29ویں عالمی نیورو سرجری کانفرنس

جی آر اعوان
دل‘ جگر اور دماغ اعضائے رئیسہ ہیں‘ انسانی بدن کے سردار اعضاء میں دماغ بہت اہم ہے۔ دماغ میں عقل ہوتی ہے‘ حواس خمسہ اسی عقل کے طابع ہوتے ہیں۔ دماغی امراض کے طرز علاج کو نیورو سرجری کہا جاتا ہے۔ جنرل ہسپتال لاہور میں قائم پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز خطے کی واحد علاج گاہ ہے جہاں نیورولوجی امراض کے جملہ علاج ایک چھت کے نیچے دستیاب ہیں۔
500 بستروں کے اس انسٹیٹیوٹ میں دماغی امراض پر تدریس‘ تحقیق اور تشخص ہمہ وقت جاری ہے۔ اسی حوا سے 29 ویں عالمی نیورو سرجری کانفرنس گزشتہ روز لاہور جنرل ہسپتال کے پنجاب انسٹیٹوٹ آف نیورو سائنسز میں ہو رہی ہے۔ لاہور جنرل ہسپتال کا یہ اعزاز ہے کہ یہ کانفرنس یہاں تیسری مرتبہ ہو رہی ہے۔
پاکستان سوسائٹی آف نیورو سرجنز کے زیراہتمام ہونے والی اس کانفرنس کی سرپرستی اور جملہ انتظامات چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی پروفیسر آف نیورو سرجری ڈاکٹر خالد محمود انجام دے رہے ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود واحد پاکستانی ڈاکٹرہیں جو’’پارکنسن امراض‘‘ یعنی رعشہ کی بیماری کے DBS آپریشن کے بانی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے ان امراض کا علاج ملک بھر میں سرکاری اور نجی سطح پر لاہور جنرل ہسپتال کے علاوہ کہیں نہیں ہوتا،اب اس مرض کاعلاج کرانے کے لئے لوگوں کو بیرون ملک جا نے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مذکورہ بالا کانفرنس کے حوالے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے ’’نوائے وقت‘‘ سے کرتے ہوئے بتایا کہ تین روزہ اس نیور سرجری کانفرنس میں پاکستان بھر سے نیورو سرجنز کے علاوہ 250 ٹرینی ڈاکٹرز شریک ہیں جبکہ امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان‘ سپین اور سعودی عرب کے چوٹی کے نیورو سرجن کانفرنس میں آئے ہیں جن کے تجربات سے پاکستانی ڈاکٹرز استفادہ کر رہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے بتایا کانفرنس کے پہہلے روز پنجاب انسٹیٹیوف آف نیورو سائنسز لاہور جنرل ہسپتال میں ایک ’’عملی تربیت گاہ‘‘ "Skill Lab" ہوئی۔ بیک وقت ہونے والی تین ورکشاپوں میں سب سے پہلے ناک کے ذریعے ’’اینڈو سکوپس کیمرے‘‘ سے سر میں کٹ لگائے بغیر آپریشن کئے گئے۔ خون کی نالیاں آپریشن کے بغیر بند کی گئیں جبکہ کمر کے شدید درد کا علاج جدید تکنیک کے آپریشن سے کیا گیا۔ ان تین ورکشاپوں سے پاکستان بھر سے 110 ڈاکٹروں نے تربیت حاصل کی۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے بتایا جاپان کے نامور معالج پروفیسر ’’کوہاما Kuwa Yama دنیا بھر میں خون کی نالیاں بند کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ کانرنس میں 80 ہزار یورو کی مالیتی ایک مشین "Simulator" لائے جس سے انہوں نے پاکستانی ڈاکٹرز کو مذکورہ بالا جدید ترین علاج کی تربیت دی۔
کانفرنس کے دوسرے روز ملکی اور غیرملکی طبی مندوبین نے 60 کے قریب تحقیقی مقالے پڑھے اور سٹیٹ آف آرٹ لیکچر دیئے گئے جو پاکستانی نیورو سرجنز نے باعث استفادہ ہیں۔ کانفرنس کے دوران لاہور جنرل ہسپتال کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں ہونے والی "Skill Lab" اس کانفرنس کے متھے کا جھومر ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کہتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب میں محمد شہبازشریف کی خواہش پر قائم جدید علاج گاہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز وزیراعلیٰ پنجاب کے خواب کی جیتی جاگتی تعبیر ہے۔ ’’پینزPins‘‘ کی تعمیر کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کو ٹاسک دیا جنہوں نے اس درس اور علاج گاہ کو وجود میں لانے کے محنت شاقہ کی‘ اب تک اس ڈیپارٹمنٹ پر 2 ارب 30 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال 80 کروڑ صرف کئے گئے اور فیز ون کی تکمیل عمل لائی گئی۔ واضح رہے اتنی خطیر رقم محکمہ صحت کے کسی اور ٹیچنگ ہسپتال پر ایک سال میں خرچ نہیں کی گئی۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے پاکستان میں نیورو سرجری کی تاریخ کے حوالے سے بتایا اس طرز علاج کا آغاز 1952ء پروفیسر ڈاکٹر اودی جمعہ نے کراچی میں کیا۔ پنجاب میں بریگیڈیئر جی ڈی قاضی نے 1956ء میں نیورو سرجری کی بنیاد رکھی۔ 1964ء پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد اس سفر میں شریک ہوئے۔
اس وقت لاہور جنرل ہسپتال میں ہر سال ساڑھے پانچ ہزار دماغ اور حرام مغز کے آپریشن کئے جاتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کے مطابق دماغ اور حرام مغز کی بیماری میں ایک پاکستانی مریض کے کیلئے "Pins" آخری امیدگاہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کہتے ہیں اس وقت پاکستان میں 250 مستند نیورو سرجن ہیں۔ پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں 7 لاکھ 20 ہزار افراد کیلئے صرف ایک نیورو سرجن ہے جو مغربی دنیا کے مقابلے میں 8 سے 10 گنا کم ہیں۔ اس وقت ملک میں ہر سال 14 نیورو سرجن بنتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی ملکی آبادی اور امن و امان کی خاطر زیادہ سے زیادہ دماغی امراض کی علاج گاہیں اور معالج وقت کی اہم ضرورت ہیں۔