بھارت سے گٹھ جوڑ کرنیوالی ٹرمپ انتظامیہ سے خیر کی توقع کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے
امریکی نائب صدر کی دھمکی پر دفتر خارجہ اور پاک فوج کا سخت ردعمل اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے تقاضے
پاکستان نے امریکی نائب صدر مائیک پنس کی جانب سے دی گئی دھمکی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ پر واضح کردیا ہے کہ اتحادی ایک دوسرے کو وارننگ جاری نہیں کرتے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اس سلسلہ میں باور کرایا کہ امریکی انتظامیہ کو تنبیہہ ان لوگوں کو جاری کرنی چاہیے جو افغانستان میں منشیات کی پیداوار بڑھانے‘ غیرسرکاری اور انتظامی مقامات کی توسیع‘ صنعتی پیمانے پر بدعنوانی‘ حکومت کو ختم کرنے اور داعش کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی اجازت دینے میں ملوث ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ امن قائم کرنے کیلئے مذاکراتی میکنزم پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انکے بقول اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے امریکی نائب صدر کی پاکستان کو دی گئی دھمکی پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے باور کرایا کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ امریکی امداد کیلئے نہیں لڑ رہا اور نہ ہی پاکستان برائے فروخت ہے۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑی ہے‘ کسی اور ملک نے نہیں لڑی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم افغانستان میں امریکی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ امریکہ سے ہر طرح کا دفاعی تعاون کرنے کو تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں مگر بلیم گیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے حصے کا بہت کام کرلیا‘ اب افغانستان کی باری ہے‘ ہم نے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں کو ختم کردیا جبکہ کئی دہشت گرد افغان سرحدی علاقے میں حکومتی عملداری نہ ہونے کے باعث فرار ہوگئے جن کا خاتمہ افغانستان کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ ہمارے جوہری ہتھیار بالکل محفوظ ہیں جن کے بارے میں امریکی شکوک و شبہات بلاجواز ہیں۔ ہمیں امریکہ کی امداد نہیں بلکہ اعتماد اور بھروسہ چاہیے۔ ہم پر تو افغان جنگ مسلط کی گئی ہے۔ افغانستان کو دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنا ہونگے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جس جارحانہ انداز اور دھمکی آمیز لہجے میں تواتر کے ساتھ پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کئے جارہے ہیں اور دہشت گردوں کے تعاقب کی آڑ میں پاکستان کے اندر فوجی کارروائی کا عندیہ دیا جارہا ہے‘ وہ عملاً ایک آزاد اور خودمختار ملک پر حملے کی دھمکی کے مترادف ہے۔ دو روز قبل امریکی صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے خود پاکستان کو دھمکی دی کہ اسے دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ہوگی جبکہ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جم میٹس بھی پاکستان آکر اس سے تحکمانہ لہجے میں ڈومور کے تقاضے کرچکے ہیں اور یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ امریکی افواج کو اس خطہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کہیں بھی کارروائی کرنے کا اختیار دیا جاچکا ہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے پاکستان سے مبینہ دہشت گردوں کیخلاف ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا کیا جبکہ گزشتہ روز امریکی نائب صدر مائیک پنس نے کابل میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں امریکی ذہنیت کا یہ کہہ کر اظہار کیا کہ پاکستان کو دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے پر بہت کچھ کھونا پڑیگا۔ پاکستان کیلئے انکے اس انتباہ کو افغان جنگ کے آغاز کے 16 برس بعد سب سے خطرناک انتباہ گردانا جارہا ہے۔ ان کا یہ کہنا تو پاکستان جیسے خودمختار ایٹمی ملک کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے مترادف ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کو نوٹس پر رکھا ہوا ہے اور میں اب انکی بات دہراتا ہوں کہ پاکستان سرحد پار موجود طالبان کے گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے اور انہیں امریکی فورسز اور افغان اتحادیوں کیخلاف لڑائی سے روکے۔ انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ امریکی فوج کو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو کہیں بھی نشانہ بنانے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ انکی اس براہ راست دھمکی کا سیکرٹری خارجہ پاکستان تہمینہ جنجوعہ بھی دوٹوک انداز میں جواب دے چکی ہیں کہ پاکستان نے تو دہشت گردوں کے تمام محفوظ ٹھکانے ختم کردیئے ہیں‘ ہمیں نہ صرف امریکی نائب صدر اور پینٹاگون کے ایسے بے بنیاد الزامات پر تشویش ہے بلکہ جو کچھ بھارتی اور افغان ایجنسیاں کررہی ہیں‘ ہمیں اس پر بھی سخت تشویش ہے۔ گزشتہ روز وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کو باور کرایا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کیلئے اب خود امریکہ اور افغان حکومت کو وہاں کارروائی کرنی ہے۔ پاکستان سے ڈومور کے تقاضوں کا کوئی جواز نہیں۔
افغانستان میں امریکی افواج اور کابل انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہونیوالی امن و امان کی صورتحال کا اس سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت امریکی نائب صدر پنس کابل میں بیٹھ کر پاکستان سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کا تقاضا کررہے تھے عین اس وقت دہشت گردوں نے جنوبی افغانستان میں پولیس ہیڈکوارٹر پر خودکش کاربم حملہ کیا جس کے نتیجہ میں آٹھ اہلکار ہلاک اور 9 زخمی ہوئے جبکہ اسی وقت افغانستان کے اندر سے مہمند ایجنسی کے علاقے شنکرائی میں پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی جس سے تین ایف سی اہلکار شہید ہوگئے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ جو ملک پاکستان کے ازلی دشمن کی حیثیت سے افغان سرزمین استعمال کرکے پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے جس کیلئے اسے افغان حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے‘ اسی بھارت کو ٹرمپ انتظامیہ نے دہشت گردوں کے تعاقب کے نام پر افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نگرانی کی ذمہ داری بھی سونپ دی ہے جبکہ بھارت ہی اس خطے میں دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار ہے جس نے افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف نیٹو فورسز کی جنگ میں عشرعشیر بھی حصہ نہیں ڈالا۔ اسکے برعکس پاکستان نے افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پچاس نیٹو ممالک کے مجموعی نقصانات سے بھی زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے جبکہ پاکستان کے اس کردار کے ردعمل میں ہی یہاں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ہماری سکیورٹی فورسز کے سخت ترین اپریشنز کے باوجود تھم نہیں سکا اور دہشت گردوں کو جب بھی اور ملک کے جس بھی حصے میں موقع ملتا ہے‘ وہ اپنے اہداف تک پہنچ کر بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کا خونِ ناحق بہانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
قومی معیشت کی تباہی پر منتج ہونیوالے یہ سارے نقصانات پاکستان نے اس طوطاچشم امریکہ کی خاطر اٹھائے ہیں جو آج ہمیں اس کا صلہ ہم پر حملہ آور ہونے کی دھمکیوں کی صورت میں دے رہا ہے جبکہ اسکی شہ پر دہلی اور کابل کی جانب سے بھی ہماری خودمختاری اور سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنے اور اسکے دشمن بھارت کو اسکی سلامتی کیخلاف کسی بھی اقدام کیلئے تھپکی دینے والی ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی کے بعد تو افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار برقرار رکھنے کا عملاً کوئی جواز موجود نہیں رہا۔ گزشتہ ہفتے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا تھا کہ امریکہ درحقیقت سی پیک کا مخالف ہے جس نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے جبکہ بھارت نے پہلے ہی پاکستان کیخلاف نہ ختم ہونیوالی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ انہوں نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب امریکہ ہمیں دھمکیاں اور بھارت کو کابل میں کردار دے رہا ہے تو ہم اپنے قومی معاملات میں اس سے کسی خیر کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔
اس وقت صدر ٹرمپ‘ نائب صدر پنس‘ وزیر دفاع جم میٹس‘ وزیر خارجہ ٹلرسن اور امریکی مسلح افواج کے کمانڈر جنرل جیمز جوزف سمیت پوری واشنگٹن اور پینٹاگون انتظامیہ پاکستان کے درپے نظر آتی ہے جن کی تان پاکستان کے اندر فوجی کارروائی پر آکر ٹوٹتی ہے جبکہ بھارت کے ساتھ امریکی گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس سے پاکستان کی سلامتی کو ہی خطرات لاحق ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں دفاع وطن کیلئے بہرصورت اپنی صفیں سیدھی کرنی ہیں اور اس آفاقی اصول کو پیش نظر رکھنا ہے کہ ہمارے دشمن کا دوست ہمارا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر اس خطے میں بھارت کی تھانیداری واشنگٹن انتظامیہ کی اولین ترجیحات میں شامل ہے جس کیلئے اسکے ساتھ ہر قسم کے جنگی سازوسامان کی فراہمی کے معاہدے کئے جارہے ہیں تو بھارتی جارحیت کے توڑ کیلئے امریکہ پر تکیہ کرنے کے خدانخواستہ سانحۂ سقوط ڈھاکہ جیسے نتائج ہی ہمارے سامنے آسکتے ہیں اس لئے اب کسی مصلحت کے تحت خاموش رہنے یا محض رسمی احتجاج پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانے کی بجائے ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو باہم یکجہت ہو کر امریکہ اور بھارت دونوں کو ملک کا دفاع مضبوط ہونے کا ٹھوس پیغام دینے کی ضرورت ہے‘ چاہے یہ پیغام آئندہ پاکستان کی فضائی حدود میں گھسنے والا امریکی ڈرون گرا کر ہی کیوں نہ دیا جائے۔
اسکے ساتھ ساتھ ہنگامی بنیادوں پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس میں واشنگٹن اور پینٹاگون کی دھمکیوں کے تناظر میں امریکہ کے ساتھ تعلقات سے منسلک قومی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے اور اس پر نظرثانی کرکے اسے ملکی دفاع اور قومی سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو آج اپنی سلامتی کے حوالے سے سخت ترین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے قومی وقار اور تدبر کے ساتھ عہدہ برأ ہونے کی ٹھوس حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو بہرصورت ایک پیج پر نظرآنا ہوگا تاکہ کسی کو ہماری خودمختاری اور سلامتی کی جانب انگلی اٹھانے اور نگاہِ غلط ڈالنے کی جرأت نہ ہوسکے۔