ریاض سربراہی کانفرنس میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کے معاملہ پر ترجمان دفتر خارجہ کی غیرمنطقی وضاحت

ریاض سربراہی کانفرنس میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کے معاملہ پر ترجمان دفتر خارجہ کی غیرمنطقی وضاحت

صدر ٹرمپ کا وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں بھارت کو دہشتگردی سے متاثرہ قرار دینا چہ معنی دارد؟دفتر خارجہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب میں صرف وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو نہیں بلکہ مجموعی 30 ممالک کے سربراہان کو خطاب کا موقع نہیں ملا اور وقت کی قلت کے باعث خطاب کا موقع نہ ملنے پر شاہ سلمان نے تمام رہنماﺅں سے معذرت بھی کی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اس سلسلہ میں گزشتہ روز اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ امریکہ‘ سعودی اسلامی سربراہ کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کو اپنی تقریر میں نظرانداز کرنے کا تاثر بھی غلط ہے۔ انکے بقول صدر ٹرمپ کی جانب سے ان ممالک کا نام لیا گیا جن کی کانفرنس میں نمائندگی نہیں تھی جبکہ انہوں نے مجموعی طور پر مسلمان ممالک کا ذکر کیا کہ وہ سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہورہے ہیں۔ انکے بقول امریکی قیادت نے مختلف مواقع پر پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیر کی تحریک آزادی کو بدنام کرنے کیلئے دہشت گردی کے الزامات لگا رہا ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی سرپرستی میں جعلی داعش کا قیام تشویشناک ہے‘ عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف سے کامیابی کے بھارتی دعوے کو بھی غلط اور گمراہ کن قرار دیا۔ انکے بقول عدالت نے صرف پھانسی کا عمل روکا ہے جبکہ ہم مقدمے کی اگلی سماعت کیلئے تیاری کررہے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سعودی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کا حتمی فیصلہ اس اتحاد کے ٹی او آر بننے کے بعد ہی کیا جائیگا۔
اس وقت جبکہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں انتہائی اہم اور نمایاں کردار ادا کررہا ہے جس نے اس جنگ میں نیٹو اتحاد میں شامل پچاس ممالک کی مجموعی قربانیوں سے بھی زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں‘ بالخصوص دہشت گردی کے خاتمہ کی کسی اجتماعی حکمت عملی کیلئے بلائی گئی علاقائی یا عالمی کانفرنس میں تو پاکستان کے کردار اور قربانیوں کا بطور خاص تذکرہ ہونا چاہیے جبکہ دہشت گردی کیخلاف کسی مشترکہ حکمت عملی کا تعین بھی پاکستان کے تجربات کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے تو یہ زیادہ مو¿ثر حکمت عملی ہوگی۔ اس تناظر میں ریاض میں منعقدہ امریکہ سعودی اسلامی سربراہی کانفرنس میں‘ جو بطور خاص دہشت گردی کے خاتمہ کی کسی مشترکہ حکمت عملی کے تعین کیلئے منعقد کی گئی‘ خود میزبان سعودی عرب اور امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے کردار اور قربانیوں کا تذکرہ نہ کرنا محض اتفاقی اور وقت کی قلت کی بنیاد پر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ بادی النظر میں دانستہ طور پر پاکستان کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان نے پاکستان سمیت ان 30 ممالک سے خود معذرت کی جن کے نمائندگان کو کانفرنس میں خطاب کا موقع نہیں مل سکا۔ یہ انکی وسیع الظرفی ہے تاہم جب مصر‘ انڈونیشیا اور ملائیشیا تک کے سربراہان کو کانفرنس میں خطاب کا موقع مل گیا تو اس تناظر میں وزیراعظم پاکستان کو خطاب کیلئے مدعو نہ کرنے کا بادی النظر میں کوئی جواز نظر نہیں آتا کیونکہ دہشت گردی کے موضوع پر منعقدہ عالمی کانفرنس میں پاکستان سے زیادہ بہتر اور کس کی نمائندگی ہو سکتی ہے۔ مصر میں ہونیوالی دہشت گردی کا پس منظر تو وہاں کے آمر حکمران حسنی مبارک کیخلاف اٹھنے والی متشدد عوامی تحریک تھی جسے امریکی سرپرستی حاصل تھی اس لئے دہشت گردی سے متاثر ہونیوالے ممالک میں مصر کا بھی پاکستان کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا جبکہ انڈونیشیاءاور ملائیشیا کا تو سرے سے دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں شمار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان تین ممالک کے سربراہان کو متذکرہ عالمی کانفرنس میں خطاب کا موقع مل گیا تو وقت کی قلت کے جواز کے تحت بھی وزیراعظم پاکستان کو خطاب کی دعوت نہ دینا قرین قیاس نظر نہیں آتا کیونکہ وزیراعظم نوازشریف کو اس کانفرنس میں مدعو کرنے کیلئے خود سعودی وزیرخارجہ اسلام آباد آئے تھے جنہیں کانفرنس ہال میں بٹھا کر یکسر فراموش کردیا گیا حالانکہ وہ اس کانفرنس میں خطاب کی مکمل تیاری کرکے آئے تھے۔ اس پر سعودی فرمانروا کی معذرت سر آنکھوں پر مگر اس معذرت میں بھی پاکستان کا نام نہیں لیا گیا اور مجموعی طور پر نام لئے بغیر ان 30 ممالک کا تذکرہ کیا گیا جن کے نمائندگان کو کانفرنس میں خطاب کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ اس تناظر میں ترجمان دفتر خارجہ کی وضاحت محض خفت مٹانے کی ایک ناکام کوشش نظر آتی ہے جبکہ کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان کو نظرانداز کرنا اس حقیقت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے جس نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ جاندار کردار بھی ادا کیا ہے اور سب سے زیادہ قربانیاں بھی دی ہیں۔ اس کردار اور قربانیوں کا تذکرہ کئے بغیر دہشت گردی کیخلاف مشترکہ حکمت عملی کے تعین کیلئے منعقد کی گئی کسی عالمی کانفرنس کی بھلا کیا وقعت ہو سکتی ہے اور ترجمان دفتر خارجہ بھلا اس حقیقت کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے دہشت گردی سے متاثرہ مسلم ممالک کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی پاکستان کا نام لینا گوارا نہ کیا اور وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں بھارت کو دہشت گردی سے متاثرہ ملک قرار دیا جبکہ بھارت ہی پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اسے دہشت گردی سے متاثرہ ملک قرار دینا چہ معنی دارد؟
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ترجمان دفتر خارجہ ریاض سربراہی کانفرنس میں پاکستان کو نظرانداز کئے جانے کے معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میزبان سعودی عرب اور شریک میزبان امریکہ کی پاکستان کے ساتھ بے اعتنائی پر ان ممالک کے دفاع کا فریضہ بھی خود ہی ادا کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ امریکہ یا سعودی عرب کی جانب سے بطور خاص پاکستان کے ساتھ کئے گئے ”حسن سلوک“ پر کسی قسم کے معذرت خواہانہ رویے کی جھلک تک نظر نہیں آئی۔ اگر دفتر خارجہ کو ملک کے وقار‘ عزت اور تشخص کی پاسداری ہے تو اسکے ساتھ ہزیمت پر مبنی روا رکھے گئے سلوک پر کسی ازخود وضاحت کی نہیں‘ سفارتی ادب آداب کے تقاضوں کے مطابق مناسب اور مو¿ثر احتجاج کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کسی کے دل میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کی کوئی سوچ پیدا نہ ہو جبکہ ترجمان دفتر خارجہ نے ریاض سربراہی کانفرنس کے حوالے سے اپنے طور پر وضاحت کرکے ” گونگلوﺅں“ سے مٹی جھاڑنے کی کوشش کی ہے جو کسی طور بھی پاکستان کی عزت و توقیر کی پاسداری سے تعبیر نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح ترجمان دفتر خارجہ نے سعودی قیادت میں قائم مسلم ممالک کے فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے معاملہ کی بھی عاجلانہ وضاحت کی ہے کہ جب اس فوجی اتحاد کے ٹی او آر وضع ہونگے تو پاکستان اس میں شمولیت کا حتمی فیصلہ کریگا۔ جب پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے حکومت پاکستان کی باضابطہ اجازت کے ساتھ اس فوجی اتحاد کی سرپرستی قبول کرلی ہے جو عملاً اس اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے مترادف ہے تو اسکے بعد کون سے ایسے ٹی او آر وضع ہونے مقصود ہیں جن کی روشنی میں پاکستان کو اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا ہے۔ اب تو اس اتحاد کے اصل مقاصد بھی اجاگر ہوچکے ہیں جو دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر اس اتحاد کو برادر مسلم ملک ایران پر چڑھائی کیلئے بروئے کار لانے سے متعلق ہیں کیونکہ ریاض سربراہی کانفرنس میں میزبان سعودی فرمانروا نے بطور خاص ایران کا نام لے کر اسے دہشت گردی کا منبع قرار دیا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی فرمانروا کے اس موقف کی تائید کی اور مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی سے نجات کیلئے ایران کو عالمی طور پر تنہاءکر دیں۔ جب مسلم سربراہی کانفرنس میں سعودی فرمانروا نے ایران پر یہ لیبل لگادیا کہ وہ دیگر ملکوں کے معاملات میں مداخلت کررہا ہے اور دنیا میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیتے ہوئے یہ الزام عائد کردیا کہ وہ لبنان سے عراق اور یمن تک دہشت گردوں کی تربیت‘ فنڈنگ اور انہیں اسلحہ فراہم کررہا ہے اور افراتفری پھیلانے کیلئے انتہاءپسند گروپ بنا رہا ہے تو اس حوالے سے امریکہ سعودی اسلامی سربراہی کانفرنس کی جانب سے یہ واضح پیغام تھا کہ مسلم ممالک کے نیٹو فوجی اتحاد کو ایران کی سرکوبی کیلئے استعمال کیا جائیگا۔ اسکے بعد دفتر خارجہ پاکستان کو اور کون سے ٹی او آر کا انتظار ہے جن کو دیکھ کر پاکستان کی مسلم فوجی اتحاد میں شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ کیا جانا ہے۔ اصولی طور پر تو اب جنرل راحیل شریف کا مسلم فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کئے رکھنے کا بھی کوئی جواز نہیں رہا کیونکہ انکی قیادت میں اتحادی افواج کو دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر ایران یا کسی دوسرے مسلم ملک پر چڑھائی کیلئے استعمال کیا جائیگا تو ایسی کسی کارروائی میں پاکستان کا غیرجانبدار ہونے کا تاثر برقرار نہیں رہ سکے گا جبکہ اپنی قومی خارجہ پالیسی کے تحت ہم کسی ایک ملک کی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت میں فریق نہیں بن سکتے۔ ہم نے متعلقہ ممالک میں سازگار فضا کی بحالی کیلئے کردار ادا کرنا ہے جیسا کہ یمن اور سعودی عرب کی باہمی چپقلش کے دوران ان دونوں ممالک اور ایران سعودی عرب میں مفاہمت کیلئے بھی پاکستان نے کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس تناظر میں ترجمان دفتر خارجہ کو حقائق سے چشم پوشی اور لیپاپوتی کے بجائے اصل حقائق کو کھول کر بیان کرنا چاہیے اور پاکستان کی خودمختاری‘ تشخص اور وقار پر کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہیے۔ قوم ایسی کسی وضاحت پر یقین کرنے کو قطعاً تیار نہیں جو حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے پیش کی گئی ہو۔