بھارتی جاسوس والدہ‘ بیوی سے مل سکتا ہے تو کسی پاکستانی شہری کو یہ حق کیوں حاصل نہیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت 9جنوری تک ملتوی کردی گئی ہے جبکہ لاپتہ ا فراد کمیشن سے نئے مقدمات کے حوالے قانون کے مطابق کارروائی کرکے دو ماہ میں رپورٹ طلب کی گئی ہے۔دوران سماعت جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ لاپتہ افراد کے بارے میں ایجنسیوں کو علم نہ ہو،کسی کہانی پر یقین کرنے کیلئے معقول وجہ ہونی چاہیے، ہمارے لیے ایک شخص کا مرنا پوری انسانیت کامرنا ہے وہ ریاست باقی رہتی ہے جہاں ایک شخص کا مرنا پوری ریاست کا مرنا ہو‘درست حقائق نہ ملنے پر ہم بے بس ہیں، ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی اقدامات میں ملوث افراد کو گرفتار کریں شواہد دیں قانون کے مطابق سزاء دیں مگر کسی کو غیر قانونی طور پر حراست میں نہ رکھیںمتاثرہ افراد کو زبر دستی غائب کیا جاتا ہے اور وجہ بھی نہیں بتائی جاتی اور نہ ہی درست معلومات فراہم کی جاتی ہیںعدالت نام نہاد سٹوریوں پر کیسے یقین کرسکتی ہے؟ ۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ بھارتی جاسوس کو بیوی اور ماں سے ملاقات کی اجازت مل سکتی ہے تو پھر ایک پاکستانی شہری کو یہ حق کیوں حاصل نہیں، ہر کام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہئے اس کے لیے فوجی و سول اداروں کو آئین پاکستان نصاب میں شامل کرنا چاہیے،لوگوں کو لاپتہ کرنے والے عدالت کے سامنے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں،خفیہ اداروں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو افغانستان میں لڑ رہے ہیں یا کسی اور سے ملے ہوئے ہیں انھیں سب پتہ ہے، ایک بندے کو لاپتہ کرنے سے 120 خاندانوں کو ناراض کرنا پڑتا ہے،ہمارے لوگ ملک کے تحفظ کیلئے کام کررہے ہیں، ہم آئین و قانون کے تحت انھیں گنجائش بھی دے سکتے ہیں،ہم نہیں چاہتے موجودہ عالمی صورت حال میں الزامات میں مزید اضافہ ہو۔جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کی تو آمنہ مسعود جنجوعہ اور وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم، ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس ، خیبر پختون خواہ، پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز اور لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار عدالت میں پیش ہوئے عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ لاپتہ تاسف ملک سے حراستی مرکز میں اہل خانہ کی ملاقات کرانے کاحکم دیا تھا اس کا کیا ہوا؟۔سرکاری وکیل نے بتایاکہ ملاقات کرادی گئی ہے۔ تاسف ملک کے سسر نے عدالت کو بتایاکہ صر ف تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی اور اس میں بھی چار گارڈز گنیں تانے کھڑے تھے، ہماری گفتگو بھی ٹیپ کی جارہی تھی، تاسف نے کہاکہ عدالت بلائے گی تو تب ہی کچھ بتا وں گا، وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تین سال بعد تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی۔جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ یہ نازک معاملہ ہے، جب ہائیکورٹ میں تھا تب آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کی مرضی سے طے کیا گیا تھا کہ حراستی مراکز میں قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات کیلئے طریقہ کارکیا ہوگا، احتیاطی تدابیر ضروری ہیں مگر ملاقات سہولت کے ساتھ کرائی جائے۔جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ہم جاننا چاہیں گے کہ کس قانون کے تحت کس جرم میں زیرحراست ہے؟ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی سے اس بارے میں آئندہ سماعت رپورٹ طلب کی ہے ۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ یہ ان سرکاری وکیلوں کا معمول ہے، لاپتہ افراد کمیشن بھی ایسے ہی کام کررہاہے،سات سال ہوگئے عادل خان کے مقدمے کو بھی۔ پورے ملک میں لاپتہ افراد کے ورثاء قطاروں میں لگے ہوئے ہیں، کمیشن میں سات ماہ میںایک کیس کی باری آتی ہے، انصاف دینے کاکمیشن کا یہ تیس سالہ منصوبہ ہے۔لوگ اذیت کا شکار ہیں ان کے مسئلے حل کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہونا چاہئے عدالت مقدمات کو سپریم کورٹ طلب کرکے مقدمات میں ہدایت جاری کرے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ضابطے کی کارروائی ہورہی ہے رپورٹس آنے دیں پھر عدالت مناسب ہدایت بھی جاری کردے گی۔لاپتہ مدثراقبال کے مقدمے میں جسٹس دوست محمد نے سرکاری وکیلوں سے پوچھاکہ جے آئی ٹی اور دیگر کی رپورٹس میں تضاد کیوں ہے؟ دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر پوچھا کیوں نہیں گیا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ؟۔ آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ اقوام متحدہ کے جبری لاپتہ کیے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مدثر اقبال کسی خفیہ ادارے کے سیل میں ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ مدثر اقبال کے حوالے سے رپورٹ دی جاچکی ہے اور خفیہ ایجنسیاں اس کی موجودگی سے لاعلمی ظاہرکرچکی ہیں۔ جسٹس دوست نے کہاکہ عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ جوڈیشل ریکارڈ بن چکی ہے، کل کو اگر مدثر اقبال کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرکے سزا دی گئی توسپریم کورٹ کا ریکارڈ خلاف جائے گا اور بات کھل جائے گی کہ غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور عدالت سے جھوٹ بولاگیا۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ سوات میں آپریشن کے بعد اڑھائی تین ہزار افراد کو کسی دوسری جگہ حراست میں رکھا گیا، ہائیکورٹ نے کہاتھاکہ ان افراد کو چھوڑ دیں یا پولیس کے حوالے کردیں۔ وکیل کرنل انعام نے کہا کہ قوم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حراستی مراکزمیں کتنے افراد ہیں، کل بیالیس مراکز ہیں۔ سرکاری وکیل ساجد الیاس نے ردے عمل ظاہرکرتے ہوئے کرنل انعام کو بتایاکہ کل ایک ہزار چارسو گیارہ ( 1411) افراد حراستی مراکز میں ہیں اور اس کی رپورٹ دی جاچکی ہے۔جسٹس اعجازافضل نے استفسار کیا کہ حراستی مراکز میں قید افراد کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ سرکاری وکیل بولے کہ اخبار میں خبر آئی ہے کہ کچھ مقدمات فوجی عدالت میں ٹرائل کیلئے بھیجے گئے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ وفاقی حکومت کا وکیل بھی اخبار کی خبروں سے بتارہاہے، عدالت کو رپورٹ میں بتاناچاہیے ۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آئین کی سبزکتاب کا احترام ہی نہیں، اس کو نصاب میں بڑی کلاسوں کیلئے شامل کرنا چاہیے، اگرکسی نے جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق سزا دیں، سالہا سال سے سوات اور قبائلی علاقوں میں لوگ حراست میں ہیں، آئین میں لکھا ہے کہ گرفتار شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیاجائے گا، برسوں سے حراست میں رکھنا غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی کو غیرمعینہ عرصے کیلئے زیرحراست نہیں رکھا جاسکتا۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ تو عام شہری ہیں، گروپ کیپٹن کو سروس کے دوران ٹارچر کرکے مار دیا گیا ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ بدقسمتی یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ساکھ کو کھویا ہے، ایجنسی والے عدالت کے سامنے سچ نہیں بولتے،ہم بھی نہیں چاہتے کہ کسی مجرم کو معاشرے میں کھلا چھوڑدیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ثبوت ۔ سرکاری وکیل ساجد الیاس بولے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں ہیں۔ جسٹس دوست نے کہاکہ افغانستان کی بات رہنے دیں یہ بتائیں کہ آپ کے پاس معلومات کیاہیں اور ثبوت کہاں ہیں؟۔فراہم کردیں تو ہم معاملہ نمٹادیں گے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ کمیشن نے وقت مانگا ہے چھ ہفتے میں معلومات دیدیں گے۔عدالت میں سفید داڑھی والا ایک عمررسیدہ شخص کھڑا ہوا ، پشتو میں کچھ بولنے لگا تو آمنہ مسعود نے کہاکہ یہ لاپتہ خیرالرحمان کا والد ہے، آج ان کا مقدمہ نہیں لگا، گزشتہ سماعت پر کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ آج بھی آئے ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے انگریزی میں کہاکہ (ہزویری پریزنس ان دا کورٹ از سپائن چلنگ فار اس) اس بزرگ کی عدالت میں موجودگی ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ آمنہ مسعود نے بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ ہمیں نہیں ملتی، پتہ ہی نہیں ہوتاکہ کیا لکھ کرلائے ہیں، رپورٹ فراہم کی جائے تاکہ متاثرین کی مدد کرتے ہوئے ان کو آگاہ کرسکوں۔ ( عدالت کے باہر خیرالرحمان کے بزرگ والد نے میرے پوچھنے پر پشتو میں بتایا کہ اس کے بیٹے کو حراست میں لینے والے ایس ایچ او ارشد نے گھر آکر بیس لاکھ دینے کی پیش کش کی تھی مگر میں نے انکار کردیا، میرے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں مگر اپنے بیٹے کا گوشت بیچ کرپوتوں کو نہیں کھلا سکتا)۔سرکاری وکیل ساجد الیاس نے کہاکہ ہربار نئی رپورٹ ہوتی ہے، اگر یہ کیس مکمل ہو گیا تب بھی یہ عدالت آئیں گے۔آمنہ مسعود نے وکیل کے طنز کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ اگر سوسال لگیں گے تب بھی ان کو ہربار رپورٹ دینا ہوگی، اور جب تک آخری لاپتہ شخص کا معلوم نہیں ہوتا عدالت میں کھڑی رہوں گی۔ بزرگ خاتون نے کہاکہ مجھے ذرا بولنے دیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ آپ ایک گھنٹہ بولیں آپ کو سنیں گے۔ بزرگ خاتون بولیں کہ میں اب کیاکہہ سکتی ہوں، یادداشت ختم ہورہی ہے، اکلوتا بیٹا تھا اور کتنا جھیلوں گی۔بارہ سال سے کچھ نہیں ہوسکا، مجھے میرا بیٹا چاہیے، یہ ریاست نہیں مرے گی مگر ہم نے مرجانا ہے اب وقت کم ہے۔