تعلیمی بورڈز میں پیپرز چیکنگ کا ناقص نظام!

تعلیمی بورڈز میں پیپرز چیکنگ کا ناقص نظام!

ایک بچہ جب بھاری فیس ادا کر کے میٹرک یا انٹر کی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اگر امتحان کے وقت اس کا پرچہ کسی جاہل چیکر کے پاس چلا جائے تو بچہ واویلا تو کرے گا۔ در حقیقت آج کل ہمارے تعلیمی، بورڈز میں پرچوں کی چیکنگ کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔ پہلے یہ طریقہ رائج تھا کہ چند پرچوں کا ایک پیکٹ اس مضمون کے کسی ماہر ٹیچر کو ارسال کردیا جاتا اور ٹیچر وہ پیکٹ چیک کر کے بورڈ کو بھجوادیتا۔ مگر اب صورت حال ہی مکمل بدل چکی ہے۔ اب ضلع میں یا بڑے شہروں میں ایک ایک چیکنگ کا مرکز قائم کردیا جاتا ہے اور تمام مضامین کے پرچے مختلف سنٹرز پر بھجوادئیے جاتے ہیں۔ وہاں ایک انچارج مقرر کردیا جاتا ہے اور بغیر کسی کی تعلیمی قابلیت دیکھے پیپرز چیکنگ کے لئے یوں کہئے کہ دعوت عام ہوتی ہے۔ آج کل گلی محلوں میں پرائیوٹ سکولز اور کالجز کی بھرمار ہے زیادہ تر نجی تعلیمی اداروں سے کم پڑھے لکھے لوگ کم تنخواہ پر رکھے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پیپرز چیکنگ میں ان کو بھی کھلی دعوت ہوتی ہے بس آپ نے ایک پر وفارما پر کرنا ہوتا ہے جسے آپ بورڈ آفس سے یا آج کل بورڈ کی ویب سائٹ سے بھی لوڈ کرسکتے ہیں۔ وہ پروفارما پر کر کے اپنے نجی سکول یا کالج کے پرنسپل سے تصدیق کر ا کے آپ بورڈ آفس لے جائیں وہاں واقفیت سے یا کسی اور طریقے سے آپ کو پیپرز چیک کرنے کا اجازت نامہ مل جاتا ہے۔ اب ٹیچرز کی دوڑ ہوتی ہے کہ اگر ہوسکے تو زیادہ پرچے چیک کر کے زیادہ پیسے کمائے جائیں۔ اب معلوم نہیں مذکورہ ٹیچر اس پرچے کے نصاب کو بھی بخوبی جانتا سمجھتا ہے کہ نہیں۔ کیا وہ پیپر چیکنگ کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر آپ کے تعلقات ہیں تو اگر آپ مضمون انگریزی کا پڑھاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں آپ اردو کے پرچے بھی چیک کرسکتے ہیں۔ یہ سارا کام جلدی میں پایہ تکمیل تک سرانجام دینا ہوتا ہے۔ ایک طالب علم جو دس یا بارہ سال کسی سکول یا کالج میں بھاری فیس ادا کر کے جب بورڈ کے فائنل امتحان میں شامل ہوتا ہے تو اگر اس کا پرچہ کسی ناقص یا کم تعلیم یافتہ ٹیچر کے ہتھے چڑھ گیا تو اس کا تو مستقبل تاریک ہو جاتا ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ طالب علم انصاف کے لئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں دوسری طرف ظلم یہ ہے کہ اگر کسی نا اہل ٹیچر نے پرچہ چیک کرلیا ہے اور نمبر ٹھیک نہیں لگائے تو آپ اسے کہیں بھی چیلنج نہیں کرسکتے آپ بورڈمیں ’’ری مارکنگ‘‘ کی درخواست نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ قانون ہی نہیں ہے۔ ایسے تو ہر کوئی کہے گا کہ میراپرچہ ’’ری مارک‘‘ کیا جائے۔ ہاں ’’ری چیکنگ‘‘ کی درخواست آپ دے سکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے آپ کو جس طرح ذلیل و خوار کیا جاتا ہے تو ویسے ہی دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں۔آپ ری چیکنگ کی فیس جمع کرا کرے باقاعدہ بورڈ آفس میں درخواست دے آئیں۔ مت سمجھئے کہ بورڈ والے توجہ دیں گے۔ ہرگز نہیں۔ آپ سال گھر بیٹھ جائیں بورڈ کا عملہ آپ سے رابطہ نہیں کرے گا آپ کو خود ’’ری چیکنگ‘‘ کے لئے کئی چکر لگانا ہوں گے۔ آخر میں پیپر طالب علم کو دکھائے بغیر کہہ دیا جائے گا کہ جی آپ کو دیا گیا رزلٹ ٹھیک ہے۔ ری چیک کی مد میں بورڈز لاکھوں کروڑوں طالب علموں سے وصول کرلیتے ہیں۔ فائدہ اس کا نہ ہونے کے برابر ہے۔ بورڈز دفاتر میں آپ کو اپنے جائز کام کے لئے بھی یا تو مٹھی گرم کرنی پڑے گی یا کئی روز ذلیل ہونا پڑے گا۔ تعلیمی بورڈ میں متعلقہ افسران سیکرٹری چیئرمین تک ہر کوئی رسائی ہی حاصل نہیں کرسکتا۔ نہ ہی کیس کو ان تک جانے دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ان تک پہنچ ہی جائے تو کہہ دیا جائے گا کہ ’’صاحب‘‘ یا تو میٹنگ میں ہیں یا پھر آفس سے باہر ہیں۔ جہاں تک کلرک وغیرہ کا تعلق ہے وہ تو ’’بادشاہ‘‘ ہوتے ہیں۔
پہلے میٹرک اور انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد پہلی بار سند بغیر فیس کے دی جاتی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امتحانی فیس کے ساتھ ہی سند کی وصولی بھی وصول کرلی جاتی ہے۔ اگر طالب علم مذکورہ امتحان پاس ہی نہیں کرپاتا یا پڑھائی ہی مکمل نہیں کرتا مگر مذکورہ سند کی فیس اب وہ واپس نہیں لے سکتا۔ یہ لوٹ مار کا ایک انوکھا طریقہ ہے۔ بہرحال امتحانی پرچوں کی چیکنگ کا معیاری طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی طالب علم سے زیادتی کا شائیہ تک نہ ہو۔ جہاں تک عملی امتحان (پریکٹیکل) کا تعلق ہے۔ وہ تو نمبر یا پیسے لے کر لگائے جاتے ہیں یا سفارش کے ساتھ عملی امتحان تو ختم ہو جانا چاہئے۔ میٹرک سے لے کر ایم اے اور دیگر اعلیٰ امتحانات میں بھی صرف سفارش کی بنا پر نمبر لگتے ہیں۔ حکومت کی ذاتی مسائل ہی ختم ہونے کو نہیں آتے۔ وزیراعلیٰ کو ان مسائل کا نوٹس فوراً لینا چاہئے۔