آج کل پوری دنیا کی نظریں یمن کی صورتِحال پر مرکوز ہیں جہاں خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی طرف سے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں اور کمین گاہوں پر فضائی حملے بھی کئے جا رہے ہیں جن میں سعودی عرب کو کچھ اور عرب ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان ملکوں کیلئے یہ صورتِحال بہت پیچیدہ ہے کیونکہ دونوں اطراف سے مسلمان اس جنگ میں شریک ہیں۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو آج کل عالمِ اسلام کا ایک بڑا حصہ انتشاراور جنگ کے باعث تباہی و بربادی سے دوچار ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا،مصر اور لبنان وغیرہ پہلے ہی جنگوں میں گھرے ہوئے تھے کہ اب جنگ کے شعلے یمن تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ یمن کے معاملہ کی سنجیدگی پر یقینا کوئی بحث نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے مفروضے بھی ہم میں سے کچھ لوگوں نے اپنے اذہان میں پال رکھے ہیں جن میں سب سے سرِ فہرست مفروضہ یہ ہے کہ یہ سعودی عرب اور ایران کی جنگ ہے جس میں سعودی عرب براہِ راست اور ایران اپنے پراکسی کی مدد سے جنگ میں کود چکا ہے۔ کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے کا مفروضہ بیان کرنے لگتے ہیں کہ یہ فرقہ وارانہ جنگ ہے یا اس میں تبدیل ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے عوام اور حکومت کو یہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر پاکستان اس جنگ میں کودا تو خود پاکستان میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ جنگ شروع ہو جائیگی۔اس مفروضہ کی بڑی وجہ یمن کی پونے تین کروڑ مسلمان آبادی کی تقسیم ہے جو 65 فیصد سنّی اور 35 فیصد شیعہ ہے۔ اسی طرح یمن کی صورتِ حال پر مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونیوالی عرب سربراہ کانفرنس میں نیٹو کی طرز پر مشترکہ عرب فورس بنانے کی بات بہت تواتر سے کی گئی ہے۔ ایسی مشترکہ عرب فورس کی بات بھی مفروضہ کی حد تک تو درست ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر اس میں حائل پیچیدگیوں پر قابو پانا عملی طور پر نا ممکنات میں سے ہے کیونکہ مختلف عرب ممالک میں جاری کشیدگیوں میں مختلف عرب ملکوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں اس لئے میرے خیال میں ہمیں حقائق کی طرف دیکھنا ہو گا اور اس پہلو پر بھی غور کرنا ہو گا کہ پاکستان کو اس سارے قضیہ میں کہاں کھڑا ہونا چاہئے۔
یمن کی موجودہ صورتِحال پچھلے گیارہ سال سے جاری سیاسی انارکی کا تسلسل ہے، 2004 سے 2010 کے درمیان یمن کی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان خانہ جنگی کے چھ رائونڈ ہو چکے تھے لیکن اس میں زیادہ شدت آخری چار سال کے دوران آئی۔ 2011 میں جب اس وقت کے سعودی حمایت یافتہ صدر علی عبداللہ صالح کیخلاف صنعاء میں پرتشدد مظاہرے کنٹرول سے باہر ہونے لگے تھے تو متحارب فریقین کے درمیان سعودی عرب میں ہونیوالی ایک ڈیل کے بعد انہوں نے اقتدار اپنے نائب عبدالربوح منصور ہادی کے حوالے کردیا تھا جسکے بعد مظاہرے وقتی طور پر ختم ہو گئے تھے۔ صدر عبدالربوح منصور ہادی کے دور میں وقتاً فوقتاً پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ کبھی کم اور کبھی زیادہ جاری رہا جن میں 2014 سے کافی شدت آنی شروع ہو گئی تھی۔ان تمام مظاہروں کا نشانہ سعودی عرب کو بنایا جاتا تھا۔ان مظاہروں سے شمالی صوبہ صادہ میں موجود حوثی قبائل کا حوصلہ بڑھا تو انہوں نے دارلحکومت کی طرف پیش قدمی کرکے اسکے بڑے حصہ پر قبضہ کر لیا۔ اب پچھلے کچھ ہفتوں سے معاملات صدر عبدالربوح منصور ہادی کے کنٹرول سے بھی باہر ہو گئے تھے چنانچہ انہوں نے یمن چھوڑنے میں ہی اپنی عافیت جانتے ہوئے صنعاء اور عدن کو حوثی باغیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا ۔ یہ صورتِ حال چونکہ سعودی عرب کیلئے ناقابلِ قبول تھی چنانچہ سعودی شاہ سلمان نے اس بغاوت سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب کی طرف سے کئے جانیوالے فضائی حملے حوثی باغیوں کو کمزور کرنے کیلئے ہیں تاکہ جب انکی قوت منتشر اور کمزور ہو جائے تو سعودی عرب کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد زمینی فوجیں یمن میں داخل ہو کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیں۔ سعودی عرب واضح طور پر چاہتا ہے کہ زمینی حملہ سے پہلے باغیوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے۔ مصر میں ہونیوالی عرب سربراہ کانفرنس میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اعلان کیا کہ یمن میں فضائی حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک وہاں امن اور استحکام قائم نہیں ہو جاتا ۔بظاہر اس امن اور استحکام کی تعریف یہی نظر آتی ہے کہ جب تک یمن میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت نہیں قائم ہو جاتی، سعودی عرب کے حملے جاری رہیں گے کیونکہ سعودی عرب کا اپنا داخلی استحکام بھی یمن کے استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ اگر یمن میں سعودی مخالف حکومت کا کنٹرول ہوگا تو سعودی حکومت اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کریگی اور اپنی فوجیں یمن میں ضرور داخل کریگی تاکہ پورے ملک کا کنٹرول اسکے ہاتھ میں آجائے۔اس سارے منظر نامہ میں یہ خدشہ بہر حال موجود ہے کہ اگر سعودی عرب نے اپنی فوجیں یمن میں داخل کیں تو سعودی سرحد سے ملحق یمن کا حوثی اکثریتی صوبہ صادہ سے حوثی قبائل سعودی عرب میں داخل ہو کر جنگ کا دائرہ سعودی عرب تک پھیلانے کی کوشش کرینگے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس جنگ میں کہاں کھڑا ہونا چاہئے؟ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا احاطہ ایک کالم میں نہیں کیا جا سکتا، ان تمام حقائق اور تاریخ کو بیان کرنے کیلئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہو گی۔ قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک پاکستان پر آنیوالے ہر مشکل وقت پر سعودی عرب نے اعلانیہ اور فخریہ طور پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اس لئے ایران سعودی جنگ یا فرقہ وارانہ کشیدگی کی فرضی باتوں کی رو میں بہہ جانے کی بجائے پاکستان کو بھی اسی طرح اعلانیہ اور فخریہ طور پر سعودی عرب کا ساتھ دینا چاہئے جیسا کہ ہمارے سعودی بھائیوں نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔اس تناظر میں پا کستان اور سعودی عرب کی طائف میں ہونیوالی مشترکہ جنگی مشقوں الصمصام فائیو کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ یمن کی خانہ جنگی میں پاکستان کا کردار دو اعتبار سے بہت اہم ہے، ایک حکومتی سفارتی سطح پر اور دوسرا فوجی سطح پر، دونوں کی اپنی اپنی منفرد اہمیت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس کی کال دینی چاہئے اور ثالثی کیلئے اہم غیر عرب ملکوں مثلاً ترکی، ملائشیا اور انڈونیشیا وغیرہ کو آن بورڈ لے کر اپنی سفارتی کوششیں تیز کر دینی چاہئیں۔ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی مسلم امّہ کو کوئی بڑی مصیبت پیش آئی تو اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ مشرقِ وسطی اور خصوصاً یمن کے حالات پر فوری طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہونی چاہئے جس میں ایک برادر اسلامی ملک کو درپیش خطرات کا سد باب کرنے کیلئے مشترکہ حکمتِ عملی بنانی چاہئے۔ ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ اسلامی سربراہی کانفرنسوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت پاکستان کو اپنی سفارتی کوششوں میں تیزی لاتے ہوئے اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروانے اور امّہ کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔فوجی سطح پر بھی پاکستان کا رول بہت اہم ہے۔ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ پاکستانی فوج سعودی عرب کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ کریگی۔ اصل صورتِحال اسکے برعکس ہے۔اگر سعودی زمینی حملہ کے ردعمل میں حوثی قبائل تباہی و بربادی کی غرض سے سعودی عرب میں داخل ہو جائیں تو مقاماتِ مقدسہ سمیت سعودی شہروں اور اہم تنصیبات کی حفاظت کرنا پاک فوج کی ایک اہم ذمہ داری ہو سکتی ہے، گویا پاکستان کا رول جارح نہیں بلکہ ایک برادر اسلامی ملک کے دفاع اور سالمیت میں اسکی مدد کرنا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38