ہمارے دشمن بھارت کے ساتھ کھڑا امریکہ بھلا ہمارا دوست کیسے ہو سکتا ہے
امریکی پینٹاگون کا پاکستان کی پانچ کروڑ ڈالرکی دفاعی گرانٹ روکنے کا اقدام اور محکمہ خارجہ کا پاکستان کیلئے خطرناک نتائج کا عندیہ
امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کیخلاف خاطرخواہ اقدامات نہ اٹھانے کا الزام لگا کر پاکستان کی رواں سال کیلئے پانچ کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روک لی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق وزیر دفاع جیمز میٹس نے کانگرس کو بتایا کہ پاکستان کیلئے 2016-17ء کے دفاعی فنڈز جاری نہیں کئے گئے کیونکہ بطور امریکی وزیر دفاع وہ اس امر کی تصدیق نہیں کر سکے کہ پاکستان نے افغان طالبان کے حمایتی حقانی نیٹ ورک کیخلاف مناسب اقدامات اٹھائے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان ایڈم سٹمپ نے اس سلسلہ میں بتایا کہ اس اقدام سے وائٹ ہائوس کی ایشیاء سے متعلق پالیسی کے جائزے اور نتائج پر برا اثر نہیں پڑیگا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پینٹاگون نے گزشتہ سال بھی پاکستان کی 3 کروڑ کی دفاعی امداد روک لی تھی جبکہ سپورٹ فنڈز کی مد میں پاکستان کیلئے 550 ملین ڈالر کی امداد منظور کی گئی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس نے ملک میں دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے فنڈز جمع کرنے کیخلاف مناسب اقدامات نہ کئے تو اسے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ غیرملکی میڈیا نے دہشت گردی پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جاری کردہ رپورٹ برائے 2016ء کا حوالہ دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ اس رپورٹ میں پاکستان کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اہم اتحادی قرار دینے کے باوجود ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے ذریعے ایک مجرمانہ فعل قرار دے رکھا ہے تاہم پاکستان میں تحقیقات میں عدم وسائل اور کمزور عدالتی نظام کے باعث اب تک بڑی تعداد میں اس جرم کا ارتکاب کرنیوالوں کیخلاف کارروائی نہیں کی جا سکی۔
پاکستان کے امریکی اتحادی بننے کے بعد اسکی پاکستان کے ساتھ طوطاچشمی کے واقعات ایک تلخ حقیقت کی صورت میں تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ دو روز قبل امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کانگرس میں پیش کی گئی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کی گئی کہ وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے اور لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں 2016ء کے بعد بھی پاکستان سے چلائی جارہی ہیں جنہیں منظم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مالی مدد بھی فراہم کی جارہی ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ہی پینٹاگون کی جانب سے پاکستان کی رواں سال کیلئے پانچ کروڑ ڈالر کی دفاعی گرانٹ روکی گئی ہے جو دہشت گردی کی جنگ میں اسکے فرنٹ لائن اتحادی کے قربانیوں سے لبریز کردار کی نفی ہی نہیں‘ اسکی توہین کے بھی مترادف ہے۔ گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکی کانگرس کو سالانہ بجٹ میں پاکستان کیلئے فوجی ہارڈویئر کی مد میں دی گئی گرانٹ قرض میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی گئی جس کیلئے ایک مسودہ قانون بھی تیار کرکے کانگرس میں پیش کیا گیا جبکہ وائٹ ہائوس کے ڈائریکٹر نے پاکستان کی دفاعی امداد کم کرنے کا عندیہ بھی دیا اور کہا کہ امریکہ پاکستان کو اب پیسے نہیں‘ صرف گارنٹی دیگا۔ اسکے ساتھ ساتھ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان میں طالبان کی مبینہ پناہ گاہوں کا جواز نکال کر اسکے بارے میں پالیسی مزید سخت کرنے کا بھی عندیہ دیا اور بتایا کہ پاکستان کا نان نیٹو بڑے اتحادی کا درجہ کم کرکے اسکی سرزمین پر ڈرون حملوں میں اضافہ کیا جائیگا اور اسکی امداد روک لی جائیگی یا امداد کے حجم میں تبدیلی عمل میں لائی جائیگی۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم مودی کے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے مودی کو اپنے ساتھ بٹھا کر پاکستان سے تقاضا کیا کہ وہ اپنی سرزمین دیگر ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔ ٹرمپ نے اس موقع پر کشمیری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد بھی قرار دیا جس کا مودی نے خیرمقدم کیا۔ اس امریکی پالیسی سے تو پاکستان کے ساتھ اسکی دوستی کے بجائے کھلی دشمنی کا عندیہ مل رہا ہے جو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی بھی پشت پر کھڑا ہے اور اسکی جانب سے پاکستان سے کئے جانیوالے تقاضاوں پر اسکی ہاں میں ہاں ملارہا ہے جبکہ کابل انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے حوالے سے عائد کئے جانیوالے الزامات پر امریکہ اسے بھی تھپکی دینا نظر آتا ہے تو اس کیلئے ہمارے فرنٹ لائن اتحادی والے کردار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی پرائی جنگ میں کود کر پاکستان نے نیٹو ممالک کے مجموعی نقصانات سے بھی زیادہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے جس کے دس ہزار جوانوں اور افسروں سمیت مجموعی 70 ہزار کے قریب شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے اور اسکی معیشت کو اربوں ڈالر کے نقصانات کا جھٹکا لگا جبکہ دہشت گردی سے پیدا ہونیوالی غیریقینی کی صورتحال سے پاکستان میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی رک گیا جس سے ہماری معیشت کا پہیہ جامد ہو کر رہ گیا مگر طوطاچشم امریکہ آج سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کیلئے منظور کی گئی دفاعی گرانٹ بھی جاری کرنے کا روادار نہیں ہورہا اور پاکستان کی سالمیت کے درپے بھارت کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے لاتعداد معاہدے کرکے اور ہر قسم کے اسلحہ کی تیاری میں اسکی معاونت کرکے پاکستان پر حملہ آور ہونے کے اسکے عزائم کو مزید تقویت پہنچا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ ننگی دشمنی پر اترے افغانستان کی بھی امریکہ سرپرستی کررہا ہے جو ہر دہشت گردی کا ہم پر ملبہ ڈال کر امریکی لب و لہجے میں ہم سے ڈومور کے تقاضے کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایک مربوط ڈوژیئر کی شکل میں اس امر کے ٹھوس ثبوت اور شواہد بھی امریکی دفتر خارجہ کو پیش کئے جاچکے ہیں کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گرد افغان سرزمین سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جو یہاں خودکش حملے اور دہشت گردی کی دوسری گھنائونی وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ ٹھوس ثبوت کابل انتظامیہ کو بھی پیش کئے گئے اور اشرف غنی کی افغان حکومت سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث طالبان لیڈر ملا فضل اللہ کیخلاف اپریشن کرنے یا اسے پاکستان کے حوالے کرنے کا تقاضا کیا جاتا رہا جسے کابل انتظامیہ نے درخوراعتناء نہیں سمجھا اور اسکے برعکس ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ جب پاکستان نے دہشت گردوں کا داخلہ روکنے کیلئے طورخم اور چمن سرحد بند کی تو کابل انتظامیہ پاکستان کے ساتھ باقاعدہ دشمنی پر اتر آئی جس کی فورسز نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیئے جبکہ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرلیا۔ اب اگر امریکی ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت اور افغانستان کے بے سروپا الزامات کی بنیاد پر پاکستان کی دفاعی امداد روکنے سمیت اسکے بارے میں سخت پالیسی اختیار کرنا طے کیا ہے یہ ہم اپنے فرنٹ لائن اتحادی کے ساتھ اسکی طوطاچشمی کی ہی بدترین مثال نہیں‘ اسے دانستہ طور پر خود سے دور دھکیلنے کے بھی مترادف ہے۔
جہاں تک دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہر ممکن کارروائی عمل میں لانے کا معاملہ ہے اس کیلئے ہمیں امریکی ڈکٹیشن کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ دہشت گردی کے ناسور سے مکمل اور مستقل خلاصی ہماری اپنی ضرورت ہے چنانچہ پاکستان اپنے مفادات کے تحت دہشت گردوں کے ہر ٹھکانے پر خود بلاامتیاز اپریشن کررہا ہے جس کے خاطرخواہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس وقت اپریشن ردالفساد اور کومبنگ اپریشن ملک بھر میں جاری ہے جبکہ خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر خیبرفور کے نام سے ہماری سکیورٹی فورسز کا ایک جامع اپریشن بلاامتیاز جاری ہے‘ اسکے باوجود امریکی ٹرمپ انتظامیہ اور پینٹاگون کی جانب سے دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے اور شکوک و شبہات کا اظہار کرکے سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانیوالی ہماری دفاعی گرانٹ بھی روک لی جاتی ہے تو ہمارے ساتھ اس سے بڑی امریکی بے وفائی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی پالیسی کے تحت ہماری سرزمین پر ڈرون حملے بھی بڑھا دیئے ہیں جس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے اب تک کے پانچ ماہ کے عرصہ کے دوران ہماری سرزمین پر چھ امریکی ڈرون حملے ہوچکے ہیں۔ ایسی امریکی پالیسی سے افغانستان میں امریکی خواہش کے مطابق امن و استحکام کی فضا تو شاید ہی ہموار ہو پائے گی مگر اس سے پاک امریکہ تعلقات میں ضرور دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں۔ پاکستان بہرصورت ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جسے اپنی سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا امریکہ اپنے تحفظ کی خاطر اٹھا سکتا ہے جبکہ پاکستان کے بارے میں امریکی نظرثانی شدہ پالیسی سے اس کیلئے ہماری جانب سے ’’ڈومور‘‘ کی گنجائش بھی اب ختم ہوچکی ہے۔ ہمیں اب علاقائی امن و سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس میں اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے سفاک دشمن بھارت کے ساتھ کھڑا امریکہ بھلا ہمارا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔