مودی کا اسلام آباد سارک سربراہ کانفرنس میں شمولیت پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات سے مشروط کرنے کا عندیہ

مودی کا اسلام آباد سارک سربراہ کانفرنس میں شمولیت پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات سے مشروط کرنے کا عندیہ

یہ بھارت کے دوستی ڈرامے کا ڈراپ سین ہے‘ ہمارے حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے رواں برس نومبر میں پاکستان میں ہونیوالی 19ویں سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات اور اسکے نتائج سے مشروط کردی ہے اور کہا ہے کہ تحقیقات کے نتائج سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں وہ پاکستان نہیں آئینگے تاہم سرکاری ذرائع نے آنیوالے ہفتوں میں امریکہ میں ہونیوالی نیوکلیئر سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر پاکستان بھارت وزراء اعظم کی ملاقات کا عندیہ دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق خارجہ امور کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے گزشتہ دنوں اس امر کا اظہار کیا تھا کہ پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کیلئے بنائی جانیوالی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اپنا کام آئندہ چند دنوں میں مکمل کرلے گی۔ اس سلسلہ میں ایک سینئر سرکاری اہلکار نے انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ بھارت پٹھانکوٹ حملے کی اپنی مرضی کی تحقیقات چاہتا ہے اس لئے اس نے مودی کے دورہ پاکستان کو پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کے ساتھ مشروط کردیا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ تحقیقات غیرجانبدار ہونگی اور جو بھی ملوث ہوا اسے سزا دی جائیگی مگر جو حملے میں ملوث ثابت نہ ہو اسے محض کسی کو خوش کرنے کیلئے سزا نہیں دی جا سکتی۔ دوسری جانب بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کیخلاف پھر ہرزہ سرائی کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ پٹھانکوٹ ایئربیس حملے میں ملوث غیرریاستی عناصر کو اسلام آباد کی مدد حاصل تھی کیونکہ غیرریاستی عناصر کوئی بھی ایسا کام ریاست کی حمایت کے بغیر آسانی سے نہیں کر سکتے۔ انہوں نے گزشتہ روز بھارتی راجیہ سبھا کے اجلاس میں ضمنی سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پٹھانکوٹ حملے کے حوالے سے این آئی اے کی تحقیقات میں سب کچھ سامنے آجائیگا۔
یہ حقیقت تو اب کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور سازگار تعلقات کیلئے ہرگز مخلص نہیں ہے اور دو ماہ قبل پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر دوطرفہ مسائل کے حل کی خواہش پر مبنی جو ڈرامہ بھارت کی اعلیٰ سطح کی قیادت کی جانب سے رچایا گیا وہ سب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش تھی جبکہ بھارت کا اصل چہرہ وہی ہے جو پٹھانکوٹ حملے کے بعد پاکستان کیخلاف بھارتی ہذیانی کیفیت کو آشکارا کررہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال دسمبر میں فرانس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے اچانک ملاقات اور رازدارانہ انداز میں ان سے خوش گپئیوں کا جو سوانگ رچایا وہ درحقیقت بھارت پر دبائو بڑھانے والی عالمی قیادتوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش تھی کہ ہم تو پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کے خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے مسئلہ کشمیر سمیت ہر تنازعہ پر بات چیت کیلئے اسکے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو بھی تیار ہیں۔ بعدازاں دنیا کو یہی تاثر بنکاک میں پاکستان بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کے ذریعہ بھی دینے کی کوشش کی گئی جسے بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے اس سال کے آغاز میں ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کے بہانے اسلام آباد آکر اپنی خوش بیانیوں کے ذریعے تقویت پہنچائی اور ساتھ ہی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کیلئے مودی کی پاکستان آمد کا عندیہ بھی دے دیا جبکہ مودی سرکار کے تیار کردہ ’’امن کی آشا‘‘ والے سٹیج پلے کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس سال جنوری میں ہی اپنے دورۂ ماسکو کے اختتام پر وزیراعظم میاں نوازشریف کی سالگرہ اور انکی نواسی کی رسم حنا میں شرکت کے بہانے کابل سے سیدھے لاہور آپہنچے اور جاتی امرا میں میاں نوازشریف سے غیررسمی بات چیت کرکے دنیا کیلئے ’’دوستی کے رنگ‘ پاکستان کے سنگ‘‘ کا خوب ڈرامہ رچاگئے جبکہ فی الحقیقت وہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے خبثِ باطن کو تقویت پہنچانے کیلئے ہمہ وقت کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا بھارتی حکمران بی جے پی کے منشور کا حصہ ہے جسے عملی جامہ پہنانا ہی اس ہندو انتہاء پسند جماعت کا مطمعٔ نظر ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت تو پاکستان کیلئے ’’سجّی دکھا کر کھّبی مارنے‘‘ والی پالیسی اختیار کئے بیٹھا ہے جسے وہ عملی جامہ بھی پہنا رہا ہے مگر ہماری حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھارت کے ساتھ ہر صورت تعلقات کی بہتری‘ تجارت‘ دوستی اور مختلف بھارتی طبقات کیلئے ویزہ پالیسی میں نرمی تک کی یکطرفہ پالیسی طے کئے بیٹھی ہے جس کا اظہار پٹھانکوٹ حملہ کے بعد بھارتی جارحانہ عزائم کو دیکھ اور پاکستان کی سالمیت کیخلاف بھارتی وزیر دفاع پاریکر کی دھمکیوں کو سن کر بھی معذرت خواہانہ رویے کی صورت میں کیا جارہا ہے۔ پٹھانکوٹ حملہ کے بعد ہمارے حکمرانوں نے تو اس حملے کی تحقیقات اور ملزموں کو کیفرکردار کو پہنچانے کیلئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ اس کیلئے مسعود اظہر کو حراست میں لے کر اور گوجرانوالہ میں مقدمہ درج کرکے عملی اقدامات بھی اٹھالئے گئے اور خود وزیراعظم نوازشریف نے دو ہفتے قبل بھارت کو ملائمت بھرے لہجے میں یقین دلایا کہ ہم پٹھانکوٹ حملے کے ملزمان کو کیفر کردار کو پہنچا کر دم لیں گے‘ اسکے باوجود بھارت پٹھانکوٹ حملے کی آڑ میں پاکستان کو رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہا اور بھارت کے اندر پاکستان دشمنی کے ماحول کو آتش فشاں بنا دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان کو پٹھانکوٹ حملے جیسی تکلیف پہنچانے اور اس کیخلاف امریکہ کی طرز کی کارروائی کرنے کی گیدڑ بھبکی لگائی اور بھارتی وزیر داخلہ سے آرمی چیف تک نے یہی لب و لہجہ اختیار کیا اور خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کو پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کے ساتھ مشروط کیا جو اس امر کا واضح عندیہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی بجائے اسکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی تیاری کررہا ہے۔ اس مقصد کے تحت ہی بھارت نے حالیہ دنوں میں امریکہ کے ساتھ ایٹمی دفاعی اور جنگی تعاون کے متعدد معاہدے کئے‘ خود کو ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ سے لیس کیا اور مزید جنگی تیاریوں کیلئے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ بھی کیا جس کا مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے واشنگٹن میں پاکستان امریکہ سٹرٹیجک مذاکرات کے موقع پر تذکرہ بھی کیا ہے اور باور کرایا ہے کہ پاکستان کو بھارتی جارحانہ عزائم سے خطرہ لاحق ہے اس لئے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کرنے تک ہم بھی اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی نہیں کر سکتے۔
اب اگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کیلئے اسلام آباد آمد کو بھی پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے اور اس سے دفتر خارجہ پاکستان کو آگاہ بھی کر دیا گیا ہے تو اس سے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا تاثر دینے والی بھارتی چالبازی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور اس دوستی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا ہے جبکہ اس سے اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا امکان بھی معدوم ہو گیا ہے کیونکہ اس میں شمولیت سے بھارت کا انکار اس کانفرنس کی بساط لپیٹنے کے مترادف ہے۔ ماضی میں متعدد بار سارک سربراہ کانفرنسیں بھارتی عدم شمولیت کے باعث ہی مؤخر ہوتی رہی ہیں‘ اس بار اگر بھارت پاکستان میں منعقد ہونیوالی سارک سربراہ کانفرنس کو پٹھانکوٹ حملے کی آڑ میں سبوتاژ کررہا ہے تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سازگار تعلقات اور علاقائی امن کیلئے کوششیں بروئے کار لانے میں کتنا مخلص ہے۔
اس بھارتی رویے کے بعد تو ہمارے حکمرانوں کو بھارت کے ساتھ دوستی اور سازگار تعلقات کے راگ الاپنا بند کر دینے چاہئیں اور ملک کی سلامتی محفوظ بنانے کی فکر کرنی چاہیے جبکہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات پر کسی قسم کی مفاہمت کی قوم متحمل ہو سکتی ہے نہ کسی کو اسکی اجازت دیگی۔ اب دشمن سے دشمن والا سلوک ہی ہماری قومی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہونی چاہیے۔