پاکستان کے محفوظ مستقبل کا تلخ سوال !

پاکستان کے محفوظ مستقبل کا تلخ سوال !

جنوبی ایشیا کااہم جغرافیائی اہمیت کاحامل ملکِ پاکستان (خدانخواستہ) کہیں کسی قسم کی فریب زدگی کا 'سیاسی فکر و دانش کی سوجھ بوجھ کی بانجھ پن کا'کچھ آگے بڑھ کر یہ بھی اگر کہہ لیں کہ'سفارتی مایوسی یاشکست خوردگی کا شکارتونہیں ہو رہا؟ خطہ میں بشمول مشرق ِوسطیٰ میں بہت تیزرفتاری کے ساتھ حیرت ناک'متعجب‘ساکت وجامد اور سکتہ سا طاری کردینے والی کیفیت کی حد تک بدلتے ہوئے'سیاسی وسفارتی حقائق' سے ہم اپنی آنکھیں جان بوجھ کر چرا تو نہیںرہے؟ پاکستان کے سہ جوانب پڑوس میں دیکھیں توسہی! پڑوسی عظیم ملک چین کے علاوہ کتنے خطرناک اورعقل وفہم کو منجمند کردینے والے بہیمانہ اقدامات یکایک یکے بعد دیگرے رونما ہونے لگے ایسی گرداب نما صورتحال میں پاکستان کے بیس کروڑعوام اسلام آباد میں براجمان اپنے حکمرانوں کی طرف کسی نہ کسی امید پر اگرمتوجہ ہیں تو بالکل غلطی پر نہیں، ا±نہیں تو تشویش ناک حیرت ہورہی ہے، ا±ن کے حکمران نہ عوام کی طرف متوجہ اور نہ ہی یہ صاحبان ِاقتدارجنوبی ایشیائی خطہ سمیت مشرق ِوسطیٰ پراچانک سے چھا جانے والی 'مہیب دھندلاہٹ' کی آتش فشاں شدت کی حدت کومحسوس کرپارہے ہیں،کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم کسی بھول میں رہیں افغانستان اور ایران کے بعد ’ داعش نام کی یہ تباہی پاکستان کو بھی اپنی منحوس لیپٹ میں نہ لے لے ایران اورافغانستان دونوں برادر اسلامی ممالک جوکہ پاکستان کے پڑوسی ہیں وہاں پر برپا دہشت گردی سے پاکستان کیونکر غافل اور علیحدہ رہ سکتا ہے؟ اِن پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں کی مذمت کردینا کافی نہیں ہے، مگر‘ ایک تعجب کا مقام یہ ہے کہ ایران کے دارلحکومت تہران میں 7 جون کو ہونے والے دہشت گردی کے دوحملوں نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے، دنیا سوچ رہی ہوگی کہ ’عالمی سفاک دہشت گردوں‘ نے کیسے اور کیونکر تہران جیسے اہم شہر اور اَس کے گرد و نواح میں اپنے سہولت کا روں کے ٹھکانے بنانے میں کامیابی حاصل کر لی؟ یقیناً یہ کلیدی سوال 7 جون کی دہشت گردی کی ایرانی تفتیشی ٹیم کے لئے اہمیت رکھے گا غالباً اسلامی انقلاب ِایران کے38 سالوں کے بعد تہران میں اِتنی بڑی اور ہرلحاظ سے اور ہراعتبارسے قابل ِمذمت دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ ہے'تہران میں ہونے والی دہشت گردی کے اس انتہائی بہیمانہ اورلائق ِشرمناک واقعہ سے پاکستان کا ہر مسلمان ہم وطن اپنے ایرانی برادر مسلمانوں سے تعزیت کرتے ہیں، پاکستانی نہایت ملو ل ہوئے پوری قوم دل گرفتہ اور افسردہ ہے ایک زمانہ وہ تھا جب پاکستان میں لیجنڈ ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار تھے، قوم کو یاد ہوگا کہ ا±س زمانے میں مصر میں جمال ناصر'سعودی عرب میں شاہ فیصل 'لیبیا میں قذافی'انڈونیشیا میں سوئیکارنوجیس کیسی کیسی جرات مند' بے خوف اورقدآور شخصیات اپنی اپنی قوم کی رہنمائی کا فریضہ اپنی بے پناہ وطنی محبت اور ملی احساسات کے شدید جذبوں کو بروئے ِکار لا کر ادا کر رہے تھے دنیا بھرمیں عالم ِاسلام کی بھرپور نمائندگی عملی طورپرہر کسی کودکھائی دیتی تھی ا±ن دِنوں یاد ہوگا قارئین کو' ترکی اوریونان کے مابین سرحدی تنازعہ پرجنگ کی تشویش ناک صورتحال پیدا ہوگئی تھی، ایسے میں 'لیجنڈ ذوالفقارعلی بھٹو بحیثیت ِوزیراعظم پاکستان ترکی اوریونان کے درمیان صلح کرانے اچانک ترکی اور یونان کے روانہ ہوگئے، جب مسٹر بھٹو ترکی اور یونان پہنچے تو پاکستانی عوام کو پتہ چلا کہ ذوالفقار علی بھٹو میں کتنا دلیرانہ ولولہ تھا عالمی سفارت کاری پر ا±ن کی مضبوط گرفت تھی جب تک سعودی عرب میں شاہ فیصل کی حکومت رہی، مصر میں جمال ناصر رہے، ابتدائی عرصہ میں انورالسادت کا بھی تذکرہ میں آسکتا ہے، ا±نہوں نے ابتداءمیں سامراج کو کھلی چھوٹ دینا گوارا نہیں سمجھا تھا بالآخر ترکی اور یونان کے ا±س زمانے کے حکمرانوں نے لیجنڈ ذوالفقار علی بھٹو کی سائنسی اور کامیاب ولولہ انگیزسفارتی کاوشوں کو زبردست خراج ِتحسین پیش کیا تھا، یوں 'ترکی یونان' جنگ یکدم رک گئی تھی’سفارت کاری‘ اور مشکل ترین کٹھن حالات میں سفارت کاری کے جوہر ا±سی وقت باآور اور ثمر بار ثابت ہوتے ہیں جب کوئی بھی سفارت کار قائد عالمی جغرافیائی ثقافت وسماج کی تاریخ کا عالم وفاضل ہو تاریخ َ عالم پر عبور رکھنے والت ایسے قائدین مدھم پڑتی ہوئی امیدوں اور معدوم ہوتے مایوسیوں کے چراغوں کو اپنی سیاسی وسفارتی ہنرمندی سے روشن کرنے میں کبھی ناکام نہیں ہوتے‘ آج پاکستان کو کسی ایسے قابل اور جوہر شناس سیاسی وسفارتی علوم میں ماہر قائد کی اشد ضرورت ہے جس کے پاس اپنی قوم کے لئے کچھ خواب ہوں اور ا±ن خوابوں کی تعبیر کو مکمل کرنے کی وہ اہلیت وصلاحیت رکھتے ہوں آج کا پا کستان ایٹمی ڈیٹرنس کا حامل ملک ہے عالمی معاشی تباہ کاروں نے گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں اِس پاکستان اور پاکستانی قوم کی نشان ِ منزل کو اپنے مقامی سیاسی کارندوں کے ذریعے سے دھندلا دیا ہے موجودہ صورتحال مزید کچھ عرصہ اور ایسے ہی رہی تو یقین کیجئے (خد ا ہم پر رحم فرمائے)ہم محرومی کی اتھاہ گہرائیوں کی دلدل میں پھنس جائیں گے نکلنے کی کوئی صورت کسی کونظرنہیں آئےگی' ایک سوال'یہ سوال کسی ایک فرد کا نہیں 'بیس بائیس کروڑعوام کے ذہنوں میں ممکنہ خدشات وخطرات کے ساتھ ا±نہیں مستقل ہیجانی حالتوں سے پل بھر کے لئے بھی باہر نہیں نکلنے دے رہا، سوال یہ ہے کہ'اسلام آباد کے حکمران اور ا±ن کے وزراءآخر کب اپنی آئینی اتھارٹی کے حلف پر عمل پیرا ہونگے؟ پاکستان کو 'پاکستان کی دفاعی اہمیت و افادیت کو' پاکستان کی معاشی واقتصادی بدحالی کو‘جوں کا توں’ عالمی مالیاتی اداروں‘ کا گروی رکھنے پرا±نہیں اپنی سیاسی وسفارتی بصیرتوں کے بل بوتے پر ا±ن 'گوروں کو اور تیل کی دولت سے مالا مال چند مسلم ممالک' کو کھلے لفظوں میں اور دوٹوک انداز میں یہ اہم نکتہ کون با ور کر ائے گا کہ 'عالم ِاسلام کو دہشت کے فتنہ وفسادکی خونریزی کے چنگل میں پھنسانے والے کوئی اور نہیں بلکہ امریکا کی سرپرستی میں مغربی طاقتیں اِس سازش میں ملوث ہیں جو بھارت اور اسرائیل کی شیطان صفت سرگرمیوں کی پشت پناہی کرتی ہیں‘ یہ داعش کون ہیں؟ یہ تنظیم عراق میں کیسے پروان چڑھی؟ عراق سے افغانستان کیسے پہنچی؟ اب کیسے داعش نے ایران میں دہشت گردی کی کارروائی کرڈالی؟' اصل میں پاکستان کو گھیرنے کی ’عالمی سازشیں‘ بنی جا رہی ہیں، جن کا مقابلہ قوم کو متحد ہوکر کر نا ہوگا اور ایشیائی عوام کے امن ‘ اُن کی ترقی و بقاءاور اُن کے تحفظ ومستقبل کے لئے ایشیائی طاقتوں کا اتحاد بھی ازبس ضروری ہو گیا ہے۔