روتے دیکھا رونے کی وجہ پوچھی تو بچے نے کہا اس کا نہ باپ ہے اور نہ ماں ہے۔ آپﷺ نے اس یتیم بچے کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ ایک تاجر سے وعدہ پورا کرنے کیلئے اسکے انتظار میں ایک مقام پر تین روز ٹھہرے رہے۔ مکہ کے قریش نے حضور اکرمﷺ کو جبر اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ آپﷺ نے ہجرت سے پہلے انکی امانتیں واپس کیں۔ قرآن وعدہ پوراکرنے، سچ بولنے، امانت میں خیانت نہ کرنے، خیرات کرنے اور انصاف کرنے پر زور دیتا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے ان قرآنی اُصولوں پر زندگی بھر عمل کرکے مثالی ماڈل پیش کیا۔
حضور اکرمﷺ نے بچپن یتیمی میں گزارا لہٰذا ان کا سینہ یتیموں، محتاجوں اور ستم رسیدہ لوگوں کیلئے محبت اور شفقت سے لبریز تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر یتیم بچہ پاس کھڑا ہو تو اپنے بچے کے سر پر ہاتھ نہ پھیرو تاکہ یتیم کو یتیمی کا احساس نہ ہو۔ حضور اکرمﷺ حساس دل رکھتے تھے اور احترام انسانیت کے قائل تھے۔ انہوں نے اسلام کی بنیاد ہی انسانیت پر رکھی۔ دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنا گناہ سمجھتے تھے۔
بڑا آسان ہے ہندو یا مسلمان ہونا
بڑی مشکل ہے اس دور میں انسان ہونا
حضور اکرمﷺ عفو اور درگزر پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنے سنگدل اور ظالم دشمنوںکو معاف کردینے کی لازوال اور قابل تقلید مثالیں قائم کیں۔ اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوسفیان کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ اسکے گھر کو پناہ گاہ قرار دیدیا۔ حضور اکرمﷺ جب مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو راستے میں ایک کافرہ ان پر کوڑا پھینکتی۔ صحابہ اکرامؓ اس توہین پر جذباتی ردعمل کا اظہار کرنے کی کوشش کرتے تو حضور اکرمﷺ انہیں منع فرمادیتے۔ چند دن جب کافرہ نے کوڑا نہ پھینکا تو حضور ﷺ کو تشویش ہوئی اسکی بیماری کا علم ہوا تو اس کے گھر تیمارداری کیلئے تشریف لے گئے۔ انسانیت کی ایسی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آج ہم جو سلوک غیر مسلموں سے کررہے ہیں وہ یقینی طور پر محسن انسانیت کے رویوں اور اُسوۂ حسنہ کے منافی ہے۔
حضور اکرمﷺ اگر چاہتے تو شاہانہ زندگی بسر کرتے مگر انہوں نے اختیار ہونے کے باوجود سادہ زندگی بسر کی۔ ان کا لباس قمیض، چادر اور تہمند پر منحصر تھا وہ جو کی روٹی کھاتے تھے اور کبھی کبھی کھجور اور پانی پر گزارہ کرتے تھے۔ چٹائی پر سوتے تھے۔ گھرکی صفائی کرتے۔ مویشیوں کو چارہ ڈالتے۔ بکریاں چراتے، پھٹے کپڑوں کو پیوند لگاتے اپنے جوتے خود گانٹھتے۔ نوکروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ مسجد کی تعمیر میں اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حصہ لیتے انہوں نے وفات کے بعد کوئی جائیداد نہ چھوڑی۔ حضور اکرمﷺ قانون کی بالادستی اور مساوی انصاف پر یقین رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک امیر خاتون چوری کے جرم میں پکڑی گئی۔ بعض صحابہؓ نے اسکی سفارش کی حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہوجایا کرتی تھیں کہ معمولی لوگ جرم کرتے تو انہیں سزا ملتی اور بڑے لوگ جرم کرتے تو حکام انہیں چھوڑ دیتے۔ میری بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔ مسلمان نماز پڑھتے ہیں حج کرتے ہیں روزہ رکھتے ہیں یہ تمام فرائض تزکیہ نفس کیلئے تھے۔ انسانوں کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات بنانے کیلئے تھے مگر افسوس مسلمانوں نے حضور اکرمﷺ کی سیرت کو چھوڑ دیا۔ ہم حضور اکرمﷺ سے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ ناموس رسالت کیلئے لڑنے مرنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں مگر ان کی سیرت پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ عالم اسلام آج کردار کے بحران سے گزر رہا ہے اور مسائل کا شکار ہے۔ آئیں آج کے مبارک دن پر عہد کریں کہ ہم محسن انسانیت کی سیرت پر عمل کرینگے انکے احکامات بجالائیں گے تاکہ ہم دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوسکیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے’’حضور اکرمﷺ کی زندگی سب کیلئے بہترین نمونہ ہے‘‘۔
قوت عشق سے ہرپست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدﷺسے اُجالا کردے