نئے مالی سال کا بجٹ اور شعبۂ تعلیم
تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار ممکن نہیں اور ہر مہذب معاشرہ میں حصول تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ تعلیم انسان کو شعور فراہم کرتی ہے اور تعلیم کی بدولت ہی ایک معاشرہ ترقی کی راہ میں دوسری اقوام سے مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔جن ممالک نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ ان کی حقیقی دولت ان کی نوجوان نسل ہے ، انہوں نے ان کیلئے تعلیم ،سائنس، انجینئرنگ اور جدید علوم میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور ترقی کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے بہت آگے نکل گئے۔ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ تعلیم کے حصول کا کوئی ایک مقصد نہیں، یہ مختلف حالات و معاشرت میں متنوع ہو سکتے ہیں، تاہم اس کے پانچ بڑے مقاصد میں بچوں کو بہترین شہری بننے کی تربیت فراہم کرنا، ایک ہنر مند افرادی قوت کا حصول، بچوں کو اپنی ثقافت سے روشناس کروانا اور اس کا فروغ، طالب علموں میں غور و فکر کی عادت کو پروان چڑھانا، نوجوان نسل کے اندر بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا، شامل ہیں۔
پاکستان میں وفاق اور پنجاب میں قائم مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں شعبۂ تعلیم کو ہمیشہ سے مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی علم دوست پالیسیوں کی بدولت ملک میں تعلیم عام ہو رہی ہے اور ہر امیر و غریب والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے خواہاں ہیں۔ حکومت کی ترجیحات میں شعبۂ تعلیم کو اولیت حاصل ہے اور اس کا ثبوت گزشتہ دنوں وفاق اور پنجاب کے پیش ہونیوالے آئندہ مالی سال 2017-18ء کے بجٹ ہیں جس میںشعبۂ تعلیم کیلئے خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے 18-2017 کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 90 ارب 51 کروڑ 60 لاکھ روپے جبکہ صحت کے لیے 12 ارب 48 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ تو کیا گیا ہے تاہم اس شعبے کے مبصرین اس سے کئی گنا زیادہ اضافے کی تجاویز دیتے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے تعلیم کے لیے بجٹ میں 6.1 فیصد کا اضافہ تجویز کیا ہے، جو کہ 73 کروڑ 90 لاکھ روپے بنتا ہے۔ 2016-17ء کے بجٹ میں حکومت نے 84 ارب 19کروڑ 50لاکھ روپے مختص کیے تھے تاہم تعلیم پر 84ارب 70 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ کیے گئے جبکہ 17-2016 کے بجٹ کی مجموعی مالیت 43 کھرب 90 ارب روپے تھی۔حالیہ 18-2017 کے بجٹ کی مجموعی مالیت 47 کھرب 50 ارب روپے ہے جس میں سے تعلیم کے لیے 90 ارب 51 کروڑ 60 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ مختص بجٹ میں پری پرائمری اور پرائمری تعلیم کے میدان میں 8 ارب 74 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے۔سیکنڈری ایجوکیشن کی بہتری کے لیے 10 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ مختص کیے گئے ہیں۔انتظامی امور کے لیے ایک ارب 28 کروڑ 60 لاکھ روپے جبکہ تعلیمی خدمات کے لیے ایک ارب 28 کروڑ 60 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے بجٹ میں بھی شعبۂ تعلیم کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے او ردونوں شعبوں کیلئے بجٹ میں خطیر فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں شعبہ تعلیم میں مجموعی طور پر 345 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے اوریہ گزشتہ مالی سال کے مختص کردہ فنڈز سے تقریباً 33 ارب روپے زیادہ ہے۔ صوبے کی تاریخ میں شعبہ تعلیم کیلئے پہلی بار وسائل میں اتنا زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔ صرف ہائیر ایجوکیشن کے لئے بجٹ میں 44 ارب 60 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ 50 نئے ڈگری کالجز ‘ ٹیچرز اکیڈمی اور 3نئی یونیورسٹیز کی عمارتوں کی تعمیر سمیت ہائیر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے 16ارب روپے سے زائد کے فنڈز مہیا کیے گئے ہیں۔ لیپ ٹاپ سکیم کے چوتھے مرحلے کے لئے 7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے شہباز شریف میرٹ سکالرشپ کے تحت 80کروڑ روپے اور چیف منسٹر لینگویج پروگرام کے تحت 70 کروڑ روپے کے سکالرشپ دیئے جائیں گے۔ زیور تعلیم پروگرام کے تحت پنجاب کے 16 پسماندہ اضلاع میں لڑکیوں کے وظائف میں اضافہ کیا گیا ہے اور اس پروگرام سے قوم کی 4 لاکھ 62 ہزار بیٹیاں تعلیم سے مستفید ہو رہی ہیں جبکہ آئندہ مالی سال میں اس پروگرام کیلئے 6 ارب 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں،اس پروگرام کے باعث سکولوں میں شرح داخلہ میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ شرح داخلہ برقرار بھی رہی ہے۔ ’’خادم پنجاب سکول پروگرام‘‘ کے تحت سکولوں میں ہزاروں اضافی کمرے تعمیر کئے جا رہے ہیں۔اس منصوبے کیلئے 6 ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے اور مجموعی طور پر صوبے کے پرائمری سکولوں میں 36 ہزار نئے کلاس روم تعمیر کئے جائیں گے اوراس اقدام سے سکولوں میں شرح داخلہ میں اضافہ ہوگا۔
اس بجٹ کے اجمالی جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت شعبۂ تعلیم کو بہت اہمیت دے رہی ہے اور علم دوست حلقوں نے اس بات کو بہت سراہا ہے۔ تاہم اب بھی اس شعبہ میں بہتری لانے کیلئے متعدد عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے جدید اور بامقصد تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ اس کے ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال میں لایا جا ئے۔ موجودہ دور میں میڈیا تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں درجنوں ٹیلی وژن چینلز اپنی نشریات پیش کر رہے ہیں اگر وہ اپنی نشریات کا ایک حصہ تعلیم کیلئے وقف کر دیں تو نسلِ نو اس سے بہت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت پاکستان یا نجی شعبہ میں ایسے ٹیلی وژن چینلز قائم کیے جائیں جو ہمہ وقت تعلیم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔ ملک میں یکساں نصاب اور یکساں نظام تعلیم کا مطالبہ ایک عرصہ سے کیا جا رہا ہے ،حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے لہٰذا اس کا تعلیمی نصاب نظریاتی بنیادوں پر ترتیب دیا جائے تاکہ ہماری نئی نسلیں اپنے بنیادی نظریات سے آگاہ ہو سکیں۔