استاد کو بھی عزت دیجئے

استاد کو بھی عزت دیجئے

استاد کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے ۔استاد نہ صرف بچوں کو تعلیم و تربیت دیتا ہے بلکہ وہ آنے والے وقت کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی ضرورت کے مطابق ایک سوچ پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔ہر معاشرے میں استاد کو ہمیشہ سے عزت و احترام حاصل رہا ہے۔ اور ہر معاشرے کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں استاد کا کردار بھی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ استاد تعلیم کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ اور ثقافتی روایات کو بھی طلبا کے ذہن نشین کرانے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ مسلم معاشرے میں استاد کو بہت زیادہ عزت کا حق دار بتایا گیا ہے۔ وقت کے بہت بڑے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے مامون الرشید اور امین الرشید تھے دونوں ایک بار استاد امام نسائی کی مجلس سے اٹھے تو دنوں استاد کو جوتے پکڑانے کیلئے لپکے ۔دونوں میں اس بات پر تقرار بھی ہو گئی ۔استاد کی عزت کرنے والے لائق بچوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں ایک ایک جوتا اپنے استاد کو پکڑائیں گے۔ جب خلیفہ وقت کو معلوم ہوا تو اس نے امام نسائی کو بلایا اور نہایت عزت و احترام سے پوچھا کہ آپ بتائیے اس مملکت میں زیادہ عزت والا کون ہے ۔امام کسائی نے فرمایا کہ بے شک زیادہ عزت کے حقدار خلیفہ وقت ہیں ۔جواب میں ہارون الرشید نے کہا سب سے زیادہ عزت والا تو وہ ہے جس کے جوتے اٹھانے کیلئے خلیفہ کے بیٹوں میں جھگڑا ہونے لگے ۔خلیفہ ہارون ارلشید نے کہا امام صاحب بے شک آپ ہی زیادہ عزت کے حق دار ہیں ۔ اور اگر آپ نے میرے بیٹوں کو اس کام سے روکا تو میں آپ سے ناراض ہو جاوں گا ۔استاد کی عزت کرنے سے میرے بچوں کی عزت کم نہیںہوتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے ۔اور ایک تاریخی فقرہ کہا کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا مرتبہ حاصل کرلے ۔بڑا عالم بن جائے ٟدنیا کی نظر میں معتبر ہوجائے وہ کبھی بھی اپنے والدین ٟاستاد اور قاضی کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا ہے ۔جب تک ہم نے استاد کو عزت دی۔ ہمارے اندر والدین اور معاشرتی قوانین کا احترام برقرار رہا ہم نے دنیا پر حکمرانی کی ۔جدید طرز تعلیم جسے لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم بھی کہا جاتا ہے ۔یہ نظام تعلیم دو ہی طبقے پیدا کر رہا ہے ۔ایک حکمران طبقہ اور دوسرا غلام ۔اگر ہمارا نظام تعلیم ہمیں والدین ٟاستاد اور قانون کا احترام کرنا سکھاتا تو آج ہمارا معاشرہ بھی دنیا کی برابری کرسکتا ۔کسی طاقتور جاہل استاد کو ہمت ہی نہ ہوتی کہ سرِ عام استاد کو بے عزت کرتا پھرے ۔اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ فرانس میں ان کا چالان ہوگیا اور وہ چالان جمع کرانے عدالت گئے۔جب جج کو معلوم ہوا کہ سامنے کھڑا شخص ایک استاد ہے تو جج اپنی کرسی سے کھڑا ہوگیا ۔اور حیرت سے کہا ’’استاد عدالت میں ‘‘اشفاق احمد فرماتے ہیں جج نے نہایت عزت و احترام سے انہیں رخصت کیا۔ رمضان کی آمد آمد ہے دل تو کر رہا تھا کہ رمضان میں زخیرہ اندوزی کر کے مسجدوں میں افطاری کرانیوالوں کیلئے کچھ لکھتا ۔مگر اخبارات میں ایک واقعہ پڑھ کے دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔کسی سرکاری افسر کا کسی امتحانی سنٹر کا دورہ کرنا کوئی بری بات نہیں ہے ۔مگر طاقت کے نشے میں چور میں ہمارے یہ لارڈ اپنے آپ کو کوئی اور ہی مخلوق سمجھتے ہیں ۔انہیں نہ عمر کا لحاظ رہا ہے نہ ہی اپنی عہدے کا ۔ایک وقت تھا جب تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی خیال رکھا جاتا تھا ۔انسان کی شخصیت سے پتہ چل جاتا تھا کہ وہ کتنا صاحب علم ہے ۔مگر پھر وقت بدلنے لگا اور ہم مغرب کی اندھی تقلید کرنے لگے ۔ہماری تعلیم کا میعار صرف اور صرف معلومات حاصل کرنا رہ گیا ۔تعلیم پیسہ کمانے کا زریعہ بننے لگی ۔استاد بچے کو اچھا شہری بنانے کی بجائے بہتر مستقبل کے گُر سکھانے لگے تو پھر ایسی ہی قوم تیار ہونے تھی ۔کوٹ مومن میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کا سرکاری کالج جا کے پروفیسر کی کرسی پر بیٹھ جانا ثابت کرتا ہے کہ وہ خود کو واقعی لارڈ سمجھتی ہوں گی ۔جو فرق انگریز اور مقامی کے درمیان تھا وہ انگریز کے جانے کے بعد انکے مقامی غلاموں نے برقرار رکھا ہوا ہے ۔استاد خواہ کسی پرائمری سکول کا ہی کیوں نہ وہ مکمل عزت کیے جانے کا حقدار ہوتا ہے ۔مگر محترمہ کے دل میں شائد عزت دینے والا خانہ ہی خالی تھا اسی لیے باپ کی عمر والے استاد کو زبان درازی کرنے کے جرم میں حوالات کی سیر کرانے میں دیر نہ لگائی ۔کہتے ہیں کالج کے پرنسپل صاحب نے عرض بھی کی تھی کہ محترمہ آپ کو جومعلومات چاہیں وہ دی جائیں گی مگر جہاں آپ بیٹھی ہیں یہ کرسی میری ہے ۔یہاں مجھے بیٹھنے دیجیے تا کہ میں بہتر طور پر آپ کو تفصیلات فراہم کرسکوں۔میری عمر بھی آپ سے زیادہ ہے اور میرا گریڈ بھی آپ سے بڑا ہے ۔مگرطاقت کا نشہ بھلادیتا ہے کہ استاد کا مقام کیا ہے ۔استاد کو قوم کا محسن بھی کہتے ہیں ۔اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ نے ساتھ موجود پولیس کو حکم دیا کہ گرفتار کر لو اس بوڑھے کو اسے اپنے آقاوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے ۔اور ایک بزرگ استاد کو حوالات کی سیر کرادی ۔ابھی پچھلے ہفتے ہی ہمیں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ سیالکوٹ جانے کا موقع ملا تھا جہاں خادم اعلی مستقبل کے معماوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے تھے ۔کیسا خوبصورت ماحول تھا ۔کیا خادم اعلی کے علم یہ بات نہیں لائی گئی کہ جن بچوں سے وہ آسماں چھونے کی توقع کر رہے ہیں ان بچوں کے استاد کی انکے افسر کیا عزت کر رہے ہیں ۔خادم اعلی چین سے واپس تشریف لا چکے ہیں۔ ا ن سے گزارش ہے کہ جہاں بچوں کیلئے بہترین مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں ۔وہیں استاد کیلئے بھی کچھ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔استاد کچھ نہیں مانگتا ہے مگر ایک استاد عزت ضرور چاہتا ہے ۔ایک بزرگ استاد کو بے عزت کرنے والی سرکاری افسر کو معطل کیا جانا چاہیے۔ اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم نے ملکی اداروں کی بنیادیں کھوکھلی کی ہوئی ہیں ۔استاد کو پہلے ہی کونسی عزت دی جارہی ہے جو رہی سہی کسر سرکاری افسران پوری کر رہے ہیں ۔ میرٹ کی بات کرنیوالے میاں شہباز شریف صاحب ایک استاد کو میرٹ پر انصاف دیجیے ۔استاد صرف عزت مانگتا ہے ۔اس سے مردم شماری کروائیے ۔الیکشن میں ڈیوٹیاں دلوائیے مگر جسے معمار ِ قوم کہتے ہو اسے عزت نہ دی تو قوم کی تعمیر کیسے ہو پائے گی ۔