طبی‘ تعلیمی اور رہائشی سہولتیں نہیں .... گرانی کا سدباب!

طبی‘ تعلیمی اور رہائشی سہولتیں نہیں .... گرانی کا سدباب!

ملک بھر کے عوام میں سیاسی صورت حال کی سنگینی‘ سلامتی کو درپیش ممکنہ خدشات اور جمہوری نظام کے بارے میں طرح طرح کی باتیں زیربحث ہیں۔ یہ بات ان کے فہم و ادراک میں بھی نہیں تھی کہ جمہوری نظام کے مزے لوٹنے والے جمہوری ایوانوں میں براجمان ہوتے ہی ان کروڑوں محروم اور مجبور لوگوں سے کئے گئے وعدوں اور اپنے انتخابی نعروں کو یکسر فراموش کر دیں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کے عوام کی عظیم اکثریت اقتصادی‘ طبی‘ تعلیمی اور ہوشربا گرانی کے جس خوفناک بھنور میں گرفتار ہے۔ اس کے ہولناک نتائج کا اندازہ ان کے سوا کوئی ایسا طبقہ نہیں لگا سکتا۔ جس کو ایسے حالات سے واسطہ ہی نہ پڑا ہو۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ لوڈشیڈنگ‘ ضروریات زندگی کی حواس باختہ مہنگائی‘ تعلیمی پسماندگی‘ علاج معالجے کا فقدان‘ رہائشی سہولتیں اور بیروزگاری کسی مخصوص علاقے کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 70ءفیصد پاکستانی ایسے ہیں جو خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس سے زیادہ شرم کی بات ایک ایٹمی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے کروڑوں عوام دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے ہیں۔ مگر ان کے جمہوری ایوانوں میں براجمان نمائندوں سمیت ایوان اقتدار کے مکین کھربوں پتی ہیں۔ ایسے چند ہزار خاندانوں کی دھنی دولت کا کوئی حساب نہیں اس بحث سے قطع نظر اگر اس حقیقت کا جائزہ لیا جائے کہ ملک کے مفلوک الحال کروڑوں لوگوں کو جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے کی راہ میں جس روح فرسا گرانی کا سامنا ہے تو اس کی سو فیصد ذمہ داری ارباب اقتدار پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ تمام تر وسائل حکومت کے زیرقبضہ ہیں۔ جن کی ریکارڈ مہنگائی نے کروڑوں ملکی لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور وہ لوگ فاقوں سے اپنی توانائی کھو چکے ہیں۔ ایسی اشیاءمیں کھانے کا تیل‘ گھی‘ پٹرول‘ ڈیزل‘ سوئی گیس‘ بجلی‘ پانی‘ چاول‘ آٹا‘ کپڑا‘ مرغی کا گوشت اور انڈے وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں چینی کے جتنے بھی کارخانے ہیں وہ حکمران خاندان ان کے ساتھیوں‘ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ہیں۔ اسی طرح کھانے کا تیل اور گھی کے بیشتر کارخانے بھی اسی طبقے کی ملکیت ہیں۔ کپڑے یعنی ٹیکسٹائل ملیں بھی اسی طبقے کے لوگوں ہیں۔ سوئی گیس براہ راست حکمرانوں کے زیرانتظام‘ بجلی کی صورتحال بھی یہی ہے۔ پولٹری مصنوعات جو مرغی کے گوشت اور انڈوں سے عبارت ہے ایوان اقتدار کے مکینوں کی ملکیت میں ہے۔ پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات کا کاروبار بھی حکومت چلاتی ہے‘ جہاں تک دالوں اور سبزیوں کا تعلق ہے۔ یہ اجناس ایسے بڑے بڑے زمینداروں کی اراضیات کی پیداوار ہیں جو اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ یہی صورت حال پھلوں کی ہے۔ عوامی نمائندگی کے دعویدار سبھی وڈیرے اور جاگیردار باغات کے مالکان ہیں۔ ان میں بیشتر ارباب حکومت کے حاشیہ بردار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ طویل و عریض اراضیات کے مالکان جاگیردار اور وڈیرے دالوں اور سبزیوں کی جو قیمتیں مقرر کر دیتے ہیں۔ ان کے مربّی حکمران من و عن ان پر مار کرتے ہیں اور کسی چھان پھٹک یا پیداواری لاگت کی بنیاد پر شرح منافع مقرر کرنے کی زحمت کئے بغیر جاگیرداروں ہی کی مقرر کردہ قیمتوں کو سرکاری طور پر مقرر کر دیا جاتا ہے۔ حکومت نے کبھی ان اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا تعین مسلمہ اصولوں کی روشنی میں کرنے کی زحمت کبھی گوارا ہی نہیں کی۔ جس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کے ہمنوا وڈیروں اور جاگیرداروں کی حمایت کا حصول ہوتا ہے۔
اسی طرح کھانے کا تیل‘ چینی‘ کپڑا‘ مرغی کا گوشت اور انڈے وغیرہ کی قیمتوں کو فاقہ کش عوام کی قوت خرید کے اندر لانے کے لئے بھی حکمرانوں نے سوچا تک نہیں۔ جبکہ یہ اشیاءبراہ راست ان کی ذاتی ملکیت میں ہیں۔ اس صورت حال کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے مفلوک الحال اور قلاش کروڑوں عوام بنیا صفت‘ جاگیرداروں‘ زمینداروں‘ گھی مل مالکان‘ چینی کے کارخانہ دار اور ملکی وسائل پر اختیارات کے حامل چند ہزار خاندانوں کا تختہ¿ مشق بنے ہوئے ہیں۔ ملک کے خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے انہیں ضروریات زندگی کی ان بارہ چودہ اشیاءکو سستے داموں مہیا کرنا قطعی طور پر حکمرانوں کے دائرہ اختیار میں ہے۔ کہنے کو تو وفاق اور ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں مگر ارباب اختیار نے بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم کے فرمودات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ کم از کم مسلم لیگ کے آج کے قائدین کو بھی یہ بات کبھی نہ بھولنی چاہئے کہ حضرت قائداعظم فرسودہ جاگیرداری اور سامراجیت کو جو عدل و مساوات سے عاری ہو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم نے 1943ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطبے میں دوٹوک الفاظ میں فرمایا تھا کہ ”یہاں میں ان زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کر دینا چاہتا ہوں جو ہماری وجہ سے ہی خوب پھل پھول رہے ہیں۔ یعنی ایک ایسے نظام کے ذریعے جو انتہائی ناقص اور غلط ہے اور جس نے انہیں اس قدر مطلبی اور مفاد پرست بنا دیا ہے۔ ان کے خون میں عوام کا استحصال رچ بس گیا ہے۔ وہ اسلام کے سبق کو بھول چکے ہیں۔ ہوس اور خود پرستی میں یہ خود فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میں متعدد دیہات میں گیا ہوں۔ وہاں ہمارے لاکھوں لوگوں کو دن میں ایک وقت کی پیٹ بھر کر روٹی بھی میسر نہیں ہوتی۔ کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ پاکستان کی غرض و غایت کیا یہی ہے؟ اگر پاکستان کی غرض و غایت یہی ہے تو پھر ہمیں ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔“ یوں لگتا ہے کہ حضرت قائداعظم نے اپنے وجدان کی بنیاد پر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے حالات کی نشاندہی کی تھی کہ آج کے پاکستان میں عوام کی عظیم اکثریت کو ضروریات زندگی کی جس ہوشربا گرانی کا سامنا ہے اس میں انہیں ایک وقت کی پیٹ بھر روٹی بھی میسر نہیں۔ ان کی جماعت اور ان کے نام کو مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کو اس امر کا احساس کرنا چاہئے۔ پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ارباب حکومت سے صرف متذکرہ بارہ تیرہ اشیاءکے نرخوں کا تعین اس حد تک چاہتے ہیں کہ وہ نرخ ہر مفلوک الحال گھرانے کی قوت خرید میں ہوں ورنہ ملک کی ترقی‘ عوام کی خوشحالی اور معیشت کی بہتری کے سبھی حکومتی دعوے اور نعرے سراسر دیوانے کی بڑ اور سراب قرار پائیں گے۔ آزاد اور خودمختار ملک کے لوگوں کی سی طبی سہولتیں‘ تعلیمی ضرورتیں اور روزگار کے مواقع کی فراہمی کا عوامی خواب تو شاید ارباب حکومت کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کے ہاتھوں پورا نہ ہو سکے مگر لوگوں کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانا تو ارباب اقتدار کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ کیونکہ یہ اشیاءان کی ملکیت یا کنٹرول میں ہیں۔