خلیجی بحران میں پاکستان کا غیرجانبدار رہنا ہی بہترین حکمت عملی ہوگی

خلیجی بحران میں پاکستان کا غیرجانبدار رہنا ہی بہترین حکمت عملی ہوگی

وزیراعظم نوازشریف کا خلیجی ممالک میں کشیدگی ختم کرانے کیلئے ثالثی مشن اور سعودی فرمانروا سے ملاقات

پاکستان نے سعودی عرب اور قطر کے مابین اختلافات ختم کرانے کیلئے کوششیں شروع کردیں۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم محمد نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ثالثی مشن پر گزشتہ روز سعودی عرب پہنچ گئے اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور دوسرے سعودی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم ہاﺅس کی جانب سے جاری ہونیوالے بیان کے مطابق آرمی چیف کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار اور مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز بھی وزیراعظم کے ہمراہ سعودی عرب گئے۔ سعودی عرب کے بعد اب وزیراعظم نوازشریف کے متحدہ عرب امارات اور قطر کے دورے کا بھی امکان ہے۔ سعودی عرب روانگی سے قبل وزیراعظم نے عرب ملکوں میں تعینات پاکستان کے سفیروں کی کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان برادر اسلامی ملکوں کے مابین تناﺅ ختم کرانے کیلئے مخلصانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک سے پاکستان کے گہرے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب پہنچنے پر گورنر مکہ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے وزیراعظم نوازشریف اور انکے وفد کے ارکان کا استقبال کیا۔ سعودی عرب روانگی سے قبل ایک اجلاس میں وزارت خارجہ کے حکام اور سفیروں نے خلیجی ملکوں میں جاری بحران پر وزیراعظم کو بریفنگ بھی دی۔ وزیراعظم کے ترجمان کے مطابق میاں نوازشریف کی قیادت میں وفد سعودی رائل پیلس پہنچا تو سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے وفد کا استقبال کیا۔ بعدازاں وزیراعظم اور شاہ سلمان میں ملاقات بھی ہوئی جس کے دوران دونوں قائدین میں خلیجی ممالک کے اختلافات اور خطے کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ¿ خیال ہوا۔ وزیراعظم سعودی عرب میں چھ گھنٹے کے مختصر قیام کے بعد منگل کی صبح ملک واپس آگئے ۔
وزیراعظم نوازشریف کا دورہ¿ سعودی عرب بلاشبہ ہمہ جہت تھا۔ انہوں نے پانامہ لیکس کی انکوائری کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی میں جمعرات کے روز پیش ہونے کا اعلان کرنے کے بعد سعودی عرب جا کر اپنے مخالفین کو بادی النظر میں یہ پیغام دیا کہ وہ انکے پیدا کردہ حالات کے پیش نظر خود پر کسی قسم کا دباﺅ محسوس نہیں کرتے جبکہ موجودہ صورتحال میں آرمی چیف کے انکے ہمراہ جانے سے بھی سسٹم کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہونے کا تاثر قائم ہوا جو وزیراعظم کی سیاسی حکمت عملی کی کامیابی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کی ایران اور قطر سے کشیدگی کے حوالے سے حکومت پر اپوزیشن اور رائے عامہ ہموار کرنیوالے دوسرے حلقوں کی جانب سے سخت دباﺅ تھا کہ پاکستان خلیجی ممالک کے تنازعہ میں فریق بننے کے بجائے غیرجانبدار رہے اور برادر خلیجی ممالک کا تنازعہ طے کرانے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرے۔ اس معاملہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اپوزیشن کا شورشرابا جاری تھا اور حکومت کو باور کرایا جارہا تھا کہ پاکستان کو سعودی فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ اس حوالے سے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی سے دستبردار کراکے پاکستان واپس بلوانے کے تقاضے بھی شدومد سے جاری تھے۔ چنانچہ وزیراعظم نے تناﺅ کی اس فضا میں سعودی عرب کا دورہ اور خلیجی تنازعہ کے حل کیلئے سعودی فرمانروا سے تبادلہ¿ خیال کرکے اس تنازعہ میں پاکستان کے فریق ہونے کا تاثر زائل کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ انکی مفاہمت کی کوششوں سے سعودی عرب کے ایران اور قطر کے ساتھ جاری تنازعات طے کرنے میں مدد حاصل ہوتی ہے تو یقیناً یہ انکی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور ایک مدبر کی حیثیت سے انکی سیاسی ساکھ مستحکم ہوگی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام دشمن قوتیں مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی مختلف سازشوں میں مصروف ہیں جن میں مسلم ممالک کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کا حربہ کامیاب ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔ بدقسمتی سے فرقہ ورانہ تعصبات اور فروعی اختلافات کے باعث برادر سعودی عرب اور ایران میں جاری کشیدگی گزشتہ کچھ عرصہ سے شدت اختیار کرچکی ہے جسے سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کے باعث مزید تقویت حاصل ہوئی‘ کیونکہ اس جنگ میں ایران نے کھل کر یمن کے حکومت مخالف حوثی قبائل کا ساتھ دیا‘ اس صورتحال میں پاکستان کی اس حوالے سے آزمائش تھی کہ وہ برادر مسلم ممالک کے باہمی تنازعہ میں کسی ایک کے ساتھ فریق نہ بنے۔ بے شک پاکستان کے برادر سعودی عرب سے دیرینہ دوستانہ مراسم ہیں اور دونوں نے آزمائش کے ہر مرحلہ میں ایک دوسرے کا بے لوث ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب تو توانائی کے بحران سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے بھی پاکستان کی معاونت میں پیش پیش رہا ہے جبکہ حرمین الشریفین کی مقدس دھرتی ہونے کے ناطے سعودی عرب کے ساتھ اسلامیانِ پاکستان کی جذباتی وابستگی بھی ہے اور وہ سعودی دھرتی کے مقدس مقامات کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں تک نچھاور کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ اس بنیاد پر مسلم ملک ہونے کے ناطے پاکستان کا سعودی عرب کی جانب جھکاﺅ فطری امر نظر آتا ہے تاہم ایک آزاد اور خودمختار ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی مربوط قومی خارجہ پالیسی اس امر کی متقاضی ہے کہ تمام برادر مسلم ممالک کے ساتھ مساوی دوستانہ مراسم استوار ہوں۔ اس تناظر میں برادر پڑوسی ملک ہونے کے ناطے ایران کے ساتھ کسی قسم کی ناراضگی یا بداعتمادی کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ اس صورت میں ایران کا جھکاﺅ ہمارے دیرینہ شاطر دشمن بھارت کی جانب ہو سکتا ہے جو پہلے ہی اس حوالے سے مختلف سازشوں کے تابے بانے بن رہا ہے اور اپنے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن کے ذریعے پاکستان اور ایران کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر بھی چکا ہے۔
اسی پس منظر میں سعودی عرب اور یمن کے تنازعہ کے دوران پارلیمنٹ میں طویل بحث مباحثہ کے بعد متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں پاکستان کے غیرجانبدار رہنے اور دونوں برادر مسلم ممالک کے مابین مفاہمت کیلئے ثالثی کا مدبرانہ کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس قرارداد کی روشنی میں ہی پاکستان نے برادر سعودی عرب اور ایران کو بھی مفاہمت کیلئے ثالثی کے کردار کی پیشکش کی جس کی ایران کی جانب سے خاصی پذیرائی ہوئی تاہم مفاہمانہ کوششوں کی یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ پھر سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا اعلان کیا گیا جس میں ایران‘ یمن اور متعدد دوسرے مسلم ملک شامل نہیں تھے اور پاکستان کی اس اتحاد میں شمولیت کا بھی سعودی عرب کی جانب سے ہی اعلان کیا گیا تو اس سے جہاں سعودی عرب ایران کشیدگی میں اضافہ ہوا وہیں پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کی حمایت کا تاثر بھی پیدا ہوا۔ اسی دوران سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مسلم فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کی پیشکش کے معاملات زبانِ زدعام ہوئے تو اس سے بھی خلیجی ممالک کے تنازعات میں پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ فریق بننے کا تاثر پیدا ہوا چنانچہ حکومت نے بھی جنرل (ر) راحیل کے معاملہ میں محتاط طرز عمل اختیار کرلیا اور ان کا فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کا معاملہ وقتی طور پر دب گیا تاہم دو ماہ قبل حکومت کی رضامندی سے جنرل (ر) راحیل کے مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے سے اس اتحاد کے ناطے پاکستان کے فریق بننے کی صدائے بازگشت پھر سنائی دینے لگی جسے ریاض میں منعقدہ امریکہ مسلم سربراہی کانفرنس سے مزید تقویت حاصل ہوئی جس میں امریکی صدر ٹرمپ اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے بطور خاص ایران کو فوکس کرکے اسے دہشت گردی کا منبع قرار دیا اور دوسرے مسلم ممالک پر ایران سے تعلقات منقطع کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا۔ اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پیدا ہوا کہ جنرل راحیل کی کمان میں مسلم فوجی اتحاد کو ایران‘ یمن اور قطر پر چڑھائی کیلئے بروئے کار لایا جائیگا۔ جب سعودی عرب اور پانچ دوسری عرب ریاستوں نے گزشتہ ہفتے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کئے اور امریکہ نے بھی قطر کیخلاف اقدامات کی حمایت کی تو جنرل (ر) راحیل شریف کی کمان میں قائم مسلم فوجی اتحاد کی تشکیل کے حوالے سے پیدا شدہ شکوک و شبہات کو بھی مزید تقویت حاصل ہوئی چنانچہ اس صورتحال میںپاکستان کا غیرجانبدار رہنا اور بھی ضروری ہوگیا۔
یہی وہ پس منظر ہے جو وزیراعظم نوازشریف کے ہنگامی دورہ¿ سعودی عرب کا باعث بنا ہے۔ ان پر پانامہ کیس کے حوالے سے اندرونی دباﺅ اپنی جگہ مگر خلیجی ممالک کے تنازعہ میں پاکستان کی پوزیشن کلیئر کرنے کی ذمہ داری بھی وزیراعظم پر ہی عائد ہوتی ہے جس سے عہدہ¿ برا¿ ہونے کیلئے انہوں نے پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنے نجی خانگی معاملات کی بھی پرواہ نہیں کی اور پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد لے کر سعودی عرب پہنچ گئے۔ اس حوالے سے انکی سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے جوبھی بات چیت ہوئی‘ قومی مفاد کا یہی تقاضا ہے کہ وہ اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اور پارلیمنٹ کے ذریعے قوم کو بھی اس سے آگاہ کردیں کیونکہ جب تک جنرل (ر) راحیل شریف کے پاس مسلم فوجی اتحاد کی قیادت رہے گی‘ اس اتحاد میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سوالات اٹھتے رہیں گے۔ اگر تو وزیراعظم کی کوششوں سے خلیجی ممالک کے مابین جاری کشیدگی ختم ہو جاتی ہے اور بالخصوص سعودی عرب اور ایران کے مابین اعتماد کی فضا قائم ہو جاتی ہے‘ جس کا معروضی حالات میں کم ہی امکان نظر آتا ہے تو جنرل (ر) راحیل شریف کیلئے فوجی اتحاد کی کمان سنبھالے رکھنے کا جواز پیدا ہو سکتا ہے تاہم خلیجی ممالک کی باہمی چپقلش برقرار رہتی ہے جو اپنے مفادات کے تابع امریکہ کا مطمئع نظر ہے تو فوجی اتحاد میں جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں پاکستان پر جانبداری کا لیبل لگ سکتا ہے۔
یہ صورتحال ہمارے لئے دور اندیشی کی متقاضی ہے اور وزیراعظم نوازشریف نے اس میں فی الواقع مدبرانہ کردار ادا کرنا ہے۔ اس حوالے سے وہ اپنے دورہ سعودی عرب کے ذریعے کتنے سرخرو ہوئے ہیں‘ اس کا برادر سعودی عرب کی جانب سے سامنے آنیوالے ردعمل سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر سعودی عرب کی ایران اور قطر کے ساتھ کشیدگی کم نہیں ہوتی تو ہمارے لئے یہی بہتر حکمت عملی ہوگی کہ جنرل راحیل شریف کو دستبردار کراکے خود کو فوجی اتحاد سے الگ کرلیا جائے‘ بصورت دیگر ہم خود بھی خلیجی ممالک کے مابین جاری کشیدگی کی لپیٹ میں آسکتے ہیں جو ملکی سلامتی کے تقاضوں کے حوالے سے ہمارے لئے کسی صورت سودمند نہیں۔