1۔ ایک وقت تھا کہ وطن عزیز میں راوی چین لکھتا تھا۔ کارخانوں کا جال بچھ رہا تھا۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ میں تھیں۔ دہشتگردی کی رمق تک نہ تھی۔ پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بنانے کے کھوکھلے نعرے نہ لگتے تھے کیونکہ پاکستان معاشی اعتبار سے ایشین ٹائیگر تھا۔ کوریا، ملائشیا اور تھائی لینڈ کے لوگ ایک تجسس کیساتھ آتے تھے اور انگشت حیرت منہ میں ڈال کر واپس جاتے تھے۔ پاکستان کی ترقی کا راز کیا ہے؟ ہر کوئی ایک ہی سوال کرتا تھا۔
2۔ پھر یوں ہوا کہ ملکی معیشت پر آسیب کا سایہ پڑ گیا۔ حرکت تیز تر اور سفر آہستہ ہو گیا۔ ملک دولخت ہو گیا اور مغربی حصے پر پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہو گئی۔ گو ذوالفقار علی بھٹو ایک بیدار مغز حکمران لیکن طبعاً منتقم مزاج تھے۔ جب ایوب خان سے ناراض ہو کر ایوان اقتدار سے باہر آئے تو کئی لوگ ساتھ چھوڑ گئے۔ ان میں کارخانہ دار بھی تھے۔ بھٹو نے انہیں ’’فکس اپ‘‘ کرنے کا نہ صرف تہیہ کیا بلکہ عندیہ بھی دیا۔ کارخانوں کو قومیانے کی چند دیگر وجوہ بھی تھیں۔ وہ چینی رہنما موزے تنگ سے بہت متاثر تھے۔ لہٰذا سوشلزم کا نعرہ لگایا۔ لباس میں بھی اسکی نقل کی۔
چونکہ محنت کشوں کے ووٹ سے پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تھی اس لئے ’’پرائے خرچ‘‘ پر انہیں خوش کرنے کا یہ ایک نادر موقع تھا۔ وقتی طور پر ہر طرف واہ واہ ہو گئی۔ لکھ پتی ککھ پتی بن گئے۔ تن آور معاشی درختوں پر پرکاہ کا گمان ہونے لگا۔ قومیانے گئے کارخانوں کے علاوہ دیگر انڈسٹری بھی بے حال ہو گئی۔ مزدوروں نے نہ صرف کام کرنا چھوڑ دیا بلکہ وقتاً فوقتاً مالکان کی ٹھکائی بھی کر دیتے۔ پیداوار بری طرح متاثر ہوئی۔ فیکٹری اونرز منقار زیر پر ہو گئے۔ چار سو ہرچہ بادا باد کی کیفیت طاری ہو گئی۔ زیردست زبردستی پر اتر آئے۔ مالکان نے مزدوروں کو تو کیا نکالنا تھا ڈر اور خوف کی وجہ سے انہوں نے کارخانوں میں آنا ہی بند کر دیا۔ تنخواہیں بنکوں سے ادھار لیکر دینے لگے۔
بالفرض کوئی سر پھرا کسی مزدور کو ’’مس کنڈکٹ ‘‘ کی بنا پر نکالنے کی جسارت کر ہی بیٹھتا تو قانونی ضابطے اس کی راہ میں دیوار بن جاتے۔ میں ان دنوں لائلپور میں لیبر کورٹ کا جج بھی تھا ،طوہاًوکرہاً مجھے سب محنت کشوں کو بحال کرنا پڑتا کیونکہ مالکان کی اکثریت قانونی تقاضوں سے ناآشنا تھی۔
بالفرض اقدام درست بھی ہوتا تو طریقہ کار غلط ہوتا۔ شوکاز نوٹس اور شہادتیں قلمبند نہ ہوتیں۔ بالفرض کوئی مزدور چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں بھی پکڑا جاتا تو اس کو یک بینی و دوگوش نہ نکالا جا سکتا تھا۔ اس کیلئے بھی ایک طویل، صبر آزما اور گنجلک طریقہ کار تھا کیونکہ قانونی کتابوں میں لکھا ہے۔
If the Law Requires a thing to be done in a particular manner it has to be done in that manner moral convictions, how so ever strong can not substiture the substantive provisions of law.
بدقسمتی سے ہماری قومی زندگی میں توازن کا فقدان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے پہلے مالکان مزدوروں پر سختی کرتے تھے۔ معاوضہ دینے میں بخل سے کام لیتے تھے۔ ناروا پابندیاں عائد تھیں لیکن ردعمل بھی بہت سخت تھا۔ اپنے آقائوں سے خراج وصول کرتے کرتے، Extortion کی نوبت آ گئی۔
آجر اور اجیر میں کھینچا تانی کا یہ نتیجہ نکلا کہ پیداوار کم ہو گئی۔ تمام معاشی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ پارٹی کے ممبران اسمبلی کو لیڈری چمکانے کا نادر موقع ہاتھ آ گیا۔ ہر کارخانے میں، ہر ادارے میں دھڑا دھڑ بھرتیاں ہونی شروع ہو گئیں۔ سو لوگوں کی گنجائش والے ادارے میں پانچ سو لوگ ڈال دیئے گئے۔ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نے ورکرز یونین کی کمان سنبھال لی۔ اپنے آپ کو فعال اور متحرک ثابت کرنے کیلئے یہ آئے روز ہڑتالیں کروا دیتے اور مالکان سے کچھ لئے بغیر نہ ٹلتے۔ ہرچہ بادا باد کی اس سے بدترین مثال نہیں ملتی۔
3۔ ایک روز رات کے بارہ بجے فرمان جاری ہوا کہ مخصوص اداروں کو قومیا لیا گیا ہے۔ مجھے مرافکو گھی انڈسٹری کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اسی شب ہم نے فیکٹری کے تالے توڑ دیئے اور میں MD کی کرسی پر ’’براجمان‘‘ ہو گیا۔
مجھے وہ لمحہ نہیں بھولتا جب تھانیدار مل مالک رفیع منو کو عملاً پکڑ کر دفتر میں لے آیا اس نے سلیپنگ گائون پہن رکھا تھا۔ پائوں میں ہوائی چپل تھی اور منہ پر بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اس سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کوئی ڈرائونا خواب دیکھ رہا ہے یا انقلاب کی زد میں آ گیا ہے۔وہ اپنے دفتر میں مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔ منو بڑا مخیر انسان تھا اور ہر رفاعی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔
میں اسے اچھی طر ح جانتا تھا۔ اس کی حالت زار دیکھ کر درد کی ایک شدید لہر میرے اندر اٹھی اور ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ ایک نظر میںنے اس پر ڈالی اور دوسری سے حکم حاکم کو دیکھا۔ حلق کی سرنگ سے چند الفاظ بمشکل باہر نکلے۔
Mr, Mannu! it is very unfortunate that I should replaced you in this capacity. But you must know these are the hazards of service.
جتنا عرصہ میں وہاں رہا میں نے محسوس کیا کہ انڈسٹری چلانا حکومت کے بس کا روگ نہیں ہے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ میرا گھی مل چلانا اسی طرح تھا جس طرح رفیع منو کو کمرہ عدالت میں مقدمات نبٹانے کیلئے بٹھا دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا میں نجکاری ناکام ہو چکی ہے۔ سرکاری اہلکار ویسے ہی خاصے بدنام ہیں یہ کریلے کو نیم چڑھانے کے مترادف ہے۔ اب تک ملک کو جتنا نقصان ہو چکا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
پی آئی اے، سٹیل مل، وغیرہ سفید ہاتھ ہیں۔ وہی رقم جو صحت، تعلیم، صاف پانی پر خرچ ہونی چاہئیے وہ ان اداروں کے نقصانات پورا کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ سٹیل مل 20/22 ارب روپے میں آج سے 8 سال قبل فروخت ہو رہی تھی۔ ایک عدالتی حکم کے ذریعے اسکی فروخت روک دی گئی۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ یہ سستی بکی ہے۔ ’’سیل‘‘ صاف نہیں ہے۔ Sleeze کی بو آتی ہے۔ آج تک اس میں 200 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
اب اسے خریدنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ اس مل میں کرپشن کا یہ عالم تھا کہ آج سے 24 سال قبل ہر مزدور 28 ہزار روپے کا میڈیکل بل ہر ماہ وصول کرتا تھا کسی ڈاکٹر کی جرات نہیں تھی کہ سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کرتا۔ چیئرمین کو یہ لوگ دفتر سے گھسیٹ کر باہر لے آتے تھے۔
یہی حال دوسرے اداروں کا ہے۔ جس جہاز پر دیگر ہوائی کمپنیاں سو ملازم رکھتی ہیں پی آئی اے نے پانچ سو لوگ بھرتی کر رکھے ہیں۔ جو بھی آتا ہے وہ اس حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ ضرور پڑھتا ہے۔
4۔ نجکاری کا عمل صاف ہونا چاہیے، صاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دیناچاہئیے لیکن اب کسی قسم کی تاخیر ملکی معیشت کیلئے سم قاتل ہو گی۔ عوام کے مسائل اور مصائب میںدن بدن اضافہ ہو گا لہذا حکومت یکسوئی کے ساتھ نیک نیتی کے ساتھ اس عمل کو تیز سے تیز کرے چاہے اس کیلئے میاں صاحب کو محاوراتی Gordian Knot ہی کیوں نہ کاٹنی پڑے!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024