پاکستان کے چین و روس کیساتھ دفاعی و تجارتی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر خوش آئند اتفاق
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے جمعرات کے روز دو روزہ دورے پر روس کے شہر سوچی پہنچے جہاں انکی ملاقات اپنے چینی ہم منصب لی کی چیانگ اور روس کے وزیراعظم ولادیمتیری میدیو سے ہوئی۔ لی کی جیانگ سے ملاقات کے موقع پر پاکستان کے ساتھ سٹرٹیجک شراکت داری کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم میں رکنیت خطے کے امن معاون ثابت ہو گی، دونوں وزرائے اعظم میں دفاعی و تجارتی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا۔ وزیراعظم دیمتری میدیو سے ملاقات میں، وزیراعظم عباسی نے انہیں بتایا پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے باہمی روابط کو مختلف شعبوں تک وسعت دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ انہوں نے روسی ہم منصب کو مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی اور بھارتی مظالم کے حوالے سے آگاہ کیا کہ پاکستان تنازع کشمیر سمیت تمام امور کو بامقصد مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے۔
وزیراعظم نے علاقے کی دو بڑی طاقتوں کے وزرائے اعظم کو خطے میں جاری صورتحال سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اپنے تمام وسائل وقف کر دئیے ہیں اور اس کا مکمل خاتمہ صرف اس صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ افغانستان مکمل تعاون اور بھارت ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے سے اجتناب کرے۔ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کو محفوظ ٹھکانے دینے اور کوئٹہ میں طالبان لیڈروں کی موجودگی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ پاکستان تو کہہ چکا ہے کہ اگر کسی کے پاس عملی ثبوت ہے تو وہ ان ٹھکانوں اور موجودگی کی نشاندہی کرے۔ پاکستان ان کے خلاف خود کارروائی کریگا۔ چونکہ ایسی کوئی بات نہیں اور یہ پراپیگنڈہ صرف پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے ہو رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان پر کشمیر میں فسادات اور گڑبڑ کرانے کا الزام لگایا جاتا ہے جبکہ پاکستان کشمیریوں کو خود ارادیت کا حق دلانے کیلئے (جس کا بھارت نے عالمی برادری اور اداروں کے سامنے وعدہ کر رکھا ہے) انکی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کر رہا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ان ملاقاتوں کے بعد، چین اور روس پر اصل حقیقت واضح ہو گئی ہو گی۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ ان ملاقاتوں کے نتیجے چین اور روس کے ساتھ دفاعی و تجارتی تعاون میں اضافہ ہو گا جو بھارت کی جنگی تیاریوں کے باعث بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اگرچہ امریکہ پر بھی بھارتی پراپیگنڈے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے لیکن دو بڑی علاقائی طاقتوں سے قریبی روابط خطے میں امن و امان اور ترقی و خوشحالی کیلئے دور رس نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔ چین تو پہلے ہی پاکستان کے موقف کو سمجھتا ہے۔ اگر روس بھی پاکستان کی کشمیر، دہشت گردی اور بھارت کے بارے میں پالیسی سمجھنے لگے تو اس خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی بھارتی سازشیں ناکام بنائی جا سکتی ہیں۔