اب دفاع وطن کیلئے رسمی احتجاج سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے

اب دفاع وطن کیلئے رسمی احتجاج سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے

چمن میں افغان فورسز اور کنٹرول لائن پر بھارتی فوجوں کی پاکستان کے اندر بلااشتعال فائرنگ و گولہ باری


افغانستان سے بلوچستان کے شہر چمن کے علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں افغان فورسز کی مردم شماری ٹیم کی سکیورٹی پر تعینات ایف سی اہلکاروں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے گزشتہ روز ایک خاتون اور دو بچوں سمیت گیارہ افراد شہید اور 50 زخمی ہوگئے‘ جن میں چار ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں۔ متعدد زخمیوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ پاک فوج نے جوابی کارروائی کرکے افغان فورسز کی متعدد چوکیوں کو تباہ کردیا جبکہ متعدد افغان فوجیوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی ہیں۔ اس کشیدہ سرحدی صورتحال کے باعث افغان بارڈر اور باب دوستی کو بند کردیا گیا ہے جبکہ تعلیمی ادارے بھی غیرمعینہ مدت کیلئے بند کردیئے گئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جمعۃ المبارک کی صبح چار بجے ایف سی کے سکیورٹی دستے پاکستانی علاقے کلی لقمان اور کلی جہانگیرآباد میں مردم شماری کی ٹیموں کی سکیورٹی کے فرائض کی انجام دہی کیلئے پہنچے تو افغان فورسز نے بلااشتعال فائرنگ شروع کردی اور سویلین آبادی پر بھی مارٹر گولے پھینکے۔ پاک فوج کی جانب سے افغان فورسز کی اس فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیا گیا جس کے نتیجہ میں متعدد افغان فوجیوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ افغان فوجی اپنی چوکیاں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دوسری جانب پورے شہر میں دکانیں اور اہم تجارتی مراکز بند ہوگئے ہیں اور لوگ چمن سے نقل مکانی کررہے ہیں جبکہ پاک فوج کے تازہ دم دستے بھی افغان فورسز کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے بھاری توپخانے کے ساتھ پہنچ گئے ہیں۔ فورسز نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے افغان فورسز کی جانب سے ایف سی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے عمل کو افسوسناک قرار دیا۔
دریں اثناء پاکستان میں تعینات افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان سے افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ پر سخت احتجاج کیا گیا اور اس امر کا تقاضا کیا گیا کہ بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ فوری طور پر ختم کرکے خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ایف سی اہلکاروں پر افغان بارڈر پولیس کی فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات خطے میں امن و استحکام کیلئے ہماری کوششوں کیخلاف ہیں۔ اسی طرح دفتر خارجہ کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کو باور کرایا گیا کہ پاکستان اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ ایک جانب تو افغان فورسز بلوچستان میں عملاً پاکستان کیخلاف جارحیت کی مرتکب ہوئیں اور درجن بھر بے گناہ شہریوں کو شہید کیا اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر کھوئی رٹہ سیکٹر میں بھارتی فوج کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بناتے ہوئے بلااشتعال فائرنگ کی گئی تاہم پاک فوج نے مؤثر جوابی کارروائی کی جس پردشمن کی گنیں خاموش ہوگئیں۔ افغانستان اور بھارت کی جانب سے جس جارحانہ انداز میں بیک وقت پاکستان کے سرحدی علاقوں کی شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا‘ اس سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ کابل انتظامیہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں میں برابر کی شریک ہے اور افغان حکمران مسلم برادرہڈ والے جذبے سے عاری نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے کرزئی کے دوراقتدار میں کابل انتظامیہ امریکی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ’’ڈومور‘‘ کے امریکی تقاضوں میں اپنی آواز بھی شامل کرتی رہی جبکہ کرزئی امریکی نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملے کی ترغیب بھی دیتے رہے حالانکہ پاکستان نے افغانستان کی سلامتی کے تحفظ کیلئے ہی اس خطے میں شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا تھا جس کے نتیجہ میں وطن عزیز دہشت گردی کی آماجگاہ بنا چنانچہ افغانستان کی سلامتی بچاتے بچاتے پاکستان خود عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔ ہماری ارض وطن اس جنگ کے الائو میں آج بھی جھلس رہی ہے اور ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے ہنوز میدان عمل میں ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھنے والے دہشت گرد افغانستان سے ہی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جبکہ انکی تربیت‘ اسلحہ کی فراہمی اور فنڈنگ بھارت کی جانب سے ہوتی ہے۔ اس طرح افغانستان عملاً بھارت کا آلۂ کار بن کر پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے۔ گزشتہ روز جس وحشیانہ انداز میں افغان فورسز کی جانب سے پاکستان کے اندر ایف سی اہلکاروں اور شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی گئی اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان کے ساتھ خداواسطے کا بیر رکھنے والی کابل انتظامیہ بھارت ہی کی طرح پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے اور بھارت ہی کے لب و لہجے میں کابل انتظامیہ کی جانب سے ہر دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جاتا ہے جو درحقیقت بھارتی ایجنڈے ہی کا حصہ ہے۔
افغانستان میں نیٹو فورسز کے قیام کے دوران طالبان اور دوسری انتہاء پسند تنظیموں کے لوگ جتھہ بند ہو کر افغان سرحد عبور کرتے اور پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملہ آور ہوتے رہے۔ اسکے باوجود پاکستان سے مسلم برادرہڈ کو پیش نظر رکھا اور کابل انتظامیہ سے محض رسمی احتجاج پر اکتفا کیا جاتا رہا۔ اسکے برعکس کابل انتظامیہ اس وقت بھی پاکستان کیخلاف ننگی جارحیت پر اتری نظر آتی تھی جبکہ اب تو کابل انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی۔ اس مقصد کے تحت ہی بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کو دہشت گردوں کی تربیت کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی اور دنیا شاہد ہے کہ یہی دہشت گرد افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے رہے ہیں۔ انہیں لامحالہ کابل انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی اس لئے پاکستان کی عسکری قیادتوں کی جانب سے ان دہشت گردوں کے افغانستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں کی نشاندہی اور بریفنگ کے باوجود افغان صدر اشرف غنی نے نہ صرف ان دہشت گردوں کیخلاف اپریشن سے گریز کیا بلکہ پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ اسکے برعکس پاکستان نے ہر عالمی اور علاقائی فورم پر افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ہر موقع پر کابل انتظامیہ کو بھی مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ مگر کابل انتظامیہ نے اس کا صلہ بھارت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کی صورت میں دیا۔
پاک افغان سرحد پر ڈیورنڈ لائن کی آئے روز کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر پاکستان نے گزشتہ سال اپنی سرحد کی جانب گیٹ لگانے کا فیصلہ کیا جس پر کابل انتظامیہ کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور عملاً جنگ کی کیفیت پیدا کردی گئی۔ پاکستان نے پھر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا مگر افغانستان بچھو کی طرح ڈنک مارنے سے باز نہ آیا اور پاکستان میں دہشت گرد بھجوانے کیلئے بھارتی ’’را‘‘ کوبدستور مکمل سہولت فراہم کی جاتی رہی۔ گزشتہ سال بلوچستان سے گرفتار ہونیوالے ’’را‘‘ کے دہشت گرد کلبھوشن نے اپنے اعترافی بیان میں پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارت اور افغانستان کی مشترکہ سازشوں کو ہی بے نقاب کیا تھا چنانچہ اسکی نشاندہی پر اسکے ساتھ کام کرنیوالے افغان جاسوس بھی حراست میں لئے گئے۔ اس سال کے آغاز میں لاہور میں خودکش حملے کی گھنائونی واردات ہوئی جس کے ایک ہفتے بعد سیہون شریف میں دربار سخی لال شہباز قلندر پر ایک سو کے قریب بے گناہ زائرین کو سفاکانہ دہشت گردی کے ذریعے خون میں نہلا دیا گیا تو ان وارداتوں کی کڑیاں بھی افغانستان سے پاکستان داخل ہونیوالے دہشت گردوں کے ساتھ جا ملیں جس کے بارے میں لاہور حملے کے سہولت کار نے گرفتاری کے بعد سارے حقائق کھول کر بیان کردیئے۔ اس پر پاکستان نے افغان سرحد بند کرنے کا فیصلہ کیا تو کابل انتظامیہ کی چیخیں نکل گئیں چنانچہ پاکستان نے مسلم برادرہڈ کے تحت ہی سرحد دوبارہ کھول دی۔ اسکے باوجود کابل انتظامیہ نے پاکستان کیخلاف سازشیں ترک نہ کیں اور افغان سرحد کے راستے پاکستان میں بھارتی دہشت گردوں کے داخلے کا سلسلہ برقرار رہا۔ گزشتہ ہفتے کابل اور اسلام آباد کے مابین دہشت گردی کے خاتمے کیلئے باہمی تعاون کے مشترکہ میکنزم پر بھی اتفاق ہوا مگر کابل انتظامیہ نے پاکستان کیخلاف اپنا خبث باطن ترک نہیں کیا چنانچہ اسکی آشیرباد سے ہی گزشتہ روز افغان فورسز چمن بلوچستان میں پاکستان کے اندر ایف سی کی چیک پوسٹوں اور مردم شماری کی ٹیم کی حفاظت کیلئے مامور ایف سی اہلکاروں پر فائرنگ اور گولہ باری کی مرتکب ہوئی ہیں جس کا بادی النظر میں کوئی جواز بھی نظر نہیں آتا کیونکہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے مابین کسی قسم کی کشیدگی بھی موجود نہیں تھی بلکہ دہشت گردی کے خاتمہ کی ممکنہ مشترکہ حکمت عملی طے کرنے پر کام جاری تھا۔
افغانستان کی جانب سے پیدا کی گئی سرحدی کشیدگی کی یہ صورتحال اب اس امر کی ہرگز متقاضی نہیں کہ کابل انتظامیہ سے پہلے کی طرح محض رسمی احتجاج کیا جائے جیسا کہ گزشتہ روز افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا ہے۔ اگر افغانستان بھی ہمارے دیرینہ روایتی دشمن بھارت ہی کی طرح ہمارے ساتھ کھلم کھلا دشمنی پر اترا ہوا ہے اور اب افغان فورسز خود پاکستان کے اندر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کرکے سکیورٹی اہلکاروں اور معصوم شہریوں کا خون ناحق بہا رہی ہیں تو یہ صورتحال افغانستان کی جانب سے ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے اس لئے وہ ہماری جانب سے اسی سلوک کا مستحق ہے جو دشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہمیں اب دشمن کی گود میں بیٹھے افغانستان پر مسلم برادرہڈ باربار آزمانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اگرچہ پاک فوج کی جانب سے گزشتہ روز افغان فورسز کو منہ توڑ جواب دیا گیا ہے تاہم کھلم کھلا جارحیت پر اسے ایسا سخت جواب دینے کی ضرورت ہے کہ اسے آئندہ ہماری سلامتی و خودمختاری کی جانب میلی آنکھ سے بھی دیکھنے کی جرأت نہ ہو۔ اس سلسلہ میں افغان سرحد پر افغانیوں کی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی سلامتی سے زیادہ تو بہرصورت اور کچھ عزیز نہیں ہو سکتا اس لئے اقوام عالم اور عالمی اداروں کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف جاری بھارتی اور افغان سازشوں سے مکمل آگاہ کیا جائے اور دونوں سرحدوں پر دفاع وطن کے تقاضے مکمل طور پر نبھائے جائیں تاکہ ملکی اور قومی سلامتی کو گزند تک پہنچانے کی بھی کسی کو جرأت نہ ہو۔