پاکستان نئے احتساب قانون کا مقاضی، سیاستدانوں میں اتفاق رائے کا فقدان

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی)پلڈاٹ کے زیر انتظام احتساب کے نظام کو بہتر بنانے کے حوالے سے منعقدہ گول میز مذاکرے میں پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن )سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں میں بلاتفریق تمام اداروں بشمول عدلیہ اور ملٹری کے احتساب پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ۔پاکستان مسلم لیگ (ن )سے تعلق رکھنے و الے سینیٹر محمد جاوید عباسی جو پارلیمانی کمیٹی برائے قومی احتساب قانون کے رکن بھی ہیںانہوں نے گول میز مذاکرے کی صدارت کی۔ پی پی پی کے سید نوید قمر اور سینیٹر فرحت اللہ بابر ، پی ٹی آئی کے شفقت محمود کے علاوہ سابق گورنر شاہد حامد، لفٹننٹ جنرل ریٹائرڈمعین الدین حیدراور مجیب الرحمان شامی شامل تھے ۔ گول میز مذاکرے کے آغاز میں پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا کہ ملک اس وقت ایک نئے احتساب کے قانون کا متقاضی ہے ۔ ابتدائی طور پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفا ق رائے پایا جاتا تھا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999ختم کرتے ہوئے نیا قانون تشکیل دیا جائے ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان نئے قانون کے دائرہ کار پر اتفاق نہیں ہے خصوصی طور پر کیا نئے قانون کا اطلاق ججوں او رجرنیلوںپر ہو نا چاہیے یا نہیں ،کیونکہ پبلک آفس ہولڈرز کی تعریف پر اتفاق رائے نہیںہو پارہا۔ ججوںاور جرنیلوں تک قانون کے اطلا ق کے مخالفین کا کہنا ہے کہ دونوںادارے اپنا احتساب کا نظا م موجود ہے لہذا انہیں قانون میں شامل کرنے کی ضرورت نہیںہے جبکہ حامیوں کا کہنا تھا کہ ان اداروںکا اندرونی احتساب کا نظام موثر نہیںجو ملٹری اور عدلیہ کے اعلی عہدیداروں کو کرپشن سے روک سکے ۔ سینیٹر جاوید عباسی کا کہناتھا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی احتساب قانون بلوچستان کے کرپشن میںملوث بیوروکریٹ کے ساتھ پلی بارگین کے بعد سامنے آیا۔ کمیٹی نے جانفشانی سے کام کرتے ہوئے اتفا ق رائے سے قومی احتساب کمیشن ایکٹ کا مجوزہ مسودہ تیار کیاجبکہ بعد ازاںسیاسی جماعتوں نے اپنی پوزیشن میںتبدیلی کی ۔ بلاتفریق احتساب کا نظام ہی ملک کو کرپشن فری بنا سکتا ہے ۔ یہ پارلیمنٹ کی ناکامی ہوگی اگر وہ سب کیلئے بلا تفریق احتساب کا قانون منظور نہیںکر سکے ۔ اگر اندرونی احتساب کانظام کام کر رہاہوتا تو اس وقت پاکستان کو کرپشن فری ہوناچاہیے ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارٹی لائن سے ہٹ کر بلا تفریق احتساب کے قانون کی حمایت کر تا ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ وہ پارٹی کی جانب سے بلاتفریق احتساب کے قانون پر اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر حیران بھی ہیں اورشرمندہ بھی۔ پاکستان تحریک انصاف شفقت محمود نے کہا کہ موجودہ نیب کا دائرہ کار بہت وسیع ہے جو فقط پبلک آفس ہولڈرز تک محدود ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے راتوں رات اپنی پوزیشن تبدیل نہیں بلکہ اس پر سیر حاصل بحث بھی ہو ئی ہے ۔ سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر کا کہنا تھا کہ احتساب کا قانون سب کیلئے ایک جیسا ہونا چاہیے عدلیہ ، فوج سمیت صحافیوں کا بھی احتساب ہوناچاہیے ۔ سابق گورنر پنجاب شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی جماعتیںنئے قانون پر متفق نہیںہیںتو موجودہ احتساب کے قانون میںبھی ترامیم لائی جاسکتی ہیں ۔ سینیٹر عثمان کا کڑ کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق ملک کے اصل مالک شہری ہیں۔